Monday, August 18, 2025
 

فلسطینیوں کی جبری بیدخلی

 



اسرائیل نے فلسطینیوں کو جبری طور پر غزہ شہر سے نکال کر جنوبی غزہ دھکیلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کی ایک اسپتال پر بمباری کے نتیجے میں سات افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ غزہ میں مزید 57 فلسطین شہید ہوئے جن میں سے 38 فلسطینی امدادی مرکز کے پاس امداد کے انتظار میں اسرائیلی فائرنگ کا نشانہ بنے۔ ایک خفیہ ریکارڈنگ اسرائیلی چینل پر نشر ہوئی ہے جس میں اسرائیلی جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ پچاس ہزار فلسطینیوں کی نسل کشی ان کا باقاعدہ ہدف تھا۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ظلم و ستم کی ایک اور خونچکاں داستان رقم کی جا رہی ہے، لیکن رد عمل میں خاموشی کی دبیز چادر تنی ہوئی ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کو جبری طور پر اُن کے گھروں سے نکال کر جنوبی علاقے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ کسی حادثاتی یا وقتی پالیسی کے تحت نہیں بلکہ ایک منظم اور باضابطہ منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ ایک پوری قوم کو جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ یہ حقیقت اب کسی قیاس یا مبالغے پر مبنی نہیں رہی، بلکہ خود اسرائیلی ذرایع ابلاغ پر نشر ہونے والی ایک خفیہ ریکارڈنگ نے یہ بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ اسرائیلی جنرل کی زبان سے نسل کشی کا واضح اعتراف سامنے آچکا ہے۔ اُس نے کہا کہ ’’ ہر 7 اکتوبر کے مقتول کے بدلے 50 فلسطینی مارے جانے چاہئیں، چاہے وہ بچے ہوں یا عام شہری۔‘‘ یہ کوئی غصے میں دی گئی انفرادی رائے نہیں بلکہ پالیسی کی ترجمانی ہے۔ ایسے بیانات نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہیں، بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ نیتن یاہو اس جنگ کو مزید کئی ماہ تک پھیلانے اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے لاکھوں کی تعداد میں کسی دوسرے ملک میں دھکیلنے کو بے تاب ہیں۔ صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو نے اسرائیلی ریاست کے نئے جنگی منصوبے پر بین الاقوامی سطح سے آنے والے رد عمل کے بعد باہم راز و نیاز بھی کر لیے ہیں۔ اس منصوبے کے مخالفین کے لیے اسرائیلی ریاست کا غضب کس قدر زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے ماہ ستمبرکا تعین کرنے والے فرانسیسی صدر میکرون کو اسرائیلی یہودی مذہبی پیشوا (ربی) ڈینیئل ڈیوڈ کی طرف سے ملنے والی قتل کی دھمکی سے کیا جا سکتا ہے۔ ربی نے صدر میکرون کو ایک وڈیو میں کہا ہے ’’’ تمہارے لیے اب یہی بہتر ہے کہ اپنا تابوت خود تیار کر لو۔‘‘‘ یہ صورت حال اس کے باوجود درپیش ہے کہ حماس نے شروع سے ہی اپنی جدوجہد کا دائرہ غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر تک محدود رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ حماس کا دہائیوں پہلے کیا گیا، یہ فیصلہ کسی بھی وجہ سے ہوا مگر یہ آج بھی بین الاقوامی سطح پر امن کے حق میں ہے۔ ان حالات میں امریکا کو چاہیے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں پر دباؤ اور بوجھ کو اس حد تک نہ بڑھائے کہ ان کی ہمت جواب دے جائے۔ تسلیم و رضا اور تعاون ایک حد تک ہی ہو سکتا ہے۔ ہلاکت خیز غزہ جنگ طویل ترین ہو چکی ہے۔  صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، خاص طور پر نوجوان نسل کو نشانہ بنانے کے باعث، غزہ کی پٹی میں آبادی کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، جو آنے والے برسوں تک جاری رہیں گی۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی معاشرے کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ تقریباً 47 فیصد آبادی 17 سال سے کم عمرکے افراد پر مشتمل ہے، جب کہ 70 فیصد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ 65 سال یا اس سے زائد عمر کے بزرگ صرف 3 فیصد آبادی کا حصہ ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی جانب سے امریکا کی مکمل حمایت سے شروع کی گئی نسل کشی کے بعد سے اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف ان لاشوں پر مبنی ہیں جو اسپتالوں تک پہنچائی جا سکی ہیں اور ریکارڈ میں شامل کی گئی ہیں، اس لیے حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسرائیلی جنگ کے باعث پیدا ہونے والی آبادیاتی تبدیلیاں غزہ کی پٹی پر گہرے اثرات مرتب کریں گی۔ ان میں سب سے خطرناک اثر آبادیاتی توازن کی تباہی ہے،کیونکہ ہزاروں خاندانوں کو نشانہ بنا کر مکمل طور پر مٹا دیا گیا ہے۔ بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کی تعداد میں اضافے کے باعث غزہ کی پٹی میں شدید سماجی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ فلسطینی خاندان اپنے کفیل کھو دینے کے بعد شدید سماجی اور معاشی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ بحران وقت کے ساتھ مزید شدت اختیارکرے گا اورکئی سالوں تک فلسطینی خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنا رہے گا۔ ان دنوں غزہ میں ہونے والی خونریزی نے تمام سرخ لکیریں عبورکر لی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے نہ صرف شہری آبادی پر بمباری کی، بلکہ اسپتال جیسے محفوظ مقامات کو بھی نشانہ بنایا، جہاں زخمی، بزرگ اور معصوم بچے پناہ لیے ہوئے تھے۔ یہ سب واقعات کسی فوجی تصادم کے دوران نہیں بلکہ دانستہ طور پر غیر مسلح اور کمزور انسانوں کو نشانہ بنانے کی ذہنیت کے تحت کیے گئے ہیں۔ ایسے تمام حملے بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جن کے تحت جنگ کے دوران بھی عام شہریوں، خاص طور پر بچوں، خواتین، مریضوں اور پناہ گزینوں کو نشانہ بنانا ممنوع ہے۔ اس کے باوجود، عالمی برادری کی طرف سے صرف رسمی مذمتی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ غزہ کی سرزمین پر معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم، ماؤں کے سینے سے لپٹے لاشے، ملبے میں دبے انسان اور بے یار و مددگار خاندان صرف ایک انسانی بحران کی نمایندگی نہیں کرتے، بلکہ یہ عالمی نظامِ انصاف کی ناکامی کا بھی ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔ جب ریاستی سطح پر کسی قوم کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے، ان کے گھروں کو مسمارکرنے، ان کی زندگی کے تمام وسائل، خوراک، پانی، دوا، تعلیم، رہائش سے محروم کرنے اور پھر انھیں باضابطہ طریقے سے قتل کرنے کا عمل ہو، تو اسے کسی بھی قانونی، اخلاقی یا انسانی زاویے سے ’’جنگ‘‘ نہیں کہا جا سکتا، یہ نسل کشی ہے، یہ نسلی صفایا ہے اور یہ وہی عمل ہے جس کی بنا پر ہولوکاسٹ جیسے سانحات کو عالمی تاریخ میں کبھی نہ بھلانے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر آج جب فلسطینیوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہو رہا ہے، تو عالمی ضمیرکہاں سوگیا ہے؟ اسرائیل کی جانب سے ’’دفاع‘‘ کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ سراسر جارحیت، استعمار اور قبضے کی کھلی روشنی میں آتا ہے۔ غزہ شہر سے جبری انخلاء ایک طے شدہ منصوبے کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس وقت نہ صرف فوجی طاقت استعمال کر رہا ہے بلکہ نفسیاتی جنگ، میڈیا کنٹرول اور عالمی سفارت کاری کے محاذ پر بھی سرگرم ہے تاکہ اپنے اقدامات کو کسی نہ کسی طرح ’’جائز‘‘ ثابت کیا جا سکے۔ لیکن جب ایک قوم کو خوراک، پانی، دوا، بجلی، تعلیمی اداروں اور صحت کی سہولیات سے محروم کرکے کھلے آسمان تلے دھکیلا جاتا ہے، تو یہ جائز دفاع نہیں بلکہ ایک مجرمانہ ہدف ہوتا ہے، ایک ایسی سوچ جو کسی بھی انسان دوست معاشرے میں ناقابلِ قبول ہونی چاہیے۔ ایسی صورت حال میں بین الاقوامی عدالت انصاف کو فوری طور پر حرکت میں آنا چاہیے۔ اسرائیلی قیادت، خصوصاً وہ افراد جو ان پالیسیوں کے ذمے دار ہیں، جن میں وزیراعظم، وزیر دفاع اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شامل ہیں، کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں۔ ان افراد کو نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے، اگر دنیا نے سچ مچ کبھیNever Again کا نعرہ لگایا تھا، تو آج وہی لمحہ ہے کہ اسے ثابت کیا جائے۔ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر آج فلسطینیوں کے خلاف یہ جرم بغیر روک ٹوک کے جاری رہا، تو کل کسی بھی قوم کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مظلوم کی حمایت صرف مذہبی یا سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ایک بچہ، چاہے وہ مسلمان ہو، یہودی ہو، یا عیسائی، اگر وہ کسی بمباری میں اپنی ماں کو کھو دے، تو اس کا درد سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔بدقسمتی سے، میڈیا کا بڑا حصہ بھی اسرائیلی بیانیے کا ہمنوا بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی کے پیرائے میں دکھایا جاتا ہے، جب کہ ریاستی جبر اور بمباری کو دفاع کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بیانیہ اس ظلم کی شدت کو کم کرتا ہے اور ظالم کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر حقیقت کو زیادہ دیر چھپایا نہیں جا سکتا۔ اب وڈیوز، تصاویر اور براہ راست گواہیوں کے ذریعے دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ اصل مظلوم کون ہے اور ظالم کون۔آج اگر ہم صرف بین الاقوامی اداروں پر انحصار کریں گے تو شاید کچھ بھی نہ ہو سکے۔ عوامی دباؤ، سماجی تحاریک، اور سچ بولنے والے صحافی ہی اصل تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی زبان، قلم، اور ضمیر سے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے۔ جب تک دنیا کے ہر کونے سے ’’ فلسطین کے ساتھ انصاف کرو‘‘ کی صدائیں بلند نہیں ہوں گی، اسرائیلی قیادت کو کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔یہ وقت ہے کہ اسلامی دنیا محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ سفارتی سطح پر اسرائیل سے تعلقات منقطع کیے جائیں، اقوام متحدہ میں سخت قراردادیں پیش کی جائیں، اور عالمی عدالتِ انصاف کو متحرک کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ اگر عالمی ضمیر، انسانی حقوق کے ادارے، اور مسلمان ممالک بھی اس موقع پر خاموش رہے، تو پھر تاریخ ہمیں بھی اس ظلم میں برابر کا شریک قرار دے گی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل