Monday, September 15, 2025
 

چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل

 



ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسرائیل اتنا طاقتور اور مضبوط ہوجائے گا کہ وہ تمام عرب اسلامی ممالک کی سرزمین پر جہاں چاہے حملہ کردے گا اور کوئی اسے اسی انداز میں جواب بھی نہیں دے پائے گا۔ ایک کے بعد ایک اور واردات اسرائیل کرتا جا رہا ہے اور ہم میں سے کوئی ایک اسلامی ملک بھی اس قابل نہیں کہ اسے اس کی اس دلیری کا جواب دے سکے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ہر بار صرف مذمت کر کے رک جاتے ہیں یا پھر معاملہ پر غور کرنے کے لیے OIC یا عرب سربراہ ممالک کا اجلاس بلا لیتے ہیں اور ایک قرارداد پاس کرا کے اپنے اپنے گھروں کو لو ٹ جاتے ہیں۔ یہ ہم ہر بار دیکھتے رہے ہیں اور آیندہ بھی شاید دیکھتے رہیں گے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم نے چالیس اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل ایک اتحادی گروپ کیوں بنایا ہوا ہے۔ بناتے وقت تو یہ کہا گیا تھا کہ جب بھی کسی اسلامی ملک پر کوئی غیر اسلامی ملک حملہ کرے گا یہ چالیس ممالک ملکر اس کا مقابلہ کریں گے، مگر ایسا لگتا ہے وہ اتحاد بھی باقی تمام اتحادوں کی طرح صرف نام کا اتحاد ہے اورعملاً کوئی اسے کسی کام کی اجازت ہی نہیں ہے۔ ہاں البتہ اسے اسرائیل اور امریکا کے علاوہ کسی اور ملک کی جارحیت کا جواب دینے کا اختیار ضرور حاصل ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے اسرائیل کی جارحیت بہت بڑھتی جارحیت۔ وہ ایک ایک کر کے ہر اسلامی ملک پر حملہ آور ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے اس نے صرف فلسطین کو نشانہ بنایا ہوا تھا مگر اب وہ دیگر اسلامی ممالک کی سرزمین پر بھی حملے کرتا جا رہا ہے۔ قطر سے پہلے اس نے ایران، یمن، لبنان پر بھی حملے کر کے اُن کی جوابی صلاحیت کا پتا لگا لیا اور شاید وہ دن دور نہیں جب وہ سعودی عرب اور پاکستان پر بھی جارحیت کی منصوبہ بندی کر ڈالے۔ ہمیں اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ اگر ایسا ہوا تو ہمارا جواب کیا ہوگا۔ وہی جو آج دیگر اسلامی ممالک کا ہے یا پھر ہماری غیرت جوش مار کر اُسے سبق سکھانے پر مجبور ہوجائیں گی۔ ایسا نہ ہو کہ امریکا بہادر ہمیں صبرکی تلقین کر کے اور اسرائیل کی ہلکی سی مذمت کر کے ہمیں اس جوابی کارروائی سے روک دے اور ہم ازراہ محبت اور ازراہ دوستی اس کی بات مان جائیں۔ امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ ایک طرف اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے تو دوسری طرف عرب اور اسلامی ممالک سے دوستی اور محبت کا اظہار کر کے اُنہیں اپنے دام میں پھنسا لیتا ہے۔کچھ دنوں قبل اس نے سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کا دورہ کرکے اپنے ملک کے لیے کئی سودے کر ڈالے اور اُنہیں ہتھیار فراہم کرنے کے عوض اربوں ڈالر کما لیے۔ ہمارے عرب سربراہوں نے اس کے استقبال کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ کردیں اور خوشی سے سرشار ہو کر تمام سودوں پر فوراً دستخط بھی کر دیے۔ قطری خلیفہ نے تو جناب ٹرمپ کو ایک بہت ہی بڑے مہنگے دلکش طیارے کا تحفہ بھی دے دیا۔ یہی ٹرمپ آج اس خلیفہ کو اسرائیلی حملے کے بعد جوابی کارروائی نہ کرنے کی تلقین بھی کر رہا ہے اور اندرون خانہ اسرائیل کو شاباشی بھی دے رہا ہے کہ بالکل درست کیا۔ جو ملک تمہارے دشمن افراد کی مہمان نوازی کرے اس ملک پر حملہ کرنا تمہارا استحقاق ہے۔ یہ ہے وہ ڈپلومیسی جس پر آج کا امریکی صدر ٖفخر سے اپنا سینہ چوڑا کر رہا ہے۔ اس کا خیال ہے دنیا اس کی اس حکمت عملی کو پسند بھی کرتی ہے اور داد بھی دیتی ہے۔ پاک بھارت جنگ رکوانے کا بیسیوں اور تیسیوں بار ذکر کر کے سارا کریڈٹ اپنے نام کر کے وہ سمجھ رہا ہے کہ دنیا اس کی اس بات کو من و عن مان لے گی۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی بہت سی جنگیں ہوئیں اور اُن کا سیز فائر بھی ہوا لیکن کسی اور صدر نے اس کا کریڈٹ اس طرح کبھی بھی اپنے نام نہیں کیا۔ کارگل کی جنگ بھی امریکا کے اور صدر نے رکوائی تھی لیکن ہم نے اسے ایسا کریڈٹ لیتے کبھی بھی نہیں دیکھا۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسے اس بات کا احساس تک نہیں دلاتے کہ یہ تمہارا کریڈٹ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے امن کا نوبل انعام دلوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ امن کا نوبل انعام اس شخص کو ضرور ملنا چاہیے جو اسرائیل کی جارحیت کو روک سکے، مگر یہاں تو ایسا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی پر اسے امن کا دشمن قرار دینا چاہیے۔ اسلامی ممالک سے زیادہ تو آج دیگر غیر اسلامی ممالک اسرائیل کی اس جارحانہ کارروائیوں پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی مذمت میں وہاں لاکھوں افراد سراپا احتجاج ہیں۔ غزہ کے معصوم اور بے گناہ افراد کے قتل پر اسرائیل کی سرپرستی کرنے والا امن کا داعی کیسے ہوسکتا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کے قبضے کو جائز قرار دینے والا کون شخص ہے۔ ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سب دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود اس ٹرمپ کی اندھی حمایت کرتے جا رہے ہیں، ہم اگر اس پر تنقید نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم اس کی تعریفیں تو نہ کیا کریں۔ وہ شخص آج ہمارے معدنی ذخائر کی وجہ سے ہم سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے اور ہمارے مقابلے میں بھارت کو نیچا دکھا رہا ہے۔ دیکھا جائے کہ جوجرم بھارت نے روس سے تیل خرید کرکیا ہے ویسا ہی جرم تو ہم بھی کر رہے ہیں۔ یعنی امریکا جسے اپنا بہت بڑا دشمن اور حریف ملک سمجھتا ہے ہم اسی ملک چین سے دوستی اور محبت کے رشتے استوارکیے ہوئے ہیں۔ کل مزاج بدلتے ہی وہ ہم سے بھی کہہ سکتا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو یا چین کے۔ جس طرح نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر بش نے پرویز مشرف سے کہا تھا کہ تم ہمارے دوست ہو یا ہمارے مخالفوں کے۔ نتیجتاً ہم نے اپنا سب کچھ اس پر نثارکر دیا تھا اور اپنی سرزمین کو اگلے کئی سالوں کے لیے دہشت گردی کی آماج گاہ بنا لیا تھا۔ جو بربادی اس کے بعد ہوئی تھی ہم آج تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ ہمیں آج اس رویہ کو یاد کرتے ہوئے اس قدر غافل نہیں ہوجانا چاہیے کہ امریکا ایک بار پھر ہمارے ساتھ وہی طرز عمل اختیار کر ڈالے۔ اسے ہماری چین کے ساتھ دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ اگر آج اسے نظر اندازکیے ہوئے ہے تو اس کے پیچھے بھی اس کے کچھ خفیہ مقاصد کارفرما ہیں۔ وہ جلد اپنا پینترا بدل کر پھر ہم سے دشمنی مول لے سکتا ہے۔ اسرائیل ہمارے پڑوسی ملک ایران تک پہنچ چکا ہے توکل ہماری سرزمین پر بھی پہنچ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیا جوابی کارروائی کر پائیں گے۔ ہمیں آج سے اس کی پلاننگ کرلینا ہوگی۔ یاد رہے کہ پھر امریکا بھی ہمارا دشمن ہوسکتا ہے اور وہ ساری دوستیاں اور مہربانیاں جو وہ آج دکھا رہا ہے عداوت اور دشمنی میں بدل سکتی ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل