Monday, August 18, 2025
 

ہم کب خود اپنے حال پر رحم کریں گے

 



ہمارے موجودہ وزیراعظم محمد شہباز شریف جس دن سے دوسری بار اس ملک کے وزیراعظم بنے ہیں، ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے ہیں اور ملک کی معیشت سدھارنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے لاتعداد غیر ملکی دورے بھی کر لیے ہیں اور ابھی بھی کررہے ہیں۔ شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہے جس میں انھوں نے کوئی غیرملکی دورہ نہ کیا ہو۔ ان کے ہر دورے کے اختتام میں قوم کو یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالروں کے MOU سائن ہوگئے ہیں جس سے اس ملک میں بڑی سرمایہ کاری آنے والی ہے۔ قوم اِن MOU پر سائن ہوتا دیکھ کر خوش ہوجاتی ہے اور پھر سال دو سال بعد پتا چلتا ہے کہ اِن MOU پر عملی طور پر ابھی تک کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ کاغذوں پر تحریر کیے گئے تھے اور شاید ابھی تک کاغذوں پر ہی موجود ہیں۔ یہ دو حکومتوں کے درمیان مفاہمت کی ایک یاد داشت کی تحریری کارروائی ہوتی ہے اور دورے کو کامیاب دکھانے کی ایک سفارتی کوشش بھی۔ اس کے علاوہ ان MOU سے درآمد ہونے والا کچھ بھی نہیںہوتا۔ ہم نے اِن ڈیڑھ سالوں میں نجانے کتنے ایم او یو سائن ہوتے دیکھے ہیں لیکن کسی پر بھی عمل درآمد ہوتا نہیں دیکھا۔ قوم فروری 2024 میں جہاں کھڑی تھی وہیں اب بھی کھڑی ہے بس IMF سے ایک کامیاب ڈیل ہوگئی ہے اور جس سے ہمیں وقتی طور پرکچھ ریلیف ضرور ملا ہے اور ہم ڈیفالٹ کر جانے کی ڈر اور خوف سے باہر نکل آئے ہیں۔ سعودی عرب ، یو اے ای اور چائنا کی مدد سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں بظاہر اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ ہم کچھ مہینوں کے لیے سکھ کا سانس لے سکیں۔ مستعار لیے جانے والے آٹھ ارب ڈالر ہمیں صرف ایک سال کے لیے ملے تھے مگر ہم ہر سال اِن ممالک سے منت سماجت کر کے ان کی واپسی کی مدت میں مزید مہلت مانگ لیتے ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق ہمارے ذخائر اب تقریباً 20ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں جسے وہ اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے، حالانکہ اگر اِن ذخائر کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے تو اس کی اصل حقیقت بڑی آسانی سے کھل کر واضح ہوجائے گی۔ اِن 20ارب ڈالرز میں آٹھ نو ارب ڈالر تو ہمارے دوست ممالک کے وہ ڈالرز ہیں جنھیں دوستی کے نام پر اُن ملکوں نے ہمیں وقتی سہارے کے لیے دیے ہوئے ہیں، اُن ڈالروں کو اگر اس خزانے سے منہا کردیا جائے تو پھر باقی کیا بچے گا۔ یہ ہے ہمارے حالیہ خزانے کی اصل حقیقت۔ ہم نے اپنی معیشت سدھارنے کے لیے ادھار مانگنے کے علاوہ ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا ہے، حالانکہ حکومت کا دعویٰ تو یہی ہے کہ ہم اس بار غیر ممالک سے امداد مانگنے کے بجائے سرمایہ کاری کی درخواست کررہے ہیں اور اس مقصد سے ہم نے بے شمار ملکوں سے تجارت بڑھانے کی معاہدے بھی کیے ہیں اورکئی کئی ارب ڈالروں کے MOU بھی سائن کر ڈالے ہیں۔ لیکن قوم کو ابھی تک اِن معاہدوں کے ثمرات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ہم ابھی تک اپنے اُن پاکستانیوں کی ترسیلات زر پر اکتفا کیے ہوئے ہیں جو وہ غیر ممالک سے اپنے وطن کو بھیجتے ہیں۔ خدانخواستہ وہ ترسیلات اگر کسی وجہ سے رک جائیں تو ہمارا حال سری لنکا سے شاید مختلف نہ ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں دی ہیں اور ہمارا ملک معدنیات کے خزانوں سے بھرا ہوا ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہماری کسی بھی حکومت نے معدنیات کے اِن خزانوں کو نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں۔ سعودی عرب ساٹھ ستر برس پہلے تک ایک مفلوک الحال ملک تصور کیا جاتا تھا لیکن اسے جب پتہ چلا کہ اس کی زمین میں تیل کے ذخائر چھپے ہوئے ہیں، اس نے غیر ممالک کی کمپنیوں سے سودے کر کے انھیں دریافت کرنے کے معاہدے کر لیے اور نتیجتاً آج ایک امیر ملک بن گیا۔ وہ اس قابل بھی ہوگیا کہ ساری دنیا میں اپنا تیل فروخت کرے اور ہم جیسے غریب ممالک کی مدد بھی کرے ۔ ہمارا ہر نیا حکمراں پہلی فرصت میں سعودی عرب سے اپنے مراسم بہتر بنانے کی غرض سے اس کے یہاں دوروں پر نکل جاتا ہے اور پھرکچھ نہ کچھ مالی امداد حاصل کرلیتا ہے۔ سعودی حکمراں بھی شاید ہماری اس حرکت سے اب تنگ آچکے ہونگے اور بہت ممکن ہے کہ آیندہ سالوں میں شاید وہ ہمیں ایسی کسی امداد سے معذرت بھی کرلیں۔ ہمیں اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک دوست ممالک کی بیساکھیوں پر گزارا کرتے رہیںگے۔ ہم کب اس قابل ہونگے کہ ایک خوشحال اور خود کفیل قوم کے طور پر دنیا کے سامنے ایک باعزت مقام حاصل کر پائیں ۔ ہمیں بھی اپنے وسائل سے اپنی حالت بدلنے کی تدابیر اختیارکرنا ہوگی۔ عرصہ دراز سے زمین میں چھپے اپنے معدنی خزانوں کو باہر نکال کر قوم کو ایک باعزت مقام دلانے کے لیے اقدامات کرنا ہونگے ۔ آج ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہے ۔ کلائمٹ چینجز کی وجہ سے ہمیں ہر سال طوفانوں اور سیلابوں کا سامنا ہے ۔ گزشتہ برس سندھ اور بلوچستان سیلا ب کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہوئے تھے اس بار پنجاب اور خیبر پختون خوا اس مشکل سے گزر رہے ہیں، لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ وقتی طور پر اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومتی اجلاس بلا لیتے ہیں لیکن اس جانب دائمی انتظام کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ دنیا کے سامنے رونا شروع کردیتے ہیں اور اسے امداد سمیٹنے کا ایک اچھا موقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ دنیا نے پچھلے برس اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی کوششوں سے اس جانب توجہ بھی دی اور ہماری مدد بھی کی لیکن اس برس کوئی بھی ہماری پکار سن نہیں رہا۔ دنیا میں قومیں ایک بار جن مشکل حالات سے گزرتی ہے تو دوسری بار وہ اس قابل ہوجاتی ہے کہ ایسی کسی بھی قدرتی آفت کا وہ اکیلے ہی خود ہی نمٹ سکے، لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ بھی نہیںہوتا۔ ہم شور ضرور مچاتے ہیں لیکن ان مصائب سے بچنے کے لیے کوئی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔ چند دن کی آہ و بکا کے بعد پھر چین سے سوجاتے ہیں اور اگلے برس کے لیے بچاؤ کا کوئی انتظام نہیں کرتے۔ ہم نے اِن بارشوں اور سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ ڈیم بنانے کی ہر کوشش کو صوبائی تعصب اور عدم اتفاق کی نذر کردیتے ہیں، جب کہ ہمیں ایسے ذخائر کی اب اشد ضرورت بھی ہے ۔ ہوسکتا ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ہم آیندہ سالوں میں خشک سالی کا شکار بھی ہوجائیں اور پھر خدا کی اس نعمتوں سے فائدہ نہ اُٹھانے کے سبب ہم اپنی زرخیز زمینوں سے بھی محروم ہوجائیں۔ ایوب دور کے بعد سے آج تک ہم نے لانگ ٹرم پروجیکٹ نہیں بنائے ہیں ۔ جو ڈیم اس وقت بنائے گئے تھے انھیں پر اب تک اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ کسی نئے ڈیم پر جب بھی بات کی جاتی ہے۔ چھوٹے صوبے اسے اپنے خلاف سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی نہیں جب معاملہ کسی خسارے والے ادارے کو نجی تحویل میں دینے کا سوچا جاتا ہے تو بھی سیاسی مفادات کی وجہ سے اس کی مخالفت شروع کردی جاتی ہے، ہمارا یہی رویہ ہماری بدحالی کی اصل وجہ بنا ہوا ہے۔ ہم ایک قوم بن کر سوچتے ہی نہیں ہیں۔ سیاسی، مذہبی، لسانی اور فروعی اختلافات کی وجہ سے ہم ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں، دنیا کی ساری قومیں ایک قوم بن کر سوچتی ہیں اور ہم پہلے پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان بن کرسوچتے ہیں، یہی ہمارا المیہ ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل