Monday, August 18, 2025
 

کے پی میں سیلاب

 



کے پی سیلاب کی صورتحال پر سب کو افسوس ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ سیکڑوں لوگ جان سے چلے گئے ہیں۔ بالخصوص بونیر میں بہت جانی نقصان ہوا ہے۔ بونیر میں تو گاؤں کے گاؤں بہہ گئے ہیں۔ اسی طرح باقی علاقوں میں بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ بہرحال یہ پاکستان میں کوئی پہلا سیلاب نہیں۔ اس سے پہلے ملک کے باقی تمام صوبوں میں بھی سیلاب آچکا ہے۔ یہ پہلا کلاؤڈ برسٹ نہیں ہے۔ اس سے پہلے پنجاب میں بھی کلاؤڈ برسٹ ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے کے پی میں دوسرے علاقوں میں بھی سیلاب آچکا ہے۔ سیلاب ایک قدرتی آفت ہے، ہمیں اب اس کے لیے تیاری کرنی ہوگی۔ یہ اب معمول بنتا جا رہا ہے، اسی کو موسمیاتی تبدیلی بھی کہا جا رہا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا بڑی حد تک شکار ہے، اسی وجہ سے ہم پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ بارشوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، دیگر موسمیاتی تبدیلیاں بھی آرہی ہیں۔ اب ہمیں اس سے نبٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر تیاری کرنی ہوگی۔ یہ کسی ایک صوبہ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ویسے تو قدرتی آفات سے نبٹنے کے لیے تمام صوبوں نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیاں بنا لی ہیں۔ انھیں پی ڈی ایم اے کہا جا رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر صوبے میں کسی بھی قسم کی قدرتی آفت سے نبٹنے کے لیے صوبوں نے خود انتظام کرنا ہے۔ یہ صوبائی ذمے داری ہے، لیکن پھر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ایک قومی حکمت عملی ضروری ہے اس ضمن میں صوبوں کو مل کر بھی کام کرنا ہے۔ اس لیے ایک قومی ہم آہنگی بھی درکار ہے۔ بوینر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آنے والے سیلاب پر پورے ملک نے کے پی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیر اعلیٰ کے پی کو فون کر کے مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی ہے، کے پی کی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے، مکمل مدد کی پیشکش کی ہے۔ وزیر اعظم اور صدر مملکت نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے، دوست ممالک بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بات سمجھیں گراؤنڈ پر لوگوں کی مدد کا کام پھر بھی کے پی کی صوبائی حکومت نے ہی کرنا ہے ، کوئی اور وہاں جا کر کام نہیں کر سکتا۔ سب صوبائی حکومت کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی صوبائی حکومت نے بتانی ہے کہ اس کو کیا مدد درکار ہے، تاکہ وہی مدد کی جا سکے۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کام صوبائی حکومت نے ہی کرنا ہے۔ پاک فوج نے سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ کے پی کے عوام اور بالخصوص کے پی کی صوبائی حکومت کو پاک فوج کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ جب میں یہ تحریر لکھ رہاہوں تب بھی پاک فوج کے پی میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کر رہی ہے۔ پاک فوج نے اپنی ایک دن کی تنخواہ کے پی کے عوام کی مدد کے لیے دی ہے، ایک دن کا راشن دیا ہے۔ پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کے پی حکومت کے ساتھ مل کر سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو نکال رہے ہیں۔ پاک فوج نے بہت سے قیمتی جانوں کو ضایع ہونے سے بچایا ہے۔ لوگوں کو بروقت امداد دے کر انھیں زندہ رکھا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر پاک فوج بروقت نہ پہنچتی تو کے پی حکومت کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ سب لوگوں کو بچا سکتی۔ کے پی حکومت نے پہلے دن اپنا سرکاری ہیلی کاپٹر مدد کے لیے بھیجا لیکن وہ بھی حادثہ کا شکار ہوگیا۔لیکن فوجی ہیلی کاپٹرز مدد کر رہے ہیں۔ ایک تنازعہ جو اس دوران سامنے آیا ہے کہ وہ کے پی حکومت کی ریسکیو کی گاڑیوں کا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ریسکیو کی یہ گاڑیاں پنجاب حکومت کے قبضہ میں ہیں۔ میں نے اے این پی کی اے پی سی میں بھی یہ مطالبہ سنا کہ پنجاب یہ گاڑیاں اس مشکل گھڑی میں کے پی حکومت کو واپس کر دے۔ میرے لیے بھی یہ بہت حیرانگی کی بات تھی کہ کے پی کی ریسکیو کی گاڑیاں پنجاب حکومت کے قبضہ میں کیوں ہیں۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ جب کے پی کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے اسلام آباد پر چڑھائی کی جاتی تھی تو کے پی کی ریسکیو کی گاڑیوں کو بھی اس چڑھائی میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس دوران یہ گاڑیاں پنجاب کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے قبضہ میں لی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں مشکل کی اس گھڑی میں یہ گاڑیاں واپس کر دی جانی چاہیے۔ چاہے یہ خدشہ موجود ہے کہ یہ گاڑیاں عوام کی مدد کے لیے کم اور سیاسی مقاصد کے لیے زیادہ استعمال ہونگی۔ لیکن پھر بھی یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، اس لیے گاڑیاں واپس کر دینی چاہیے۔ تا ہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صوبوں میں قدرتی آفات سے نبٹنے کے لیے جو وسائل اور انفرا اسٹرکچر بنایا جاتا ہے، جو ریسکیو کے لیے تیاری کی جاتی ہے، اس کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ سیاسی بھرتیاں کی گئی ہیں اور اب وہ لوگ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، یہ افسوسناک ہے۔ اس کی بھی مذمت کی جانی چاہیے۔ بہر حال تیرہ سال سے کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہ اب وہاں اپنی ناکامیوں کی ذمے داری کسی اور پر نہیں ڈال سکتے۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ نے اعتراف کیا ہے کہ کے پی میں ندی نالوں کی بروقت صفائی نہیں ہو سکی ہے جس کی وجہ سے بھی سیلاب میں کافی نقصان ہوا ہے۔ میرا سوال ہے کہ تیرہ سال سے آپ کی حکومت ہے یہ صفائی کس نے کرنی تھی۔ نہیں ہوئی تو بھی آپ ذمے دار ہیں، ہم کسی اور کو ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہ بھی کے پی کی حکومت نے ہی بتانا ہے کہ ان کو کس صوبہ سے کیا مدد چاہیے۔ کوئی بھی دوسری حکومت وہاں براہ راست جا کر کام نہیں کر سکتی۔ اگر کے پی کے وزیر اعلیٰ یہ کہہ دیں کہ ہمیں کسی کی کوئی مدد نہیں چاہیے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ اگر ان کا موقف ہے کہ ہم لوگوں کی بحالی کا کام خود ہی کرلیں گے تو پھر سب خاموش ہی ہو جائیں گے۔ حالانکہ میں اس کو ایک سیاسی نعرہ سمجھتا ہوں اور یہ سیاست کا وقت نہیں۔ وفاقی حکومت نے انسانی جانوں کے نقصان پر لواحقین کے لیے بیس لاکھ روپے کے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے پی کے وزیر اعلیٰ کے بیان کو نظر انداز کرتے ہوئے سب کو وہاں متاثرہ لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ ہر حکومت کو علاقوں اور لوگوں کی بحالی کے کام میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ملک میں مزید بارشوں کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا کرنی چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل