Loading
بھارتی لوک سبھا میں آپریشن سند ور پر بحث جاری ہے۔ لوک سبھا میں گرما گرم تقاریر ہورہی ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کی تقاریر بھی سامنے آچکی ہیں ۔ امیت شاہ کی تقریر بھی سامنے آئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی تقاریر ہوئی ہیں۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ لوک سبھا کا یہ اجلاس مودی کو کیا پیغام دے رہا ہے؟ پاکستان کو کیا پیغام دے رہا ہے؟ دنیا کے لیے کیا پیغام ہے؟ نریندر مودی نے وزیر اعظم بنتے ہی بی جے پی میں ایک اصول بنایا تھا کہ 75سال سے زائد عمر کے کسی بھی رہنما کو لوک سبھا کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ اس صول کے تحت انھوں نے بی جے پی کے کئی سیاستدان کھڈے لائن لگائے جو ان کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ لیکن اب نریندر مودی خود ستمبر میں 75سال کے ہو رہے ہیں۔ اب بی جے پی میں یہ سوال اہم ہے کہ جب دیگر سنیئر رہنماؤں کو اس اصول کے تحت سائیڈ لائن کیا گیا ہے کہ وہ 75سال کے ہو گئے ہیں تو کیا یہ اصول نریندر مودی پر نہیں لگے گا۔ اس ضمن میں زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے صدر موہن بھگوت بھی ستمبر میں 75سال کے ہو رہے ہیں۔ ہم سب کو علم ہے کہ آر ایس ایس کو بی جے پی کی مادر جماعت ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ موہن بھگوت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آچکا ہے کہ وہ75سال کی عمر کو پہنچنے پر آر ایس ایس کی سربراہی چھوڑ دیں گے۔ اس اعلان سے مودی کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ مودی نے ابھی یہ اعلان نہیں کیا۔ لیکن ان کی جماعت میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ مودی کو عہدہ چھوڑنا چاہیے۔بی جے پی میں مودی مخالف دھڑا دن بدن ان کے جانے کی باتیں کر رہا ہے۔ اس لیے ہمیں لوک سبھا کے اجلا س کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت کے آئین میں 75سال کی کوئی قد غن نہیں۔ یہ قد غن مودی نے بی جے پی میں لگائی تھی۔ اب وہ خود اس کا شکار نظر آرہے ہیں۔ لوک سبھا کے انتخاب میں بھارت کی شکست کی بازگشت کھلے عام سنائی دی ہے۔ بھارتی لوک سبھا نے بھارتی شکست کا عتراف کیا ہے۔ ارکان لوک سبھا نے بھارتی فضائیہ کے جہازوں کے گرنے کو تسلیم کیا ہے۔ رافیل کے مارے جانے کو تسلیم کیا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لوک سبھا میں بھارتی جہازوں کے گرنے اور شکست کا اعتراف زیادہ تر تقاریر میں نظر آیا۔ بھارتی حکومت بھی لوک سبھا میں ایسا کوئی واضح اعلان نہیں کر سکی کہ اس کا کوئی جہاز نہیں گرا۔ حکومتی وزرا نے اس معاملے پر بات نہ کرنے کی کوشش کی جب کہ باقی ارکان نے اس معاملہ پر کھل کر بات کی۔ یہ درست ہے کہ مودی نے گز شتہ ایک دہائی میں کانگریس کی سیاست کو عملی طور پر تباہ کر دیا تھا۔ انھوں نے دو انتخابات میں مسلسل کانگریس کو تاریخی شکست دی ہے۔ راہول گاندھی اب تک مودی سے شکست ہی کھاتے آئے ہیں۔ لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپریشن سندور میںشکست نے کانگریس اور راہول گاندھی کی سیاست کو زندہ کیا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ راہول گاندھی مودی پر حاوی نظر آرہے ہیں۔ سیاست ان کے کنٹرول میں نظر آرہی ہے۔ وہ سیاست کا محور نظرا ٓرہے ہیں۔پہلی دفعہ ہے کہ بھارت کا میڈیا ان کی بات سن رہا ہے۔ اور پہلی دفعہ ہے کہ سیاست ان کے گرد گھوم رہی ہے۔ پہلی دفعہ ہے کہ راہول گاندھی نے مودی کو دباؤ میں لایا ہوا ہے۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ جو نریندر مودی کے بعد وزارت عظمیٰ کے بھی امیدوار ہیں۔ وہ بظاہر تو نریندر مودی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ ستمبر کے بعد وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ انھوں نے لوک سبھا میں عجب بیان دیا ہے کہ پہلگام واقعہ کے جن ملزمان کو بھارت نے مار دیا ہے، ان کے پاکستانی ہونے ثبوت ملے ہیں۔ وہ ثبوت کیا ہیں؟ امیت شاہ کے مطابق ان کے پاس سے پاکستان کے ووٹر کارڈ ملے ہیں۔ ووٹر آئی ڈی ملے ہیں۔ اب سب کو علم ہے کہ پاکستان میں کسی بھی شہری کو نہ تو ووٹر کارڈ جاری کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ووٹر آئی ڈی ہوتی ہے۔ ایسا کوئی کارڈ پاکستان میں کسی بھی شہری کو جاری نہیں کیا جاتا۔ شاید امیت شاہ پاکستان کے نظام سے لا علم ہیں۔ اور انھوں نے متعلقہ حکام سے شاید مکمل بریفنگ نہیں لی۔ پاکستان میں کوئی ووٹر نمبر بھی نہیں ہوتا۔ یہاں ووٹر ہونا شناخت کی کوئی علامت نہیں۔ آپ کا نام ووٹر لسٹ میں ہوتا ہے۔ لیکن آپ یہ نام اپنے شناختی کارڈ سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہی شناخت ہے وہ قومی شناختی کارڈ ہے۔ شاید امیت شاہ کو یہ علم نہیں۔ دوسری مضحکہ خیز بات انھوں نے یہ کی کہ ان ملزمان کے پاس سے جو چاکلیٹ برآمد ہوئی ہیں، وہ پاکستانی ہیں۔ میں حیران ہوں کئی ماہ بعد بھی ان کے پاس پاکستانی چاکلیٹ ہی تھی۔ یہ بھی ایک مضحکہ خیز بات تھی۔ جس کا بھارت میں مذاق اڑ رہا ہے۔ بین الا قوامی میڈیا بھی ان کا مذاق اڑا رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اپوزیشن کے شدید اصرار پر بھی یہ بیان نہیں دیا کہ ٹرمپ نے انھیں سیز فائر کے لیے نہیں کہا۔ وہ بات گول مول کرتے رہے۔ وہ بات کو ٹالتے رہے۔ اس نے بھی مودی کو کمزور کیا ہے۔ دیکھا جائے تو مودی اس بات سے جتنا انکار کر رہے ہیں، وہ اتنا ہی پھنستے جا رہے ہیں۔ ان کے مخالفین انھیں اسی بات پر پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید مودی جھوٹ میں پھنس گئے ہیں۔ انھوں نے جتنے جھوٹ بولے ہیں وہ اب ان کے گلے پڑ گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے انھیں ان کے ہی جھوٹ پر پکڑ لیا ہے۔ بھارتی لوک سبھا میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا بھی بہت ذکر آیا۔ ان کی ٹرمپ سے ملاقات کو بھی مودی کی ناکامی قرار دیا گیا ہے۔ راہول گاندھی نے حال ہی میں پاکستان میں ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس کو بھی مودی کی ناکامی قرار دیا جس میں امریکی آرمی چیف اور سینٹرل ایشیا کے چار آرمی چیف شریک تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھارتیوں کے حواس پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی تقاریر اور ان کی ملاقاتوں کا لوک سبھا میں بہت ذکر رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حالیہ لوک سبھا کے اجلاس نے مودی کے لیے سیاسی مشکلات میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ ا ٓ پریشن سندور نے مودی کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ ایک طرف ان پر جنگ ہارنے کا الزام ہے، دوسری طرف جھوٹ بولنے کا الزام ہے۔ یہ دونوں الزام ان کی سیاست کو کمزور سے کمزور تر رہے ہیں۔ مودی اپنے ہی جال میں پھنس چکے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مودی کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ ان کی جماعت انھیں مائنس کرنے پر کام کر رہی ہے۔ اور اس جال سے نکلنا مودی کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل