Monday, August 11, 2025
 

غزہ ہمارے لیے نیٹ فلیکس سیزن ہے؟

 



لگاتار بمباری، قتلِ عام، انسانی استعمال کی ہر شے بلڈوز کرنے کا مشن ہو یا بھوک برسانے کا عمل۔ مقصد ایک ہی ہے۔غزہ کی ہمت کی کمر توڑنا۔تاکہ غزہ مر جائے یا خالی ہو جائے۔مگر جو کام اکیس ماہ میں پچاسی ہزار ٹن بارود برسانے سے حاصل نہیں ہو سکا اب اسے زمانہِ قدیم سے چلے آ رہے جنگی ہتھکنڈے سے حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یعنی محاصرے کے ذریعے پوری آبادی کو بھوکا مار دیا جائے اور بچے کھچوں کو رفاہ میں تیزی سے تعمیر ہونے والے کنسنٹریشن کیمپ کی خاردار تاروں کے پیچھے دھکیل دیا جائے اور گلو خلاصی کی ایک ہی شرط رکھی جائے یا تو سرحد پار صحراِ سینا سمیت جہاں چاہے کوچ کر جاؤ یا پھر اسی کیمپ میں بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاؤ۔پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔کیونکہ جہاں تمہارا گھر ، اسکول ، اسپتال ، کھیت ہوا کرتا تھا۔وہاں مشینی ہل چلا دیا گیا ہے۔واپس جانے کے لیے زور زبردستی کرو گے تو گولیوں اور بموں سے بھون دیے جاؤ گے۔ وحشیانہ طاقت نے بظاہر غزہ کا معاشرہ اور معاشرت تتر بتر اور مسخ کر دیے ہیں۔جیتے جاگتے آدم نیم انسانوں میں بدل دیے گئے ہیں۔زندوں کی کوئی شناخت اگر باقی ہے تو بس ان کے دل میں۔ سو اسے بھی موت اور جبری نقل مکانی کے ہتھیار سے کھرچنے کی لگاتار کوششش ہو رہی ہے۔ سب کے سب بھوکے اور پیاسے ہیں۔جو زخمی ہے وہ بھی ، جو اس زخمی کو کسی کھنڈر نما اسپتال لے جانے کی کوشش کر رہا ہے وہ بھی ، جو نرس یا ڈاکٹر اس زخمی کو بچانے کی سرتوڑ جدوجہد میں ہے وہ بھی ، جو اس زخمی کے مرنے کے بعد کفن سی رہا ہے وہ بھی، جو میت کو غسل دے رہا ہے وہ بھی ، جو اسے قبر میں اتار رہا ہے وہ بھی ، جو قبر پر سر رکھ کے رونا چاہ رہا ہے وہ بھی ، جو بیرونی دنیا کو یہ خبر دینا چاہتا ہے وہ بھی۔ غرض سب کے سب بھوکے ، پیاسے ، بیمار ، بے در و دیوار تیس ضرب بارہ کیلومیٹر کے انسانی جہنم میں گول گول محوِ سفر یہ سوچ رہے ہیں کہ جو مر گئے وہ کتنے خوش قسمت نکلے۔ سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں  ( جون ایلیا )  اور ایک ہم ہیں جو ان سب کو مذمتی مشکیزے میں بھرا آبِ ندامت تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔ایک وہ ہیں جو موت سے مسلسل پنجہ آزما ہیں۔ایک ہم ہیں کہ زندہ ہونے کے وہم میں مبتلا ہیں۔ نفسانفسی اس سطح تک گر چکی ہے کہ صحافتی تنظیمیں قاتل سے درخواست کر رہی ہیں کہ کم ازکم ہمارے پیغام رسانوں کو تو زندہ رہنے دے۔امدادی ایجنسیاں گڑ گڑا رہی ہیں کہ ہمارے کارکنوں کو تو بخش دو ، طبی تنظیمیں ہاتھ باندھے کھڑی ہیں کہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو تو کام کرنے دو۔ حماس کی قید میں زندہ رہ رہے اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتے دار صرف اس لیے نیتن یاہو پر طیش میں ہیں کہ ساٹھ ہزار لوگ مارنے اور غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود ہمارے یرغمالی پیارے کہاں ہیں۔ہمیں بس وہ واپس کروا دو۔اس کے بعد بھلے لاکھوں انسانوں کو مار ڈالو۔قسم کھاتے ہیں کہ اس احسان کے بدلے تمہارا ہاتھ نہیں روکیں گے۔ اہلِ مغرب اور ان کے مقامی حواریوں کا ٹوپی ڈرامہ الگ چل رہا ہے۔کوئی یہ الٹی میٹم نہیں دے رہا کہ اگر کل تک تم نے خوراک کی ترسیل کے راستے نہ کھولے تو پھر ہم بین الاقوامی طاقت استعمال کرتے ہوئے انھیں خود کھولیں گے۔اگر تم نے غزہ کو مکمل ہڑپ کر لیا تو تمہارے پیٹ میں سے نکال لیں گے۔ سب کے سب فلسطین کی لیبارٹری میں طرح طرح کے تجربے کر رہے ہیں۔قاتل اپنے ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کو آزما کر مارکیٹ کر رہا ہے اور قاتل کا کوئی حمائیتی اس کا خنجر کند نہیں ہونے دے رہا۔کچھ ممالک فضا سے امداد گرانے کا کرتب دکھا کے اپنی انسان نوازی کی داد بٹورنے کے لیے چہار جانب تحسین کی بھوکی نگاہیں دوڑا رہے ہیں۔کوئی لاکھوں زخمیوں میں سے تیرہ چودہ گھائل بچوں کو ایرلفٹ کر کے اپنی خوش نیتی نیلام کر رہا ہے ، کوئی ایک کے بعد ایک کانفرنس بلا کے اپنے تئیں انسانی فرض نبھا رہا ہے۔ جن کی پتھرائی آنکھوں میں موت کا بسیرا ہے انھیں خوش خبری سنائی جا رہی ہے کہ بس کچھ دن اور زندہ رہ جاؤ تاکہ یہ دیکھتے جاؤ کہ ہم نے بالاخر تمہاری آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست تسلیم کر لی ہے۔ جہاں ہر ایک منٹ میں ایک انسان زندگی سے آزادی پا رہا ہو۔ انھیں بچانے کے بجائے ایک آزاد ریاست کا خواب ان کے خشک حلق میں ٹپکایا جا رہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے قاتل کو چمچماتے بھالے ، نیزے اور تلواروں کی تازہ کھیپ دی جا رہی ہے۔ غزہ میں وہ قحط ہے جو زندہ بچ جانے والوں کی ہڈیوں میں اتر کے نسل در نسل جینز کے ذریعے سفر کرے گا بھلے ان لاغروں کو اب کوئی بھر پیٹ کھانا ہی کیوں نہ دلا دے۔یہ المیہ قحط زدگان کی نسل در نسل یاد داشت میں اسی طرح کھب جائے گا جیسا کہ سات عشرے پہلے حیفہ ، جافا اور گلیلی میں چھوڑے گئے گھروں کی چابی اب چھٹی بے گھر نسل کی امانت ہے۔  آنکھوں میں یہ دھول بھی جھونکی جا رہی ہے کہ پورا اسرائیلی سماج موجودہ سرکار کی طرح سفاک نہیں۔بلکہ اس حکومت کے کاموں سے نفرت کرنے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔اگر اس دعوی کو جوں کا توں تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر ایک جلوس تو دکھا دیا جائے جو گزشتہ اکیس ماہ میں محض یرغمالی چھڑانے کے لیے نہیں بلکہ فلسطینیوں کو زندہ چھوڑ دینے کے مطالبے کے حق میں تل ابیب اور یروشلم کی سڑکوں پر نکلا ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس الزام پر برا ماننے کی کیا تک ہے کہ اسرائیلی سماج میں قاتلوں کی اکثریت ہے۔کچھ سابق ہیں ، کچھ موجودہ اور کچھ آنے والے کل کے قاتل۔ انسانی گروہوں کو گلا گھونٹ کے مارنے والے لوگ اس سماج کے ہیرو ہیں۔یہ شرط باندھ کے جیتے جاگتے انسان کا نشانہ لے کر ہلاک کرنے والے لوگ ہیں۔مہینوں سے بھوکوں اور پیاسوں کو بھنا ہوا گوشت دکھا دکھا کے کھانے والے لوگ ہیں۔ نازی آخری وقت تک اس فکر میں رہے کہ کسی دن ان کے یہود دشمن نسل کش مراکز کا بھانڈا بیچ چوراہے میں نہ پھوٹ جائے۔مگر ان نسل کش مراکز سے بچ نکلنے والے یہودیوں کی تیسری اور چوتھی نسل نہ صرف اپنے پرکھوں پر بیتے نازی تجربات کو اگلے مرحلے تک لے آئی ہے بلکہ اسے بطور تمغہ لہرا لہرا کے دکھا رہی ہے۔اور ہم یہ سب نیٹ فلیکس کے کسی بلیک کامیڈی سیزن کی طرح دیکھ رہے ہیں۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل