Loading
اسرائیل کا سرکاری موقف ہے کہ غزہ سے حراست میں لیے گئے سب لوگ حماس یا اسلامک جہاد کے ’’دہشت گرد‘‘ ہیں۔اس دعوی کے برعکس اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس کے کلاسیفائیڈ ڈیٹا سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچیس فیصد قیدیوں کے بارے میں تو شبہہ ہو سکتا ہے کہ وہ بلاواسطہ یا براہِ راست اسرائیل مخالف تنظیموں کی مدد کرتے رہے یا کبھی نہ کبھی رابطے میں رہے مگر پچھتر فیصد عام شہری ہیں۔ان کا کسی مسلح تنظیم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ان میں طبی شعبے سے منسلک افراد ، اساتذہ ، سرکاری ملازم ، قلم کار ، میڈیا ورکرز ، بیمار ، معذور ، معمر اور بچوں سمیت ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ جنوبی اسرائیل کے بدنامِ زمانہ سدی تمیم قید خانے میں اتنے معمر اور بدحال قیدی بھی ہیں کہ ان کے لیے جیل میں الگ شیڈ بنانا پڑ گیا۔ان میں وہ مریض بھی ہیں جنھیں غزہ کے اسپتالوں میں بستروں سے کھینچ کے گاڑیوں میں بھر کے یہاں پہنچایا گیا۔بہت سے وہیل چیرز سمیت اٹھا لیے گئے۔ برطانوی اخبار گارجین ، اسرائیلی آن لائن جریدے نائن سیون ٹو اور لوکل کال کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنیس کا جو ڈیٹا ہاتھ لگا اس میں سینتالیس ہزار افراد کو بطور دہشت گرد کلاسیفائی کیا گیا۔یہ فہرست مسلسل اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے۔ان میں سے صرف ساڑھے چودہ سو افراد کو باقاعدہ ’’ گرفتار ‘‘ ظاہر کیا گیا۔ تین سو نام ایسے ہیں جن کے بارے میں ملٹری انٹیلی جینس کو یقین ہے کہ وہ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو جنوبی اسرائیل پر ہونے والے حملے میں ملوث ہیں۔مگر دو برس گذرنے کے باوجود انھیں کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ باقی گرفتاروں کو غیر قانونی جنگجوؤں کی کیٹگری میں دکھایا گیا ہے۔اس کیٹگری کا فائدہ یہ ہے کہ عام شہریوں کو بنا فردِ جرم عائد کیے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ قیدیوں کی قانونی معاونت کرنے والی انسانی حقوق کی ایک فلسطینی تنظیم المیزان سینٹر کا کہنا ہے کہ اسرائیل اب بھی بے گناہ قیدیوں کی تعداد کم کر کے پیش کر رہا ہے۔المیزان کا اندازہ ہے کہ ہر چھ یا سات میں سے صرف ایک گرفتار شخص کا اسرائیل مخالف تنظیموں سے تعلق یا ہمدردی ہو سکتی ہے۔یعنی ستر فیصد قیدی کسی لینے دینے میں نہیں۔ اسرائیل کا دعوی ہے کہ دو ہزار قیدیوں کو تفصیلی چھان پھٹک کے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔فوجی ذرایع کے مطابق رواں برس مئی تک دو ہزار سات سو پچاس قیدیوں کو باضابطہ طور پر غیرقانونی جنگجو قرار دیا گیا۔جب کہ ایک ہزار پچاس کو حماس کے ساتھ جنوری میں ہونے والے عارضی جنگ بندی کے سمجھوتے کے تحت رہائی نصیب ہوئی۔ رہائی پانے والوں میں الزائمر میں مبتلا بیاسی سالہ فہمیہ الخالدی بھی شامل ہیں جنھیں دسمبر دو ہزار تئیس میں معمر لوگوں کی طبی دیکھ بھال کے ایک مرکز سے گرفتار کر کے چھ ہفتے تک بطور غیرقانونی جنگجو حراست میں رکھا گیا۔فہمیہ کی یادداشت بالکل ختم ہے۔اسرائیل کے اناتوت نظربندی مرکز میں جب فہمیہ نے خاردار باڑھ سے الجھ کے خود کو زخمی کر لیا تب نظربندی مرکز کے طبی عملے کو ان کی بیماری کی شدت کا علم ہوا۔فہمیہ کو نہ اپنی عمر یاد ہے اور نہ یہ احساس کہ وہ گرفتار ہیں۔مگر اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس بضد ہے کہ فہمیہ کو مصدقہ اطلاعات ملنے پر حراست میں لیا گیا۔معذور یا بیمار بھی دہشت گردوں کے آلہِ کار ہو سکتے ہیں۔ ایک انٹیلی جنس اہلکار نے القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد دائف کی مثال دی جن پر اسرائیل نے سات قاتلانہ حملے کیے اور دو ہزار چودہ میں وہ اسی طرح کے ایک حملے میں زخمی ہونے کے سبب وہیل چیر استعمال کرتے رہے ( باور کیا جاتا ہے کہ محمد دائف گذشتہ برس ایک حملے میں شہید ہو گئے )۔ سدی تمیم کی جیل کے طبی عملے میں سے ایک نے بتایا کہ ایک حاملہ خاتون کو بھی یہاں لایا گیا جس کا خوف کے سبب مس کیرج ہو گیا۔ ایک اور قیدی عورت کو اپنا شیر خوار بچہ ساتھ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ملی۔ چالیس سالہ ابیرہ غبان کو دسمبر دو ہزار تئیس میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ ان کے ہمراہ دس سالہ بچی اور نو اور سات برس کے دو بیٹے تھے۔تینوں بچوں کو وہیں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ابیرہ کو حماس کے ایک مطلوب شخص کی بیوی ہونے کے شبہے میں گرفتار کیا گیا۔ چھان بین سے معلوم ہوا کہ ابیرہ کا شوہر دراصل اسرائیل کو مطلوب شخص کا محض ہم نام ہے اور ابیرہ کی گرفتاری اسی کنفیوژن کا نتیجہ تھی۔عبیرہ تریپن روز بعد رہا ہو کر گھر پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ تینوں بچے اس دوران سڑک پر بھیک مانگ کر گذارہ کرتے رہے۔ غیر قانونی جنگجوؤں کے قانون کے تحت قیدیوں کو پینتالیس دن تک عدالت میں پیش کیے بغیر اور پچھتر دن تک وکیل تک رسائی کے بنا حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔مگر سات اکتوبر کے بعد اس قانون میں مزید تبدیلی کے نتیجے میں عدالت تک رسائی پچھتر روز اور قانونی امداد تک رسائی ایک سو اسی دن تک روکی جا سکتی ہے۔سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے جتنے لوگ گرفتار ہوئے ان میں سے کسی پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی ان قیدیوں کے کوائف کے بارے میں تھوڑی بہت تفصیلات تب مل پائیں جب عدالت سے رجوع کیا گیا۔ جن قیدیوں کو تفتیش کے بعد آزاد کر دیا جاتا ہے وہ بھی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔جب غزہ کے الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سالمیا کو بہیمانہ تشدد کے بعد رہا کیا گیا تو اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئین و قانون کے سربراہ سمچا روتھمین نے احتجاج کیا کہ ان قیدیوں کو حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے بغیر کیوں چھوڑا جا رہا ہے ؟ انسانی حقوق کی تنظیم المیزان کے مطابق فلسطینیوں کی لاشیں ضبط کر لینا تو ایک معمول ہے۔ ان لاشوں کو تب تک ورثا کے حوالے نہیں کیا جاتا جب تک کہ وہ نیک چلن کے تحریری عہدنامے پر دستخط نہ کر دیں۔ غزہ کے ہزاروں لوگ لاپتہ یا جبری گمشدہ ہیں۔مثلاً تین دسمبر دو ہزار چوبیس کو نسرین زیف اللہ کا سولہ سالہ بچہ محتشم گھر کا سودا لینے گیا مگر پلٹ کر نہیں آیا۔نسرین نے اسپتالوں کے مردہ خانے تک چھان مارے لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔گذشتہ ماہ رہا ہونے والے ایک قیدی نے نسرین کو بتایا کہ اس کا بیٹا میرے ساتھ قید تھا اور بیمار تھا۔ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل