Loading
مالی سال 2024-25 کی تجارت خارجہ کی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر آئی تو معلوم ہوا کہ ایک بار پھر وہی پرانا قصہ دہرا دیا گیا ہے۔ باہر سے خریداری زیادہ اور کمائی کم۔ 32 ارب ڈالر برآمد کے مقابلے میں مالی سال 2024-25 کی کل درآمدی مالیت 58 ارب 38 کروڑ 59 لاکھ ڈالرز کی رہیں جب کہ اس سے بھی گزشتہ مالی سال 2023-24 کی درآمدات 54 ارب 77 کروڑ 91 لاکھ ڈالر کے باعث 6.58 فی صد کا اضافہ ہوا۔ اس کے کئی الم ناک پہلو ہیں۔ 80 برس ہونے کو آئے ہیں، بہت سی درآمدات کا متبادل تیار کر سکتے تھے لیکن اس طرف توجہ کم اور درآمد پر توجہ زیادہ رہی۔ ہماری زمین زرخیز ہے، کسان محنتی ہیں لیکن پھر بھی ہم نے فوڈ گروپ کی درآمدات پر 8 ارب 15 کروڑ ڈالرز خرچ کر دیے۔ بے شک پام آئل درآمد کریں، چائے درآمد کریں، دالیں درآمد کریں اور اب جلد ہی چینی بھی درآمد کریں گے اور گزشتہ مالی سال ایک ارب ڈالرز سے زائد کی کپاس بھی درآمد کر لی۔ اس کے علاوہ ہم دودھ سے بنی بچوں کی غذائی اشیا اورکئی اشیائے خوراک درآمد کرتے ہیں۔ اس طرح تو معلوم ہوا کہ پاکستان کی معیشت کی کہانی ایک ایسے گھر کی ہے جہاں وہ ہر چیز باہر کی خریدنا پسند کرتا ہے اور ہر ماہ اس کا بجٹ اتھل پتھل ہو جاتا ہے اور پھر قرض دار بن جاتا ہے۔ ہم نے 9 ارب ڈالرز کے مشینری آئٹمز خریدے، شاید یہ سوچا ہو کہ اس کا نصف ہی اپنے ملک میں چھوٹی بڑی مشینری تیار کر لیتے۔4 یا 5 ارب ڈالر بچ جاتے تو کیا برا تھا؟ ٹرانسپورٹ گروپ کے کیا کہنے، ہم اپنی کاریں نہیں خریدتے، اگرچہ وہ اسمبل ہی ہوتی ہیں، 2 ارب 44 کروڑ ڈالرز اس گروپ پر نچھاورکر چکے، نتیجے میں کروڑوں روپے کی مہنگی ٹرانسپورٹ سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔ کبھی سوچا پاکستان جیسا غریب ملک آخر کروڑوں کی گاڑیاں کیوں درآمد کرے، کون ہیں ان کے خریدار۔ پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں تو کتنا ٹیکس ادا کیا؟ ان درآمدات کو اکثر و بیشتر ان ہی صنعتی امیر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے جو بہت بڑے انسانی حقوق کے علم بردار بھی کہلاتے ہیں، لیکن ’’غزہ‘‘ میں ہونے والے ظلم کے خلاف خاموش ہیں یا پھر غزہ جنگ رکوانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش ہوتی ہے، تو وہاں اسرائیل کے حمایتی بن جاتے ہیں۔ ہم درآمدات کا متبادل کب تیار کریں گے۔ ہم کبھی 98 کروڑ ڈالرز کی گندم منگوا لیتے ہیں، کبھی 5 لاکھ ٹن چینی شاید درآمد کرنا پڑ جائے کیوں کہ جس طرح سے مافیاز نے مارکیٹ سے چینی ہی غائب کردی ہے، دالیں، تیل، دوائیں اور ٹائروں سے لے کر ادرک، لہسن، ٹماٹر تک باہر سے درآمد کر رہے ہوتے ہیں۔ 2023-24 کے مقابلے میں درآمدات میں اضافہ ہوا اور ہر شے کی درآمد تقریباً بڑھیں۔ پاکستان لاکھوں میٹرک ٹن چاول، اربوں ڈالر کے سستے ٹیکسٹائل مصنوعات اور دیگر اشیا سستے داموں فروخت کرتا ہے اور گھٹتے ہوئے برآمدی بل کو ہر سال قبول کر لیتا ہے۔ ہم صنعتی ملک بننے کا خواب بھی دیکھتے ہیں اور کارخانہ دار فیکٹریوں کو تالا لگا کر دبئی بھی چلے جاتے ہیں۔ وہاں کاروبار کرتے ہیں اور یہاں بے روزگاری آ جاتی ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ 80برس ہونے کو ہیں اور ابھی تک محنتی کسان، زرخیز زمین، بہترین نہری نظام، تجربہ کار زرعی ماہرین کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان زرعی خودکفالت حاصل نہ کرسکا۔کبھی گندم کم پیدا ہوتی ہے تو درآمد کرتے ہیں، کبھی کپاس کم پیدا ہو تو پھر درآمد کر لیتے ہیں، دالیں کم پیدا ہوتی رہتی ہیں اور درآمد بڑھتی رہتی ہے۔ دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے پھر بھی دودھ سے بنی بچوں کی غذائی اشیا درآمد کر رہے ہیں۔ پاکستان عالمی تجارت کا حصہ ہے لیکن ارد گرد کے ممالک کے مقابلے میں ہمارا شیئر ایک فی صد سے کہیں کم ہے۔ ہم بتدریج درآمدی ملک بنتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ رائے دینے والے مشورہ دینے والے بجٹ سیٹ کرنے والے، درآمدات کی صلاح دینے والے، روپے کی قدر کو کم کرنے کی تجویز دینے والے سب کے سب ہی درآمدی ہیں، بیرون ملک کے ہیں ، غیر ملکی ہیں، ہزاروں کارخانوں کو تالے لگے ہیں، تین شفٹوں والے در پر آگئے۔ دو شفٹوں میں فیکٹریاں چلتی تھیں اب ایک شفٹ پر گزارا ہو رہا ہے۔ یہ صنعتی بحالی ہے یا صنعتی بدحالی ہے۔ پھر مزدور تو بے روزگار ہوتے چلے جائیں گے۔ حکومت درآمدات کا متبادل تیار کرنے کی راہ پر چلے۔ ابھی دو ہی سال گزرے ہوں گے جب درآمدی بل 80 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ پھر سے درآمدی بل میں اضافہ شروع ہوگیا ہے۔ اسی راستے پر مسلسل چلتے رہے تو وہ سال دور نہیں جب درآمدی بل 80 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر بھی ہو جائے گا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہماری برآمدات کی کم قیمت لگتی ہے تو بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ کے راستے پر چلیں، جہاں ویلیو ایڈڈ پر زیادہ توجہ ہے۔ بیرونی دنیا کی کیا طلب ہے اور ہم کیا پیش کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ایک ٹریڈ اتاشی، حتیٰ کہ ایک سفیر بھی شافی جواب نہیں دے سکتا۔ سوچیے ایک موٹی عینک لگائے ہوئے کارخانہ دار جب بیرون ملک کسی بازار سے گزر رہا ہوتا ہے تو کہیں رکتا ہے، کہیں غور کرتا ہے، کہیں سر کھجاتا ہے تو اس کی چھٹی حس اسے بتلا دیتی ہے کہ اس مارکیٹ کو کیا چاہیے، وہ پاکستان آ کر وہی مال تیار کرے گا جس کی ڈیمانڈ ہے اور یوں اس مارکیٹ پر قبضہ کر لے گا اسے کہتے ہیں مارکیٹنگ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل