Monday, August 11, 2025
 

خاموش رہنے کا فیصلہ

 



اکتوبر 2023میں جب میاں صاحب جلاوطنی گزارکر وطن عزیز واپس لوٹے تو ایک تاثر یہ تھا کہ وہ واپس آکر پھر پہلے کی طرح عملی سیاست میں حصہ لے کر چوتھی بار وزیراعظم کے منصب سے مشرف بااختیار ہو جائیں گے، مگر انھوں نے ایسا کرنے کے بجائے خاموش رہنے اور کنارہ کشی کو اپنانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ ڈیڑھ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن وہ عملی سیاست سے مسلسل دور ہی رہ رہے ہیں۔ اُن کے مخالفوں کو اُن کی یہ خاموشی بھی طبع نازک پرگراں گزر رہی ہے اور وہ اس میں بھی کوئی راز اور خفیہ پہلو تلاش کرتے پھر رہے ہیں، جب کہ ہمارا خیال ہے کہ انھوں نے عملی سیاست سے دوری کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ایک سوچا سمجھا بالکل درست اور دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ ہمارے یہاں سیاست ایک بہت ہی پیچیدہ کھیل ہے ۔ اس میں کسی بھی شریف آدمی کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو لوگوں کی باتیں اور بے جا تنقید سننا ہو تو وہ بلاشبہ اس سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ میاں صاحب تین بار وزیراعظم کے منصب سے سرفراز ہوئے اور تینوں مرتبہ ہی انھیں زبردستی ایوان وزیراعظم سے بے دخل کیا گیا۔ پہلی بار 1993 میں عوام کی زبردست حمایت کے باوجود جس طرح بیدخل کیے گئے وہ ہماری جمہوری سیاست کا بہت ہی افسوسناک طریقہ تھا۔ سابق صدر غلام اسحق خان کی تابعداری سے انکار نے انھیں وہ سزا دلوائی جس کے وہ قطعاً حقدار یا سزاوار بھی نہ تھے۔ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہ تھے جب ستم ظریفی ہے کہ قوم سزا دینے والوں سے اس کی وجہ بھی پوچھ نہ سکی کہ میاں صاحب نے ایسا کونسا اتنا بڑا جرم کردیا تھا کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر مزید رہنے کے قابل نہ سمجھے گئے۔ یہ بات نہ غلام اسحق خان نے کسی کو بتائی اور نہ میاں صاحب اپنی زبان پر لائے۔ پس پردہ تمام کرداروں نے میاں صاحب سے اپنی بھڑاس نکال کر دل کی تسلی کر لی مگر ترقی کرتے ملک کو زبوں حالی کا شکار کردیا۔ چھ مہینے کی اس معرکہ آرائی نے غیر یقینی کی ایسی فضا قائم کردی کہ سارا نظام ہی منجمد ہو کر رہ گیا۔ سپریم کورٹ کے میاں صاحب کے حق میں فیصلے نے مخالف عناصرکے غصے کو اور بھی بڑھاوا دیا اور انھوں نے دوسرے طریقے اپنانا شروع کر دیے۔ پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی مضبوط حکومت کو چند دنوں میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اچانک فارغ کردیا گیا اور نئے وزیراعلیٰ نے صوبائی اسمبلی ہی توڑ دی۔ لاہور ہائی کورٹ نے جب اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ سنایا تو پھر دوبارہ توڑ دی اور یوں جان بوجھ کر افراتفری اور غیر قانونیت کا بازار گرم کیا گیا۔ دوسری جانب محترمہ بے نظیر صاحبہ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا گرین سگنل دے دیا گیا اور پنجاب میں منظور وٹو کو اس مجوزہ لانگ مارچ میں مدد گار اور معاون کا کردار ادا کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ ان سب حربوں کے باوجود بھی وہ جب میاں صاحب کو اسلام آباد سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوپائے تو جبراً اور زبردستی استعفیٰ پر مجبورکردیا گیا۔ اس کے بعد معین قریشی کا باہر سے درآمد کیا جانا اس واقعے کے پیچھے چھپے بہت سے اسرار و رموز کو عیاں کرتا ہے۔ سازشوں کا یہ سلسلہ دوسری بار بھی اسی طرح دہرایا جاتا ہے اور1997 کے انتخابات میں دو تہائی سے کامیاب ہونے والی حکومت کو 1999 میں ایک بار پھرگن پوائنٹ پر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ فارغ کرنے سے پہلے حکومت کو اعتماد میں لیے بغیرکارگل کی جنگ چھیڑ دی جاتی ہے اور وزیراعظم کو اس وقت بتایا جاتا ہے جب دونوں ملکوں کی فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہوچکی ہوتی ہیں ۔ دوست ممالک نے بھی ایسے میں ساتھ دینے سے انکارکردیا ۔ اس کے بعد بطور وزیراعظم میاں صاحب کو مجبوراً امریکا سے اس جنگ کو رکوانے کی درخواست کرنا پڑتی ہے اور یوں یہ پھیلتی ہوئی ممکنہ نیوکلیئر جنگ رک جاتی ہے۔ اس واقعہ کے تانے بانے جس طرح بنے گئے وہ بھی باقی تمام رازوں کی طرح ہماری ملکی تاریخ کا ایک راز ہے۔ اس بار بھی میاں صاحب نے خاموشی اختیار کی۔ پھر 12اکتوبر1999 کا سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ اس دن میاں صاحب وزیراعظم ہاؤس سے سیدھے اٹک جیل بھیج دیے جاتے ہیں اور پھر بعد ازاں جوکچھ اُن کے ساتھ ہوا وہ یہاں تحریرکرنا ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب جب اِن ساری باتوں کو یاد کرتے ہیں تو ان کا سینہ دکھوں سے بھرجاتا ہے۔ 1998میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اس ملک کو ایک نیوکلیئر ریاست کا درجہ دلوانے والے کو جس طرح رسوا کیا گیا کہ طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں پھانسی کی سزا سنانے تک کا سامان کر لیا گیا۔ ستم بالائے ستم میاں صاحب کو اقتدار سے زبردستی نکالنے کا سلسلہ 2013 کے الیکشنوں کے بعد پھر سے شروع ہوجاتا ہے۔ 126دنوں کا دھرنا اور اسے کامیاب بنانے کے لیے علامہ طاہر القادری کو کینیڈا سے بلایا جانا، یہ سب کسی نہ کسی خفیہ ہاتھوں کی چال کی نشاندہی کرتا ہے، مگر جب اس میں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو پاناما اسکینڈل کو تختہ مشق بنادیا جاتا ہے اور پھر اقامہ کا الزام لگا کر نااہلی کی سزا سنا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب کس شخص کی ہمت اور خواہش ہوگی کہ وہ چوتھی بار بھی اس ملک کا وزیراعظم بنے۔ میاں صاحب نے خاموشی اختیار کر کے شرافت اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ اب کسی کے خلاف کچھ نہیں بولتے، جو ہوچکا وہ اسے اپنے سینے میں دبائے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے جو فیصلہ کیا ہے، ہمارے خیال میں درست ہی کیا ہے۔ اپنی زندگی کے بقیہ ایام وہ آرام و سکون سے گزارنا چاہتے ہیں۔ وطن کی محبت اپنی جگہ مگر جس دیس کی ترقی و خوشحالی کے لیے انھوں نے اپنی ساری جوانی قربان کردی اور اس کا صلہ بھی انھیں نہ مل سکا تو بہتر ہے زندگی کے باقی ایام اپنی گھر میں خاموشی سے گزار لیں۔ ملک میں جتنے بھی بڑے بڑے ترقیاتی کام ہوئے ہیں اُن میں میاں نوازشریف کی محنت نظر آتی ہے، وہ چاہے موٹر ویز ہوں ، بڑی بڑی شاہراہیں ہوں، میٹرو بس سروس اور اورنج ٹرین ہو یا ایٹمی دھماکے ہوں یا پھر سی پیک جیسا عظیم منصوبہ ہو، سب کے پیچھے میاں صاحب کی کوششیں کار فرما دکھائی دیتی ہیں۔ اِن سب کاموں کے بدلے جیل کی سلاخوں کے درمیان قید تنہائی ہو تو پھر بھلا کون سا شریف انسان مزید سیاست میں رہنے کی خواہش کرے گا، لہٰذا انھوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی کا جو بھی فیصلہ کیا ہے درست ہی کیا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل