Loading
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اور اس کے حامی وی لاگرز نے بھی موجودہ حکومت کا تقریباً ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد اب یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ حکومت کے بجائے ان بالاتروں سے مذاکرات چاہتی تھی وہ اپنے کام سے ہی کام رکھنا چاہتے ہیں انھیں سیاست کا شوق ہے نہ ہی ان کی ضرورت ہے بلکہ وہ متعدد بار یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ سیاسی مذاکرات جن کی ضرورت ہے وہ موجودہ حکومت سے ہی سیاسی مذاکرات کریں۔ پی ٹی آئی، اسپیکر قومی اسمبلی کی نگرانی میں حکومت سے یہ مذاکرات کرکے خود ہی مزید مذاکرات سے پیچھے بھی ہٹ چکی ہے کیونکہ اس کے خیال میں مذاکرات تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں جن کے پاس طاقت ہے مگر بالاتر کسی صورت پی ٹی آئی کی بات سننے یا مذاکرات کے لیے حتی کہ بانی کا لکھا گیا خط تک پڑھنے کو تیار نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ جو مذاکرات خود ختم کیے تھے اس کے بعد کئی ماہ سے ڈیڈ لاک برقرار چلا آ رہا ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی معاشی صورت حال کے استحکام کے لیے سیاسی پارٹیوں میں مذاکرات کی پھر آفر دی ہے جو پی ٹی آئی نے قبول کی ہے اور نہ ہی مسترد کی ہے۔ حکومت کی نرم پالیسی سے ملک میں یہ تبدیلی ضرور دیکھی گئی ہے کہ 5 اگست کو پی ٹی آئی اپنا احتجاج ضرور کسی حد تک پہلے کے مقابلے میں بہتر طور پر کر پائی مگر کے پی میں اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی جس کی ناکامی کی توقع خود پی ٹی آئی کو بھی نہیں تھی۔ 5 اگست کو پارٹی کے موجودہ مرکزی رہنماؤں کی ناتجربہ کاری ہو یا عدم دلچسپی، پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ نے باہر نکلنے کی کوشش ہی نہیں کی اور انھوں نے باہر کی شدید گرمی برداشت کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے ٹھنڈے ماحول میں وقت گزارنے کو ترجیح دی اور ان میں اور دیگر رہنماؤں کے باہمی رابطے تک موثر نہ تھے۔ سیاست میں نو وارد پی ٹی آئی کے کچھ رہنما ہمیشہ احتجاج کے موقع پر اپنا شہر لاہور چھوڑ کر اسلام آباد کیا کرنے چلے جاتے ہیں اور اگر لاہور میں ہوں تو تنہا ہی شہر میں گھومتے اور اپنے گھومنے کی تصاویر وائرل کرکے اپنی موجودگی دکھا دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے رہنما اپنی ہی موجودہ قیادت کی اہلیت پر جو سوال اٹھاتے رہتے ہیں اس پر پرانے کارکنوں کو مطمئن کرنے والا کوئی نہیں۔ سوٹوں میں پارٹی کی قیادت کرنے والوں کے پاس اڈیالہ یا لاہور میں قید رہنماؤں سے ملنے کے لیے وقت نہیں انھیں صرف بانی کی فکر نظر آتی ہے۔ خود 9 مئی کے سلسلے میں بھی پی ٹی آئی میں دو رائے ہیں۔ بانی تو کسی صورت 9 مئی کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں مگر حقیقت پسند تسلیم کرتے ہیں کہ 9 مئی غلطی تھی۔ اب بانی کی طرف سے 9 مئی پر کمیشن بنانے کے بیانات آنا بھی بند ہو گئے ہیں مگر الزام تراشی کم نہیں ہوئی۔ بانی کی ہمشیرہ کے بعض بیانات متنازعہ چلے آ رہے ہیں جن کو پارٹی کے اندر بھی تسلیم نہیں کیا جاتا جس سے حالات میں بہتری نہیں آ رہی۔ شاہ محمود قریشی و فواد چوہدری 9 مئی کے الزامات سے رہائی پا چکے اور سزاؤں اور رہائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے مگر عدالتی فیصلوں میں تاخیر ضرور ہوئی ہے مگر بانی اپنے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لیے 9 مئی کے اعتراف پر راضی نہیں جن کی ضد کی سزا وہ خود اور پارٹی رہنما بھگت رہے ہیں۔ 9 مئی حقیقت تھا اور رہے گا مگر سانحہ 9 مئی کے اصل ذمے دار جن کے خلاف الزامات کے ثبوت بھی سامنے آ چکے ہیں اور دو سالوں میں ظاہر ہو چکا کہ حکومت سے مذاکرات کس کی ضرورت ہیں۔ معافیاں قبول بھی ہو رہی ہیں مگر ضرورت سیاست کی نہیں اعتراف جرم کی ہے جو ملزم ہیں معافی ان کی ضرورت بھی ہے جس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل