Monday, August 11, 2025
 

6 کروڑ نوجوانوں کو ملکی تعمیر و ترقی میں شامل کرنا بڑا چیلنج

 



تمغہ ء امتیاز  12 اگست 2025 ء عالمی یوم نوجوانان کے لیے جو theme یعنی مرکزی خیال اقوام متحدہ کی جانب سے دیا گیا ہے وہ ،،Local Youth Action for The SDGs and Beyond ،، ہے، یعنی ’مقامی نو جوانان پائیدا تعمیر و ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لئے عملی طور پر محترک ہوں‘ اور اِن اہداف سے آگے کے لیے بھی،اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ممالک خصوصاًدنیا کے پسماند ہ اور ترقی پذیر ملکوں کے معاشی ، معاشرتی ، اقتصادی اور سیاسی استحکام کے لیے 17 اہداف مقرر کئے ہیں جو انگریزی میں17Sustainable Development Goals کہلاتے ہیں نمبر1 ۔NoPoverty غربت کا خاتمہ نمبر2 Zero Hunger بھوک کاخاتمہ نمبر3 ۔Good Health and well Being اچھی صحت اور بہتری نمبر4 ۔Quality Education معیاری تعلیم کی فراہمی نمبر5 ۔ Gender Equlity صنفی مساوات نمبر6 ۔Clean Water and sanitation پینے کے صاف پانی اور نکاسی ِآب کی سہولت نمبر7 ۔ Affordable and Clean Energy قابل ِ خرید اور صاف توا نائی نمبر8 ۔ Decent Work and Economic Growth بہتر روزگار اور معاشی ترقی نمبر9 ۔ Industry Innovation and Infrastructure صنعتی جدت اور انفااسٹرکچر نمبر10 Reduced Inequalities عدم مساوات میں تخفیف نمبر11 ۔ Sustainable Cities and Communities مستحکم شہر اور بستیاں نمبر12۔ Responsible Consumption and Production نمبر13 ۔ Climate Action موسمی عمل نمبر14 ۔Life Below Water زیرے آب زندگی نمبر15 ۔ Life On Land زمین پر حیات نمبر 16 ۔Peace, justice and strong institution امن ، انصاف اور مضبوط ادارے نمبر17 ۔Partnerships for The Goals شراکت برائے اہداف ۔ اس سے پہلے کہ ہم 2025 ء عالمی یوم نوجوانان کے تھیم یعنی مرکزی خیال پر تفصیلی بات کریں۔  ہم نوجوانوں کے عالمی دن کے پس منظر اور کم از کم گذشتہ سال کے تھیم پر بھی ایک نظر ڈالیں۔17 دسمبر1999 ء عالمی کا نفرنس امور نوجوانان میں دنیا کے مختلف ملکوں کے وزرا ء امورِ نوجوانان نے شرکت کی اِ ن وزرا کی پُر زور تائیدکے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے تحت ہر سال 12 اگست کو دنیا بھر میں International Youth Day عالمی یوم نو جوانان منا یا جائے۔ گذشتہ سال UNESCO کی جانب سے نو جوانوں کے سال کو منانے کے لیے جو مر کزی خیال تھیم دیا گیا تھا وہ نو جوانوں کی جانب سے ، نو جوانوں کے ساتھ ، نوجوانون کے لیے ،یعنیBy the youth,WithYouth,For the Youth رکھا گیا تھا۔ گزشتہ عالمی دن اس اعتبار سے اہم تھا کہ اُس روز دنیا کی مجموعی آبادی8 ارب 10 کروڑ ہو چکی تھی جس میں 15 سے24 سال کے نو جوانوں کی کل تعداد ایک ارب 20 کروڑ ہوگئی اور بتایا کہ 2030 ء میں 7% اضافے کے ساتھ نو جوانون کی تعدادایک ارب 30 کروڑ ہو جا ئے گی ،2000 ء یعنی 25 سال قبل دنیا میں نو جوانوں کا تناسب یوں تھا۔ ایشیا میں 62% نوجوان افرایقہ میں 15% شمالی امریکہ میں 4% لا طینی امریکہ میں 9.5% یورپ میں 9% نوجوان تھے یہ تنا سب 2025 ء میں یوں ہوچکا ہے۔ ایشیا میں58% افریقہ میں22% شمالی افریقہ میں 3.6% لاطینی امریکہ میں 9.4% اور یورپ میں 6% ہے اس وقت دنیاکے ٹاپ ایٹ یعنی دنیا کے آٹھ بڑے ملکوں میں نو جوانوں کی تعد اد یوں ہے نمبر 1 ۔ بھارت کی کل آبادی ایک ارب 42 کروڑ ہے جس میں سے نو جوانوں کی تعداد 35 کروڑ60 لاکھ ہے نمبر 2 چین کی کل آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے جس میں نو جوانوں کی تعداد 26 کروڑ90 لاکھ ہے نمبر3 انڈو نیشیا کی کل آبادی 27 کروڑ50 لاکھ ہے جس میں نو جوانوں کی تعداد 6 کروڑ 70 لاکھ ہے نمبر4 امریکہ کی کل آبادی 33 کروڑ 40 لاکھ ہے جس میں نو جوانوں کی تعداد6 کروڑ50 لاکھ ہے نمبر 5 پاکستان کل آبادی25 کروڑ ہے جس میں نو جو انوں کی کل تعداد تقریباً چھ کروڑ ہے نمبر7 برازیل کل آبادی 20 کروڑ 30 لاکھ ہے اس آبادی میں نو جوانوں کی تعداد 5 کروڑ10 لاکھ ہے نمبر 8 بنگلہ دیش کی کل آبادی 17 کروڑ ہے جس میں نو جوانوں کی تعداد 4 کروڑ 76 لاکھ ہے۔  اب اگر درج بالا SDGs یعنی مستحکم ترقی کے 17 احداف کو دیکھیں تو ہمیں افسوس ہو تا ہے ،پہلا گول یا ہدف No Poverty اور نمبر 2 ایس ڈی جی Zero Hunger بھوک کامکمل خاتمہ۔ اب جہاں تک تعلق غربت کے خاتمے کا ہے تو اس وقت غربت کی پیمائش جو نیا پیمانہ متعارف کرایا گیا ہے اس کی بنیادی پر پاکستان میں غربت کا تناسب 45 فیصد تک پہنچ چکا ہے البتہ پاکستان میں مکمل بھوک نہیں ہے جزوی بھوک ضرور ہے۔ ہمارے ہاں کو ئی بھوکا نہیں سوتا لیکن لاکھوں افراد ایسے ہیں جو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا پاتے اور کروڑ وںافراد ایسے ہیں جو پیٹ بھر کر کھا نا تو کھاتے ہیں مگراِن کے کھانوں میں غذایت مکمل نہیں ہوتی ، جب کہ غربت کے اعتبار سے دیکھیں تو پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے والوں کی مجموعی تعداد تقریباً ساڑھے گیارہ کر وڑ ہے۔ پھر اگر غربت سے ذرا اُ وپر کا تناسب لیں تو وہ بھی دس گیا کروڑ ہے ، اور اس اعتبار سے متوسط طبقے کا سائز بہت چھوٹا رہ جا تا ہے اور کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے اہم کردار متوسط طبقے کا ہو تا ہے اس کی بہترین مثال ہمارے ہمسایہ اور دوست ملک چین کی ہے۔ چین آج دنیا کا نمبر ون وہ ملک ہے جہاں غربت کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے دنیا میں تناسب کے لحاظ سے متوسط طبقے کا سائز چین ہی میں سب سے بڑا ہے ، ایس ڈی جی نمبر3 یعنی Good health and Well Beng اچھی صحت اور بہتری کے اعتبار سے بھی ہم دنیا میں کو ئی اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہیپا ٹائیٹس بی ،سی کی شرح فیصد پا کستان میں دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر سب سے زیا دہ یعنی 11.5 فیصد ہے ، اس مرض میں سالانہ پانچ لاکھ افراد مبتلا ہو رہے ہیں ، جب کہ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ ملک میں 45 فیصد افرااد ایسے ہیں جو ہیپا ٹائٹس کیرئیر ہیں ، یعنی اُن میں اس مرض کے جراثیم موجود ہیں ، شوگر اور بلڈ پر یشر کا تناسب 45 فیصد کے قریب ہے۔ ایس ڈی جی نمبر 4 ۔ Quality Education یعنی معیاری تعلیم کی فراہمی اقوام متحدہ کے رکن193 ممالک کے دساتیر، اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن رائٹ ڈیکلریشن کے اہم نکا ت شامل ہے۔ ہم بھی اقوام متحدہ کے طے شدہ اصولوں کے مطابق تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہیں ، پاکستان کے آئین کی دفعہ 25-A کے مطابق ملک میں پانچ سال کی عمر سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچے بچیوں کو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کر نا حکومت کی ذ مہ داری ہے، مگر اس وقت صورتحال اس سے قطعی مختلف ہے۔ ملک بھر میں اسکول جا نے کی عمر کے تقریباً ڈھائی کروڑ بچے بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں ،ہائر ایجوکیشن کے معیارپر نظر ڈالیں تو دنیا کی ٹاپ 500 یو نیورسٹیو ں میں پاکستا ن کی صرف ایک یو نیورسٹی شامل ہے ، پاکستان کی تقریباً250 یو نیو رسٹیوں میں کم از کم 20 شعبے ایسے ہیں جن سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات کی جاب مارکیٹ میں اب کو ئی گنجا ئش نہیں، 60 فیصد تعلیمی ادارے پرائمری سے ہائر ایجوکیشن تک معیاری تعلیم فراہم نہیں کر رہے۔ نمبر پانچ5- Gender Equlity صنفی عدم مساوات تو ہماری 25 کروڑ آبادی میں خواتین کا تناسب 51 فیصد اور مردوں کا تناسب 49 ہے لیکن ملازمتوں تعلیم اور دیگر شعبوں میں خواتین کا تناسب 30 فیصد سے زیادہ نہیں۔ SDG,No-6 یعنی پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی سہولت ، اس مسئلے کا جا ئزہ لیا جا ئے تو 1951 میں پاکستان کی پہلی مردم شماری ہو ئی تو اُس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی کل آبادی 3 کروڑ70 لاکھ تھی۔ فی کس یعنی ہر فرد کے حصے میں 5260 مکعب میٹر پا نی آتا تھا ، آج ہماری آبادی 25 کروڑ ہے۔ 2016 ء میں یہ آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 2016 ء میں فی کس پانی 1000 مکعب میٹر ہو گیا۔ اس سال یعنی 2025 ء میں یہ شرح فیصد یعنی ہر شخص کے حصے میں 860 مکعب میٹر پا نی آتا ہے۔ یہ1999 ء کی عالمی سطح کی تسلیم شدہ آبی تناؤ کی لکیر کو عبور کر چکا ہے۔ اب جہاں تک تعلق پینے کے صاف پانی کی سہولت کا ہے، آج پاکستان میں ایک کروڑ 60 لاکھ افراد کو پینے کا صاف پا نی میسر نہیں ہے۔ نکاسی آب کی حالت یہ ہے کہ ڈھائی کروڑ افراد کو لیٹرین کی سہولت میسر نہیں۔ 40 فیصد اسکولوں میں بیت الخلا نہیں ہے مجموعی طور پر 58 فیصد لوگ سیورج کی سہولت سے محروم ہیں ، ہم نے اقوام متحدہ کی جانب سے ایس ڈی جی گول نمبر6 Clean water and Sanitation کی بنیاد پر یقین دلا یا تھا کہ 2016 ء تک ہم93 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کریں گے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 24 کی شق 3 کے مطابق بھی تمام شہریوں کو پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی فراہمی کا یقین دلایا گیا ہے مگر ابھی پنجاب جیسے گیارہ کروڑآبادی والے صوبے میں ہی 55 فیصد افراد کو پینے کا میعاری شفاف پا نی میسر نہیں۔ بحوالہ سر زمین 21 مارچ2024 ء یہ ہماری زرعی معیشت ، قومی صحت سمیت ہر شعبے منفی اثرات مرتب کر رہا ہے،ایس ڈی جی نمبر7 ۔ Affordable and Clean Energy قابل خرید اور صاف تو انائی کا حصول پاکستان توانائی کا بحران 1980 ء کی دہا ئی سے شروع ہوا تھا مگر گذشتہ چند برسوں میں شدت آچکی ہے۔ بجلی اور قدرتی گیس عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئے ہیں یہاں تک کہ گذشتہ دنوں اس مسئلے کی وجہ سے خودکشی کا بھی ایک واقعہ پیش آیا ہے۔ پھر جہاں تک تعلق صاف توانائی کا ہے تو ہمارے ہاں بجلی کی بڑی مقدر تیل اور گیس سے تیار ہو تی ہے جس کو صاف توانائی نہیں کہا جا تا کیونکہ کوئلہ ، تیل اور گیس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو تا ہے۔ SDG نمبر8 2023 ء کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری خانہ شماری کے مطابق پاکستان میں بے روز گاری کی شرح 22 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اگرچہ بے روزگار کی اس شرح فیصد کو حکومتی ادارے اور اہم شخصیات تسلیم نہیں کر تے مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔کہا جا تا ہے کہ عالمی معیار کے مطابق 15 سال سے 24 سال کی عمر کے تقریباً2 کروڑ نوجوان افراد بے روز گار ہیں اور اِن حالات میں پڑھے لکھے ہنر مند ایسے نو جوان جن کے والدین 20 لاکھ روپے سے50 لاکھ روپے فراہم کر نے کی پو زیشن میں ہیں اُن کی اکثریت ملک سے باہر جارہی ہے۔ لاکھوں نو جوان دنیا کے مختلف ملکوں میں جا چکے ہیں توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔  اب امریکہ ، چین اور خلیجی ملکوں کی جانب سے بھاری سرمایہ کاری کی امید ہے۔ اگر ایسا ہو تا ہے تو امکان ہے کہ روزگار اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوگا ایس ڈی جی نمبر9 Industry innovation and infaastucture جیسا کہ درج بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ ملک میں فیکٹریاں کے بند ہو نے سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ صنعت کے شعبوں میں جدت کا نہ ہو نا بھی شامل ہے ایس ڈی جی نمبر 10 ۔عدم مساوات میں تحفیف Reduced Inequlities ہرملک میں صنفی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ روزگار ، تعلیم طبقات کی بنیاد پر عدم مساوات ہے اور اس گو ل کی وجہ سے بھی جونوانوں میں مایوسی پا ئی جا تی ہے۔ ایس ڈی جی نمبر11 ۔Sustainable cities and Commenitices آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے ہمارے بہت سے مسائل میں بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی جس کی آبادی1951 میں چار لاکھ تھی اب بتا یا جا رہا ہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ یہی صورت ملک کے باقی شہروںکی ہے۔ ایس ڈی جی نمبر12 ۔Responsible consumption and Production یہاں پیداور اور کھپت کے استحکام اور توزان کی بات ہے کہ معاشی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ جتنی پیداوار ہو اتنی ہی اُس کی کھپت ہو جا ئے ، ایس ڈی جی گول نمبر13 ۔Climate Action موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کے تدارک کے لیے کئے جا نے والے اقدامات ہیں واضح ہے کہ دنیا بھر میں جو ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں عالمی سطح پر درجہ حرارت میں جو اضافہ ہو رہا ہے۔ اِن تمام مسائل کی زد میں آنے والے دنیا کے ٹاپ ٹن ملکوں میں اب پاکستان پانچویں نمبر پر آرہا ہے، اس کو ہم نے زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر نکاسی آب کے نظام کو بہتر کرکے اور دیگر اقدامات کی سے روکنا ہو گا۔ ایس ڈی جی نمبر14۔Life Below water زیرے آب حیات یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ ہم کو اپنے ساحلوں کے قریب سمندر کو جھیلوں دریاؤں میں جو آبی حیات ہے اس کے بچاؤ کے لیے اقدا مات کر نے ہیں۔ واضح رہے کہ 4 اگست 2025 ء کی ایک اطلاع کے مطابق بلوچستان کے ساحل گڈانی جیٹی میں سمندری پانی کی رنگت گلابی ہونے پر محکمہ تحفظ ماحولیات نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ماحو لیات عمران سعید کا کڑ کے مطابق گڈانی کے ساحلی پانی میں طویل عرصے سے جمود پایا جا تا رہا ہے جس کے نتیجے میں پانی میں قدرتی طور پر خوردبینی حیاتیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی رنگت گلابی ہوئی ۔ ماحولیا تی ماہرین کے مطابق پانی کی رنگت میں اس تبدیلی کی اصل وجہ ہالو فیلک بیکٹیر یا اور نمک برداشت کرنے والے دیگر خورد بینی جانداروں کی غیر معمولی افزائش ہے۔ یہ جاندار نہ صرف پانی کو گلابی رنگ دیتے ہیں بلکہ انسانی صحت کے لیے بھی ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس خبر کے حوالے سے دیکھیں تو انسانی آنکھوں سے نظر نہ آنے والے یہ جراثیم گڈانی کے ساحلی پانی میں اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ اس سے پا نی کا رنگ بدل گیا ہے، تو اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ یہاں سمندر ی حیات کو کتنا نقصان پہنچا ہو گا۔ اسی طرح ہماری جھلیں دریا اور ڈیمز میں زیر آب حیات سخت آبی آلودگی کا شکار ہے ، ایس ڈی جی نمبر15 Life on Land زمین پر موجود ہرطرح کی زندگی ،واضح رہے کہ زمین کے ہر علاقے میں اُس کا اپنا ایکالوجیکل سسٹم ہو تا ہے جس میںایک دائرے کی صورت میں حشرات ، پرندے ، رینگے والے جانور ، بڑے جانور ،درندے اور گھاس کھا نے والے جانور وغیرہ ایک دوسرے پر انحصار کر تے ہیں اور اگر اِن میں سے کو ئی ایک مکمل طور پر فنا ہو جا ئے تو وہ ایکالوجیکل سسٹم تباہ ہو جا تا ہے۔ بد قسمتی سے ہم اپنے ماحول کو مدتوں سے تباہ کر ر ہے ہیں۔ ایس ڈی جی نمبر16 ۔Peace Justice and Strong instituting امن ، انصاف اور مضبوط ادارے ہم اس حوالے سے عالمی سطح کی فہرست میں پا کستان کو دیکھیں، تو ہم کافی پیچھے ہیں۔ ایس ڈی جی نمبر17 Partnerships for The Gools یعنی درج بلا تمام اہداف کے حصول کے لیے شراکت اور شراکت کار ی ضروری ہے 12 اگست 2025 ء کو مرکزی خیال سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز کو جوانوں کے عالمی سال سے جوڑ دیا گیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری دنیا کو جو مسائل درپیش ہیں اِن سے انہی17 ، ایس ڈی جیز پر مکمل عملدر آمد کر کے بچا یا جا سکتا ہے ، ابھی عالمی سطح پر تر قیافتہ اور ترقی پزیر ملکوں میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بوڑھی آبادی بڑھ رہی جوان آبادی کا تناسب کم ہو رہا ہے۔ ٹاپ ٹن ممالک میں جا پان میں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کل آبادی کا 28 فیصد ہو چکے ہیں اٹلی میں یہ تناسب 23 فیصد ہے یونان اور پرتگال میں 22 فیصد، جرمنی 21 فیصد ہے۔ بوڑھی آبادی کی وجہ سے اِن ممالک میں پنشنوں کا اور اولڈ ایج بینیفٹ اسکیموں پر حکومتی اخراجا ت بہت بڑھ چکے ہیں، جبکہ شادی شدہ افراد افزائش نسل بہت کم شرح سے کر رہے ہیں ، اس مسئلے کو ابھی تو ایشیا افریقہ ،لاطینی امریکہ سے آنے والے تارکین وطن پو را کر رہے ہیں مگر اس سے بھی اِن یورپی ممالک اورکینڈا ، آسٹریلیا اور مریکہ میں سیاسی سماجی لسانی اور قومی نوعیت کے مسائل ابھر رہے ہیں ، اِن مسائل کا مقابلہ کر نے کے لیے ترقیافتہ ممالک آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی بنیاد پر ریبورٹ بنانے اور اِن کو افرادی قوت کے طور پر استعمال کر نے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یوںہم دیکھیں تو دنیا میں اگر ترقیافتہ ملکوں کو اب ایسے مسائل کا سامنا ہے تو ہمارے ملک میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی جن میں اکثریت جوانوں کی ہے ۔ ہم اگر تیز رفتاری کے ساتھ اپنی افرادی قوت کو ہنر مند بنا دیں تو یہ ہنر مند افرادی قوت بیرون ملک خصوصا یورپی ملکوں میں بھی کھپ سکتی ہے اور ہم اپنے ملک میں بھی خود روزگار اسکیموں اور منصوبوں کی حکمت عملی اپنا کر اپنے چھ کروڑ نوجوانوں کو ملکی قومی ترقی میں شامل کر سکتے ہیں ، لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ہم نے جو کچھ بھی کر نا ہے وہ بہت جلد کر ناہے کیونکہ ہماری آبادی میں سالانہ 50 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے اور ہر برس آبادی میں ال 35 لاکھ نوجوانوں کا اضافہ ہو رہا ہے ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل