Loading
یقین نہیں آتا کہ اتنے بڑے مسئلے کا حل یوں چٹکی میں نکالے گا اور وہ بھی کون؟ قہرخداوندی چشم گل چشم عرف سوائین فلو عرف کوئڈنائنٹین۔لیکن ہوچکا ہے۔ اگرچہ اس کی بات بڑی حد تک ناقابل یقین ہے لیکن پھر بھی دل کو لگتی ہے ؎ گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی ویسے بھی داناؤں نے کہا ہے کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ’’کیا‘‘ کہہ رہا ہے، مسئلہ یہ تھا کہ گاؤں میں ہرطرف ہر جگہ دینداری ہی دینداری نظر آرہی تھی جہاں پہلے صرف تین مسجدیں تھیں، وہاں اب سولہ مسجدیں ہیں اور جمعے کی نماز کے لیے باہر سڑک اور گلی میں بھی صفیں بچھانا پڑتی ہیں، ہر مسجد میں ہائی فائی پاور کے لاؤڈ اسپیکر۔ جس سے ہر نماز سے پہلے اور بعد میں نیکیوں کی تلقین و تبلیغ نشر ہوتی ہے۔ گاؤں میں کہیں اکادکا بدنصیب ایسا ہوگا جو حاجی یا الحاج نہ ہو اور عمرہ تو روز کا معمول بن چکا ہے۔ہر مسجد کے ساتھ مدرسہ بھی ہے بلکہ اب تو ہر ہر محلے میں خواتین کے مدرسے بھی کھل چکے ہیں۔ ہر ہاتھ میں تسبیح۔بلکہ اب تو ہر لباس کے ساتھ میچنگ تسبیح کا بھی رواج ہوگیا ہے۔ ایک جانب یہ روح پرور مناظر ہیں، تو دوسری طرف اسی معاشرے میں جرائم، منشیات، رشوت، بے راہروی اور مال حرام کمانے کا سلسلہ بھی رکنے میں نہیں آرہا ہے بلکہ یہ پہلے سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اور یہی بات ہمیں پریشان کیے ہوئے ہے، آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ہمارے معاشرے کا نقش قدم یوں بھی اور یوں بھی کیوں ہے؟ ہم لوگ ہر روز یہ سن رہے ہیں کہ برائیوں سے بچو ، منبر و محراب سے یہ تلقین مسلسل جاری ہے کہ برائیوں سے بچو، اچھائی کی طرف آو لیکن یہاں صورت حال بالکل اُلٹ ہے ۔کیوں؟ آخر کیوں؟ وجہ کیا ہے؟ اور پھر قہرخداوندی چشم گل عرف سوائین فلو عرف کوئڈنائنٹین نے مسئلے کو چٹکی میں حل کردیا حالانکہ اس کے بارے میں علامہ بریانی عرف برڈ فلو کا کہنا ہے کہ اس سے کسی عقل کی بات کی توقع کرنا ایسا ہے جیسے کوئی کسی بھینس سے بانسری سننے کی توقع کرے۔ قہرخداوندی نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا، میرے خیال میں تو یہ ساری خرابی’’ ہوس و لالچ ‘‘ میں ہے۔ تفصیل چاہی تو بولا، سامنے کی بات ہے ، ہم سب روزانہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ہی کوئی جوتے اتار کر مسجد میں قدم رکھتا ہے، پرہیز گاری کا پیکر نظر آتا ہے لیکن وہی جب جوتے پہن کر سرکاری افسر کی کرسی پر بیٹھتا ہے یا دکان اور کلینک سنبھالتا ہے تو ابلیس بن جاتا ہے۔ دکان پر بیٹھے،دفتر میں پہنچے،کھیت کھلیان میں چلا جائے تو مال حرام کا مقناطیس بن جاتا ہے۔ایسی حالت میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ ساری گڑبڑ ہوس، حسد اور لالچ میں ہے، سارے فسادوں کی جڑ یہی ہے، جب تک یہ انسان کو لاحق ہوتے ہیں، وہ شیطان کا چیلا ہوتا ہے، ہر برائی کو اپنی گمشدہ میراث سمجھ کر گلے لگاتا ہے اور جیسے ہی یہ ان جذبوں سے الگ ہوتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے وہ کوئی اور ہوجاتا ہے۔پھر مزید تفصیلتے اور تشریحتے ہوئے بولا۔اور اکثر لوگ تو غیر ملک میں جاتے ہیں، دولت کماتے ہیں، ان ملکوں میں بہت ایمانداری سے کام کرتے ہیں، قانون پر عمل کرتے ہیں، لیکن جیسے ہر وطن واپس آتے ہیں، پرانی عادت اختیار کرلیتے ہیں۔ خلاصہ اس سارے مسئلے کا یہ ہے کہ ہر چیز کی اپنی اپنی تاثیر ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ رہنے والوں میں ایک دوسرے کے اثرات سرایت ضرور کرتے ہیں۔جس کی تصدیق سعدی نے بھی فرمائی ہے ؎ گلے خوشوئے درحمام ارزوے رسید ازدست محبوبی بہ دشم بروگفتم کہ مشکی یا عنبری کہ خوشوئے دلاویزے تومستم
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل