Monday, August 18, 2025
 

غزہ دھوپ پی رہا ہے بھوک کھا رہا ہے

 



قحط کی شدت ناپنے کے پانچ مرحلے ہیں۔اگر کسی علاقے میں ایک ہزار تک افراد مرجائیں تو بھک مری کی ابتدا ہے۔اس مرحلے پر انتظامی اقدامات سے باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ دس ہزار تک ہلاکتیں اوسط درجے کا قحط مانا جاتا ہے۔ ایک لاکھ تک اموات کا مطلب ہے کہ بڑا قحط ہے۔ دس لاکھ تک اموات کا مطلب قحطِ عظیم اور اس سے اوپر کی اموات کا مطلب تباہ کن نسل کش آفت ہے۔ بھوک کے بھی چار پائدان ہیں۔پہلے مرحلے میں بس بھوک بھڑک اٹھتی ہے۔اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے پیٹ میں چوہے دوڑنے یا آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں جیسے محاورے موجود ہیں۔چنانچہ جسمانی توانائی برقرار رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ کھا پی لینا چاہیے۔ دوسرے مرحلے میں بھوک کی شدت سے پیٹ میں مروڑ اٹھ سکتے ہیں، سر چکرا سکتا ہے ، سر درد ہو سکتا ہے یا دل متلا سکتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں جسم لاغری کے مارے نیم بے ہوشی یا غنودگی کے جھٹکے محسوس کر سکتا ہے ، چڑچڑا پن بڑھ سکتا ہے ، کبھی کبھی جسم پر چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوتی ہیں۔ چوتھے مرحلے میں دو انتہائیں جنم لے سکتی ہیں۔یعنی کھانے کی شدید اشتہا محسوس ہو رہی ہے مگر جسم غذا قبول نہیں کر پا رہا ۔یا بے تحاشا کھانے کو جی چاہ رہا ہے مگر بہت دن سے خالی معدہ ساتھ نہیں دے پا رہا۔اسی لیے طویل بھوک ہڑتال کرنے والوں کا جب فاقہ تڑوایا جاتا ہے تو ان کے سامنے فوراً کھانا نہیں رکھا جاتا بلکہ مایع یا نرم غذا دے کر ان کے معدے اور آنتوں کو بتدریج تیار کیا جاتا ہے تاکہ معدہ ٹھوس غذا ہضم کرنے کے قابل ہو سکے اور ہڑبڑا کے ری ایکٹ نہ کرے۔ پانچواں مرحلہ سب سے نازک ہے۔جب بہتر گھنٹے تک خوراک نہ ملے تو جسمانی عضلات غذائی کمی پورا کرنے کے لیے چربی کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ جب چربی ختم ہو جاتی ہے تو جسمانی بافتیں ( ٹشوز ) ٹوٹنے لگتے ہیں۔نظامِ ہضم انتہائی سست ہو جاتا ہے۔ اعصابی خلیے اور خشک آنتیں سکڑنے لگتے ہیں۔ جسم درجہِ حرارت کو متوازن رکھنے کی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔گردوں کے افعال متاثر ہونے لگتے ہیں۔دل اور پھیپھڑوں کی قدرتی حرکت مدھم پڑنے لگتی ہے۔جسمانی مدافعتی نظام بکھرتا ہے تو بیرونی جراثیم ، وائرس ، معدے اور سانس کی بیماریوں اور ٹراما کے آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔دماغی صلاحیت متاثر ہونے لگتی ہے۔بے انتہا کمزوری مسلسل محسوس ہوتی ہے۔ زخموں کے اندمال کی قدرتی جسمانی صلاحیت گھٹتی چلی جاتی ہے۔بالاخر جسم پروٹینز سے بھی خالی ہو جاتا ہے اور موت سامنے آ کے کھڑی ہو جاتی ہے۔ بھوک کا سب سے تیز رفتار اثر بچوں کی نشوونما پاتے جسم پر ہوتا ہے۔وزن تیزی سے کم ہونے پر جسم آگے چل کے طرح طرح کی مستقل کمزوریوں کا شکار ہوتا ہے۔بچوں کے جسم میں چربی کم ہوتی ہے لہٰذا فاقہ کشی ان کے جسم میں جمع قدرتی پروٹینز تیزی سے کم کرنے لگتی ہے۔مسلسل خالی معدے کے سبب آنتوں کی سوزش سے پیٹ پھولنے لگتا ہے۔ آخر انسان بغیر خوراک کے کتنے دن جی سکتا ہے؟ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک تندرست نارمل انسان پینتالیس سے اکسٹھ دن زندہ رہ سکتا ہے۔اس پیمانے سے اگر غزہ کو ناپیں تو وہاں گزشتہ بائیس ماہ سے مسلسل ناکہ بندی نے پوری کی پوری آبادی کو ناکافی غذائیت ، قوتِ مدافعت میں کمی ، مسلسل مہاجرت اور دھماکوں سے جنم لینے والی تھکاوٹ اور اردگرد کی تباہی سے دماغ سن ہونے کی کیفیت سے مسلسل دوچار کر رکھا ہے۔لہٰذا اس آبادی پر بھک مری کے نتیجے میں پینتالیس دن سے اکسٹھ دن تک زندہ رہنے کا قانون ویسے بھی لاگو نہیں ہوتا۔  جنگ نہ بھی ہوتی تب بھی دو ہزار دس سے اسرائیل غزہ میں بس اتنی خوراک پہنچنے کی اجازت دے رہا ہے جس سے انسانی جسم کو زندہ رہنے کے لیے جو کم ازکم کیلوریز درکار ہیں بس وہی ملتی رہیں۔ حاملہ خواتین جو خود بھی بھوکی ہیں۔ان کے ہاں کم وزن کے بچوں کی پیدائش اب وبائی شکل اختیار کر چکی ہے۔جو بچے پیدا ہو بھی رہے ہیں وہ دھوپ پی رہے ہیں اور بھوک کھا رہے ہیں۔ چنانچہ بھوک سے ہلاکت کا اولین ہدف بچے ، بوڑھے اور بیمار ہیں۔غزہ کے ملبے پر اس وقت لگ بھگ چالیس ہزار یتیم بچے بھی گھوم رہے ہیں۔اگر غذائی امداد میسر آ بھی جائے تو شاید اس تک ان بے سہارا بچوں کی سب سے آخر میں پہنچ ہو۔لہٰذا ان کی ایک بڑی تعداد موت کے دہانے پر جھول رہی ہے۔ اب سے ڈیڑھ برس پہلے یعنی فروری دو ہزار چوبیس میں عالمی ادارہِ صحت نے تخمینہ لگایا تھا کہ شمالی غزہ میں ہر چھٹا بچہ ناکافی غذائیت سے جوج رہا ہے۔آج اٹھارہ ماہ بعد یونسیف کا اندازہ ہے کہ غزہ کا ہر تیسرا بچہ بھوک یا گولی کے نشانے پر ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قحط کی تشریح کے مطابق غزہ اس وقت باضابطہ طور پر شدید قحط اور بھک مری کی وہ حد پار کر چکا ہے جس کے بعد اگر کل سے غذائی امداد بحال ہو بھی جائے تب بھی ہزاروں لوگوں کو شاید پھر بھی نہ بچایا جا سکے۔ تعجب ہے کہ عالمی ادارہ ِ خوراک نے اب تک غزہ کو انتہائی آفت زدہ علاقہ قرار دینے کی حتمی وارننگ جاری نہیں کی ۔ اسرائیل نے انسانوں کو بھوک سے مارنے کے جرم سے بچنے کے لیے بھی راستہ نکال لیا ہے۔اس خطے پر مکمل قبضے کے لیے فضائی و زمینی حملے اور تیز کر دیے گئے ہیں تاکہ جو بچے ، بوڑھے ، جوان اور خواتین حملوں میں مریں ان کے بارے میں کہا جا سکے کہ یہ بھوک سے نہیں مرے۔ دوسرا حربہ یہ اپنایا گیا ہے کہ جہاں روزانہ پانچ سو سے چھ سو امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔وہاں محض پچاس سے ساٹھ ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔اسرائیل کا خیال ہے کہ وہ اس طرح پوری آبادی کو مصنوعی قحط سے مارنے کے الزام سے بچنے کے لیے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک پائے گا۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل