Loading
بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود پاکستان میں متعارف کرائی گئی تاجر دوست اسکیم ناکام رہی، تاہم ملک میں موجود خاموش اور بے آواز تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال کے دوران برآمد کنندگان اور ریٹیلرز کی مجموعی ادائیگی کے دوگنا سے بھی زیادہ ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرایا ہے ۔ ٹیکس نہ دینے والے تاجروں کے خلاف کارروائی نہ پہلے کامیاب ہوئی اور نہ ہی آیندہ کامیاب ہونے کا امکان ہے کیونکہ یہ تاجر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں سے جڑئے ہوئے ہوتے ہیں۔ FBRکے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران تنخواہ دار طبقے سے 552ارب روپے کی تاریخی رقم انکم ٹیکس کی مد میں وصول کی گئی ۔ جب کہ اس کے مقابلے میں برآمدکنندگان نے صرف 80ارب روپے اور تاجروں نے صرف62ارب روپے ٹیکس کی شکل میں قومی خزانے میں جمع کرائے ۔ ذرا اندازہ کریں ۔ برآمد کنندگان نے ڈالر میں آمدنی حاصل کرنے کے باوجود صرف 80ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا ۔ مزید یہ کہ عوام پر کیا گزر رہی ہے اس کا احوال یہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران بجلی کے بلوں کے ذریعے بے زبان صارفین سے ود ہولڈنگ ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 490ارب روپے جمع کیے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی اس بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں جس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی دستاویز کے مطابق جون 2024سے لے کر مئی 2025کے ایک سال کے عرصے میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں 8ہزار 312ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ مئی 2025تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 76ہزار 45ارب روپے رہا ۔ جس میں مقامی قرضہ 53ہزار 460ارب روپے اور بیرونی قرضے کا حصہ 22ہزار 585 ارب روپے تھا۔ بہرحال ان تمام قرضوں پر سود غریب عوام نے ہی ادا کرنا ہے ۔ نتیجہ مزید ٹیکس ۔ مزید مہنگائی ۔اس وقت پاکستان میں کرپشن کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں کھربوں تک پہنچ گئی ہے ۔کرپشن اب انفرادی نہیں اداروں کی سطح پر ہو رہی ہے ۔ مالی سال 2023 سے 2024 تک آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق 300ارب روپے کا نقصان اداروں کی تاخیر اور بدنیتی سے ہوا ۔ کاشتکاروں کو ملنے والے فوائد ان سے چھین کر ذخیرہ اندوزوں اور درآمد کنندگان کو دیے گئے جس کی بنیاد غلط اعداد وشمار گمراہ کن دعوؤں پر کی گئی ۔ ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ اس سال گندم کی تاریخی ریکارڈ پیداوار ہوئی۔ اس کے باوجود کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے 35لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی۔ جب کہ ریزرو میں 46لاکھ 40ہزار میٹرک ٹن گندم حکومت کے گوداموں میں موجود تھی ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اس کا ذمے دار وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت کو قرار دیا۔ جنھوں نے جان بوجھ کر نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کے لیے مقامی کاشتکاروں کو مصدقہ ذرایع کے مطابق 2200 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ اب چینی اسکینڈل ہی دیکھ لیں مارچ 2025میں شوگر ملزمالکان نے حکومت کو کہا کہ چینی ضرورت سے زیادہ ہے اس لیے ایکسپورٹ کی اجازت دی جائے اور یقین دلایا کہ چینی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ ان لوگوں کے بے پناہ دباؤ کا حکومت مقابلہ نہیں کر سکی اور انھیں ایکسپورٹ کی اجازت دے دی ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ چینی 200روپے فی کلو کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ ان کے تو مزے آگئے چینی ایکسپورٹ کرکے یہ لوگ ڈالروں میں کھیل رہے ہیں۔ ایک اور ناقابل یقین کرپشن کیس کہانی! پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈیٹر جنرل کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ زرعی ترقیاتی بینک سے 22ہزار قرض فائلوں میں سے 11400فائلیں غائب ہو چکی ہیں جب کہ بے نظیر کی شہادت کے موقعے پر 5ہزارقرض فائلیں جل گئیں ۔ اجلاس میں ایک اور بڑا انکشاف کہ بعض افراد نے جعلسازی سے خود کو کسان ظاہر کرکے بینک سے 1ارب 25کروڑ کے قرضے حاصل کیے جس میں 400بینک ملازمین ملوث تھے جنھیں ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ۔یعنی ادارے کے اندر ہی ایک منظم نیٹ ورک کا وجود ۔ راتوں رات ارب پتی بننے کی ایک اور مثال الیکٹرک سپلائی کمپنی فیصل آباد کے سابق چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر کی رہائشگاہ پر ایک کال سینٹر بنایا گیا ۔ جہاں عوام کو دھوکا دے کر فراڈ سرمایہ کاری کے ذریعے رقم بٹوری جا رہی تھی ۔ چھاپے کے دوران اس کال فراڈ سینٹر میں کام کرنے والے 149ملازمین کو موقعہ پر گرفتار کر لیا گیا جس میں 73غیر ملکی شہری مرد و خواتین شامل ہیں۔ جو اربوں روپے کے فراڈ میں ملوث ہیں ۔ آخری بات یہ کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کی سرنگ بیٹھ جانے سے ملک وقوم کو 500ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے ۔ اب اس کی دوبارہ تعمیر پر 300ارب روپے خرچ ہونگے ۔ اﷲ پاکستان پر اپنا رحم فرمائے (آمین)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل