Monday, August 18, 2025
 

قومی سیاست اورخوف کے سائے

 



پاکستان کی قومی سیاست نے لوگوں میں غیریقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔لوگوں میں ڈر اور خوف ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ یہ ڈر اور خوف کا ماحول محض سیاسی سوچ اور حکومت کے خلاف ان کی متبادل آوازوں تک محدود نہیں بلکہ معیشت اور گورننس کے مسائل کے بارے میں بھی ان میں خدشات پائے جاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے اس ملک کا نوجوان طبقہ جو بڑی اکثریت رکھتا ہے اپنے بہتر مستقبل کے لیے اس ملک کو چھوڑ کر باہر جا رہا یا جانا چاہتا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں پاکستان چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں پڑھے لکھے نوجوان طبقہ کی بڑی تعداد شامل ہے۔ سیاست نے لوگوں میں گہری تقسیم پیدا کی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں سیاسی تلخی پیدا ہورہی ہے۔حکومت کا نظام اس تقسیم کو کم کرنے کے بجائے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اور زیادہ گہرا کر رہا ہے۔کوئی بھی ریاست ایک جیسے نظریات اور سوچ کی بنیاد پر نہ تو چل سکتی ہے اور نہ ہی اس کو چلایا جاسکتا ہے۔ لوگ مختلف سوچ اور نظریات رکھتے ہیں اور پہلے سے موجود حکومت کی سوچ اور پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ایک ذمے دار حکومت مختلف آوازوں یا اپنے خلاف لوگوں کے خیالات پر نہ تو سختی کرتی ہے اور نہ ہی ان آوازوں کو کچلتی ہے۔ اسی طرح حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ایسا سازگار ماحول پیدا کرے جہاں لوگ اپنی آوازوں کو قانون اور جمہوری دائرے کار کے تحت اٹھائیں۔اگر ہم نے جمہوریت اور شفافیت کی بنیاد پر اپنے نظام کو چلاناہے تو ہمیں لوگوں کی متبادل آوازوں کو اپنے نظام میں قبولیت دینی ہوگی اور لوگوں کے تحفظات پر ان کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ یہ جو لوگوں میں سوچ پیدا ہورہی ہے کہ یہاں جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کے بجائے طاقت اور ڈنڈے کی حکمرانی غالب ہے وہ خطرناک رجحان ہے ۔اس کا نتیجہ لوگوں میں سخت ردعمل پیدا کرتا ہے اور ان کا حکومتی تعلق کمزور ہوتا ہے۔اسی طرح اگر حکومت یہ سمجھے کہ ہم ڈنڈے کی بنیاد پر اپنے سیاسی اور سماجی مخالفین کو دبا سکتے ہیں وہ بھی درست حکمت عملی نہیں ہے۔ حکومت کی پالیسیاں عوامی اور بالخصوص نوجوان طبقہ کے مفادات کے برعکس ہیں اور ایک خاص طبقہ کے لیے یہ نظام سہولت کاری کرتا ہے۔ اصل بحران یہ ہے کہ جب لوگوں کا حکومتی اداروں سے اعتماد ہی اٹھ جائے تو پھر انتشار اور بداعتمادی کا ماحول جنم لیتا ہے۔کیونکہ عام اور کمزور طبقات کا بڑا بھروسہ اپنے مسائل کے حل یا حقوق کی فراہمی کے لیے حکومت کے اداروں پر ہی ہوتا ہے۔لیکن جب شفافیت کا عمل الگ کردیا جائے تو عام لوگ کیونکر ان اداروں پر اعتماد کریں گے۔یہ جو ہم پرانی سوچ کی بنیاد پر نظام کو چلانا چاہتے ہیں موجودہ عالمی تبدیلیوں کے ماحول میں ممکن نہیں ہوسکتا۔ اب ماضی کے مقابلے میں لوگوں کے پاس سیاسی اور سماجی شعور بھی ہے اور وہ اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں سے بھی آگاہ ہیں تو ان کو نہ تو اندھیرے میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اب لوگوں کو سیاسی طور پر گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں نوجوانوں کی باتوں کو بھی سننا ہوگا اور ان کو دیوار سے لگانے کی پالیسی درست نہیں۔آج لوگ ملک میں آزادانہ ماحول چاہتے ہیں جہاں وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنا اظہار کرسکیں اور یہ ڈر نہ ہو کہ وہ قانونی گرفت میں آسکتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اظہار کے لیے ذمے دارانہ سوچ اور طرزعمل اختیار کرنا ہوگا ۔اگر لوگ اپنے یا دوسروں کے حق کے لیے آواز اٹھانا چاہتے ہیں یا کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا۔لوگ پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو اس کے لیے بہتر ماحول اور سازگار حالات درکار ہیں۔سب سے اہم بات تبدیلی کے لیے لوگوں کے اس کردار کو تسلیم کریں اور اس سوچ کو فروغ دیںکہ جو لوگ پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنا  چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ہمیں لوگوں کو اس بات پر خوف زدہ نہیں کرنا کہ اگر وہ ایک متبادل سوچ اور فکر کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ان کو حکومت سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہماری حکومتی پالیسی لوگوں کو جوڑنا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہونی چاہیے۔ یعنی ہم جتنے بھی لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑیں گے تو لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھتا ہے۔لوگوںکو دیوار سے لگانے کی پالیسی ان میں جہاں غصہ کی سیاست کو پیدا کرے گی وہیں ان میں انتہا پسندانہ رجحانات کو بھی فروغ دے گی ۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سیاست اور جمہوریت لوگوں کی حکومتی نظام میں جہاں ان کی شراکت کو یقینی بناتی ہے وہیں ان کی اس نظام میں ملکیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔ حکومتی نظام کو لوگوں اور بالخصوص معاشرے میں موجود محروم اور کمزور طبقات کے اہم مسائل کو سمجھنا ہوگا ۔نظام لوگوں کے سامنے ایک ایسا روڈ میپ پیش کرے جو لوگوں میں اس یقین کو پیدا کرسکے ہمارے مسائل کا حل اس ہی نظام سے جڑا ہواہے۔ کنٹرولڈ حکمرانی کا نظام اب کوئی کارگر حکمت عملی نہیں اور نہ ہی لوگ اس طرز کے نظام کو قبول کریں گے۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور ایسی تبدیلیاں جو ان کی روزمرہ زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکے ۔اس کا حل ہی گورننس یا طرز حکمرانی کے نظام پر مبنی شفافیت سے جڑا ہوا ہے۔پاکستان میں جو محروم طبقات ہیں ان کے موجودہ نظام کو سمجھنا ہوگا۔کیونکہ یہ طبقہ جن حالات سے گزررہا ہے اس کا حل حکومتی نظام میں واضح اور شفاف طور پر نظر بھی آنا چاہیے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ایک طرف ان کے بنیادی نوعیت کے مسائل ہیں اور دوسری طرف اگر ہم ان مسائل پر آواز اٹھاتے یا ہم اس پر مزاحمت کرتے ہیں تو ہمارے خلاف طاقت کا استعمال ہوگا۔ پاکستان کے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور انتظامی نظام میں بہت سی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ان تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر ہم ایک ایسے معاشرے کی طرف بڑھ سکتے ہیں جو لوگوں کو نظام سے جوڑنے کا سبب بنے گالیکن اس کی شرط یہ ہے کہ تبدیلی کے ایجنڈے میں عام آدمی اور اس کے مسائل کو بنیادی فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو پھر لوگوں میں ڈر اور خوف کی سیاست کا خاتمہ ہوگا اور یہ ہی ہمارے مفاد میں ہوگا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل