Monday, July 14, 2025
 

کنگ نہیں کرکٹرز بنائیں

 



’’مائیک ہیسن نے بابر اعظم سے کہا ہے کہ اگر ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں آنا ہے تو وکٹ کیپنگ کرو‘‘ جب میں نے سوشل میڈیا پر یہ پڑھا تو سمجھ گیا کہ یہ بابر کے ’’ کی بورڈ وارئیرز‘‘ کا کام ہے، اب انھیں مظلوم بنا کر پیش کرتے ہوئے ہیسن پر لفظی گولہ باری ہو گی اور پھر ایسا ہی ہوا، مجھے 100 فیصد یقین تھا کہ ہیسن ایسا منطق سے عاری بیان نہیں دے سکتے۔  بعد میں ’’فیک بیان‘‘ کی تصدیق بھی ہوگئی، جب کوچ سے کسی نے اس بابت پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’میں پاکستانی میڈیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہاں کیا کچھ ہو سکتا ہے‘‘اس پر انھیں بتایا گیا کہ میڈیا تو ذمہ دار ہے یہ سوشل میڈیا والوں کی حرکت ہے،پاکستان میں یہی ہوتا ہے جو بھی کوچ آئے اسے ناکام بنانے کیلیے سازشیں شروع ہو جاتی ہیں،ان میں وہ سابق کرکٹرز پیش پیش ہوتے ہیں جو اپنے مفادات پر ضرب پڑنے نہیں دینا چاہیے۔  گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہیسن نے اب تک ہاتھ پاؤں نہیں کھولے اس لیے محفوظ ہیں جہاں وہ سیٹ ہونے لگے آپ دیکھیے گا ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، یہ اب کوئی راز نہیں کہ بابر اعظم اور محمد رضوان جیسے سینئر کرکٹرز کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں،مسلسل شکستوں کے بعد بورڈ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جب ہارنا ہی ہے تو نوجوانوں کو موقع دینا چاہیے،شاید وہ سیٹ ہو کر پھر سے پاکستان کو فتوحات کی راہ پر گامزن کر دیں۔  یہی سوچ کر سلمان علی آغا کو قیادت سونپی گئی جو اب تک ایجنٹس یا سابق کرکٹرز کی سیاست سے بچے ہوئے ہیں، اگر ورلڈکپ سے قبل نوجوان ٹیم سیٹ ہو گئی تو ہمیں سینئرز کی ضرورت نہیں پڑے گی، ورنہ پھر انہی کو بلانا پڑے گا، ہیسن کو کوچنگ کی ذمہ داری اسی لیے سونپی گئی کہ وہ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر اپنے فیصلے کر سکتے ہیں، گوکہ انھوں نے انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی لیکن اچھی ساکھ کے حامل ہیں۔  اس وقت عاقب جاوید کا بورڈ میں بول بالا ہے، کوچ کو ان سے بنا کر رکھنا ہوگی ورنہ سابقہ غیرملکی کوچز کی طرح جلد گھر واپسی پر مجبور ہونا پڑے گا، ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس اب نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں من پسند کوچز کو لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔  ماضی میں بطور ہیڈ کوچ این سی اے فرائض انجام دینے والے شاہد انور کو انھوں نے ملتان کیمپ لگانے کیلیے بھیج دیا،لیول فور کوچ شاہد نے حال ہی میں آسٹریلیا سے بھی کورس کیا تھا، یوں اب عاقب کیلیے میدان صاف ہے، انھوں نے من پسند کوچز کا تقرر بھی کر لیا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے بطور سلیکٹرز لاہور قلندرز کے چند پلیئرز کو ترجیح دی مگر یہ بھول گئے کہ شاہین شاہ آفریدی کا کیریئر بھی وہی خراب کر رہے ہیں، مسلسل ڈراپ کر کے ان کا اعتماد ویسے ہی کم کر دیا گیا ہے، ہیسن نے شاہین کو اپنی کور ٹیم کا حصہ بنایا ہے تو اعتماد بھی دیں، فاسٹ بولنگ کے شعبے میں کوئی ایسا نوجوان نظر نہیں آتا تو شاہین کی جگہ سنبھال سکے، کوچ نیا بیٹنگ ٹیلنٹ بھی تلاش کریں۔ بھارت میں سچن ٹنڈولکر گئے تو ویراٹ کوہلی آئے، وہ گئے تو اب شبمن گل رنز کے ڈھیر لگا رہے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسا کوئی کھلاڑی موجود نہیں، ماضی کی پرفارمنس پر ہم نے بابر اعظم کو کنگ تک کا لقب دے دیا، وہ اب ٹیسٹ رینکنگ میں 23 ویں نمبر پر ہیں، ٹی ٹوئنٹی کے بھی ٹاپ10 میں شامل نہیں، البتہ ون ڈے میں بہتر کارکردگی نے دوسری پوزیشن پر رکھا ہوا ہے۔  ہمیں بابر بابر کا راگ الاپنے کے ساتھ اب ایسے نئے کھلاڑیوں کو بھی دیکھنا چاہیے جو ملک کیلیے اچھا پرفارم کر سکیں، بابر اور رضوان نے دانستہ اپنے دور میں نئے بیٹرز کو ابھرنے نہ دیا، اب تو ان کے پاس پاور نہیں ہے تو لائیں نئے پلیئرز، بدقسمتی سے حالیہ عرصے میں سامنے آنے والے بیشتر پلیئرز ’’لمبی ریس کے گھوڑے نہیں لگتے‘‘ ہم نے چند اننگز پر صائم ایوب کو برائن لارا بنا دیا، اس سے ہی کھلاڑی کا دماغ خراب ہوتا ہے جس سے کیریئر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی چلا جاتا ہے۔  پلیئرز کو قدم زمین پر رکھنے دیں، کنگ نہیں کرکٹرز بنائیں، کنگ، نولک جیسی باتوں میں پڑنے سے ہی مسائل ہوتے ہیں،نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے گراس روٹ لیول سے کام کرنا ہوگا، باصلاحیت نوجوانوں کو مواقع دیں، بدقسمتی سے ڈومیسٹک کرکٹ جو لوگ سنبھالے ہوئے ہیں انھیں اس کا کوئی تجربہ نہیں، گذشتہ سال جو فیصلے کیے اب خود انھیں تبدیل کر دیا،ان سے کوئی پوچھے کہ بھائی آپ نے تو کہا تھا چیمپئنز کپ سے نئے باصلاحیت پلیئرز کی لائنیں لگ جائیں گی کہاں گئے وہ پلیئرز اور کہاں گیا چیمپئنز کپ؟ آپ تو کہتے تھے ملک میں بڑا ٹیلنٹ ہے 18 ٹیمیں رکھیں اب خود ہی 8 کر دیں، آپ یا تو پہلے غلط تھے یا اب ہیں۔ محسن نقوی پاکستان کرکٹ کو بہتر بنانے کیلیے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں، مگر دیگر اہم ذمہ داریوں کی وجہ سے ساتھیوں کو زیادہ اختیارات دینا پڑے ہیں، ٹیم کے بعض ارکان چیئرمین کی محنت رائیگاں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں دینا چاہتے، عبداللہ خرم نیازی جیسے آفیشلز سے کسی بہتری کی امید نہ رکھیں، عاقب جاوید پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ انھیں حد سے زیادہ اختیارات سونپنا مستقبل میں نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، ابھی تک تو عاقب کا ایک ہی فائدہ نظر آیا ہے کہ ٹیم کی ہر ہار پر ان کی صورت میں تنقید سہنے والا ہدف سامنے آ جاتا ہے جس کے عقب میں دیگر چھپ جاتے ہیں،البتہ اب عاقب کو اکیڈمی میں اپنی افادیت ثابت کرنا پڑے گی، خوش قسمتی سے ابھی بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز جیسی ٹیموں سے سیریز ہیں، اہم حریفوں کے خلاف مقابلوں سے پتا چلے گا کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔  ایک بات طے ہے کہ ہماری کرکٹ بہت پیچھے جا چکی، اس کا ذمہ دار صرف موجودہ کرکٹ بورڈ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کوئی دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں، خرابی لانے کے سب ہی قصور دار ہیں، میں نے اپنے کیریئر میں محسن نقوی سے طاقتور چیئرمین پی سی بی نہیں دیکھا،قائمہ کمیٹی نہ کوئی منسٹری انھیں کسی کو کوئی جواب نہیں دینا، میڈیا اور سابق کرکٹرز بھی ان سے ڈرتے ہیں۔  اگر محسن نقوی کو کوئی انسان عہدے سے ہٹا سکتا ہے تو وہ محسن نقوی خود ہی ہیں، مخالفین نے بہت کوشش کر لی اب انھیں بھی اس کا اندازہ ہو چکا،نقوی صاحب کو ان کی ایمانداری پر یہ ذمہ داری ملی،میں جانتا ہوں وہ بہتری لانا چاہتے ہیں، ملکی کرکٹ کو اگر وہ ٹھیک نہیں کر سکے تو کوئی نہیں کر سکتا،بس تھوڑا وقت کرکٹ کو اور دیں، اچھی ٹیم بنائیں پھر دیکھیں آہستہ آہستہ بہتری آتی نظر آئے گی۔ (نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل