Monday, August 11, 2025
 

پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں

 



فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت اب بھی خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے پر بضد ہے، پاکستان واضح کرچکا ہے کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ، امریکی صدر ٹرمپ کا انتہائی ممنون ہے جن کی اسٹرٹیجک لیڈر شپ کی بدولت نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ رکی بلکہ دنیا میں جاری بہت سی جنگوں کو روکا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کا کوئی اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔  فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکا حالیہ دورہ امریکا قومی اور بین الاقوامی سیاست کے موجودہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ نہ صرف عسکری سطح پر تعلقات کی بہتری کی کوششوں کا آئینہ دار ہے بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور پر عالمی سطح پر مؤثر آواز اٹھانے کی ایک مدبرانہ کوشش بھی ہے۔ ان کا امریکی دارالحکومت میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب، صرف ایک رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ یہ ایک مکمل ریاستی بیانیے کا اعلان تھا جس میں پاکستان کی داخلی و خارجی ترجیحات، چیلنجز اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے خدوخال کو واضح کیا گیا۔  پاکستانی کمیونٹی سے دوران خطاب انھوں نے عالمی اور علاقائی خطرات پر بھی کھل کر بات کی۔ ان کا سب سے توانا اور دو ٹوک موقف بھارت کی پالیسیوں اور خفیہ ایجنسی RAW کی سرگرمیوں کے خلاف تھا۔ انھوں نے بھارت کی نام نہاد ’’ وشوا گرو‘‘ پالیسی کو ایک مصنوعی دعویٰ قرار دیا اور کہا کہ بھارت نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل، قطر میں آٹھ بھارتی نیول افسران کا معاملہ اورکلبھوشن یادیو جیسے واقعات کا حوالہ دے کر واضح کیا کہ بھارت کی سرحد پار دہشت گردی کی سرگرمیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ ان واقعات کی فہرست پاکستان کے اُس دیرینہ مؤقف کی تصدیق ہے جس میں وہ عالمی برادری کو مسلسل خبردار کرتا رہا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔  یہ بیانیہ صرف ایک الزام نہیں بلکہ ایک سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو متحرک کرنا ہے تاکہ بھارت کی دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔ آج دنیا میں خارجہ پالیسی صرف دو طرفہ ملاقاتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بیانیہ سازی ایک اہم آلہ کار بن چکا ہے۔ فیلڈ مارشل نے عالمی ضمیرکو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ بھارت کا اصل چہرہ اب مزید چھپایا نہیں جا سکتا اور بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے دو ٹوک مؤقف اختیارکرے۔  اس خطاب کا ایک اور اہم پہلو حالیہ بھارتی جارحیت پر فیلڈ مارشل کا موقف تھا، جس میں انھوں نے کہا کہ بھارت نے ’’ شرمناک بہانوں‘‘ کے تحت پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی اور معصوم شہریوں کو شہید کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے اس اشتعال انگیزی کا پُرعزم اور بھرپور جواب دیا اور وسیع تر تنازعہ کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے،کیونکہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن اپنی خود مختاری اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔  فیلڈ مارشل نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کسی بھی نئی بھارتی جارحیت کا ’’منہ توڑ جواب‘‘ دیا جائے گا۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب کسی قسم کی نرمی یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔ ماضی میں پاکستان کو بارہا ایسے چیلنجزکا سامنا رہا جہاں بھارت نے طاقت کے استعمال کا مظاہرہ کیا، مگر اب پاکستان ایک باوقار اور مضبوط ریاست کے طور پر اپنے دفاعی نظریے کو عالمی سطح پر پیش کر رہا ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قیادت اب محض ردعمل دینے پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ ایک فعال اور جارحانہ سفارتی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔ خطاب کا سب سے اہم اور جذباتی پہلو کشمیر کے مسئلے پر دیا گیا بیان تھا۔ فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ انھوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس تاریخی قول کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ یہ بیان صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ موجودہ تناظر میں ایک بھرپور سیاسی پیغام ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد پاکستان نے جس مؤثر انداز میں بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو اجاگر کیا ہے، فیلڈ مارشل کا یہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ ان کا یہ موقف عالمی ضمیر کو ایک بار پھر متوجہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کوئی علیحدگی پسندی نہیں بلکہ حقِ خودارادیت کی قانونی، آئینی اور انسانی بنیادوں پر کی جانے والی تحریک ہے جسے کسی صورت دبایا نہیں جا سکتا۔ خطاب میں فیلڈ مارشل نے ایک دلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی ’’ اسٹرٹیجک لیڈر شپ‘‘ نے نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ کو روکا بلکہ دنیا میں جاری کئی دیگر تنازعات کو بھی کم کرنے میں مدد دی۔ اگرچہ یہ بیان کچھ حلقوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے، لیکن بین الاقوامی تعلقات میں جذبات سے زیادہ حقیقت پسندی کو اہمیت دی جاتی ہے، اگر کسی وقت امریکا نے تعمیری کردار ادا کیا، تو اس کا اعتراف بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا تنقید کا اظہار۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ دنیا کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھا جائے اور فیلڈ مارشل کے اس بیان سے بھی یہی جھلکتا ہے۔اس پورے خطاب کا خلاصہ اگر نکالا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک دفاعی ادارے کے سربراہ کا بیان نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مکمل قومی بیانیہ تھا جو ملکی سالمیت، خود مختاری، کشمیرکاز، عالمی سفارت کاری اور قوم سے ربط کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ فیلڈ مارشل نے اپنی گفتگو میں صرف حالیہ خطرات کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کی مستقبل کی سمت بھی واضح کی۔ انھوں نے پاکستان کے مضبوط دفاع، مستحکم معیشت اور خود دار خارجہ پالیسی کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو آج کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی مسائل اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشمکش شامل ہیں۔  انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمات اور ان کی علمی و فنی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے ’’برین ڈرین‘‘ کے بجائے ’’برین گین‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، جو ایک نہایت مثبت اور مستقبل بین سوچ کی نمایندگی ہے۔ یہ جملہ صرف ایک فقرہ نہیں، بلکہ ایک سوچ کا اظہار ہے کہ پاکستان اپنے ہنرمند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شہریوں کو ایک بوجھ نہیں بلکہ ایک اثاثہ سمجھتا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ یہ بیان اُن لاکھوں پاکستانیوں کے دل کو چھو گیا جو اپنے وطن سے دور ہو کر بھی اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ملکی ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ان کے حالیہ بیانات اور اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ قومی وحدت، آئینی بالادستی اور جمہوری تسلسل کے حامی ہیں۔ انھوں نے افواجِ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرتے ہوئے عوام سے بھی قربت بڑھائی ہے، تاکہ فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یکجہتی کا رشتہ مزید مضبوط ہو۔ جنرل عاصم منیر صرف ایک سپہ سالار نہیں، ایک ایسے وژنری رہنما ہیں جو پاکستان کے مستقبل کو ایک باوقار، پُرامن اور مضبوط ریاست کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان کی قیادت میں قوم کو امید ہے کہ ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے، جمہوریت مستحکم ہوگی اور دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ بلاشبہ پاکستانی کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے، فیلڈ مارشل کا انداز ایک قومی رہنما کا تھا، جو صرف دفاعی پالیسی بیان نہیں کر رہا بلکہ ایک فکری و نظریاتی موقف بھی دے رہا تھا۔ انھوں نے پاکستانی تارکینِ وطن کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف پاکستانی ثقافت کے سفیر ہیں بلکہ اپنے طرزِ عمل، کامیابیوں اور اخلاقیات کے ذریعے پاکستان کا چہرہ دنیا کو دکھاتے ہیں۔ اس پیغام کے ذریعے انھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دینے کی کوشش کی، جو آج کے دور میں کسی بھی قوم کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بن چکا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل