Loading
’’ہم یہاں اپنی بیٹی کا رشتہ کسی صورت میں بھی نہیں دیں گے، کیا وہ اپنا رویہ بھول گئے ہیں؟‘‘ بڑے بھیّا نے اماں، ابا کو صاف صاف کہہ دیا۔ ’’ہاں بالکل! انھوں نے بھی اپنی چھوٹی والی (بیٹی) کا رشتہ ہمیں نہیں دیا تھا اور کس طرح منھہ بھر کے انکار کر دیا تھا۔ بھابھی نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کر دیے۔ امی، ابا کی کیا مجال تھی کہ بڑے بیٹے یا بہو کے سامنے کسی بات سے انکار کر جائیں۔ حالاں کہ وہ چاہتے کہ بچی کا رشتہ ان کے بھائی کے گھر ہو جائے۔ لڑکا بھی اچھا تھا۔ اپنا کاروبار تھا۔ ہر لحاظ سے انھیں بہتر لگا تھا، لیکن اب کیا کریں۔ بیٹا ہی راضی نہیں تھا۔ منجھلے بیٹے کے لیے جب وہ بھائی کے گھر ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کا رشتہ لینے گئے تھے، تو انھوں نے انکار کر دیا تھا، لیکن کافی سال گزرنے جانے کے بعد وہ یہ بات نہیں بھولی تھیں اور اب جب وہ رشتہ لینے کے لیے ان کے گھر آئے تو بیٹے، بہو پہلے تو طنز کے تیر چلائے، پھر سوچنے کے لیے وقت لیا، لیکن پھر جلد ہی رشتے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملات صرف ایک گھر کے نہیں ہیں بلکہ ہر گھر میں خاندانی رشتوں میں انا کی دراڑیں پڑی ہوتی ہیں۔ سب اپنے اپنے خول میں بند ہوتے ہیں اور ان کے تلخ رویے دوسروں کی بھی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ماں باپ حیات ہیں، تو پہلا حق ان کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے زندگی کے فیصلے کریں۔ بڑے بیٹے، بیٹی کی بات کو بھی اہم گردانا جائے، ان کی بات سنی جائے لیکن اگر وہ حق پر نہیں ہیں اور اپنی محرومیوں کا بدلہ چھوٹے بہن،بھائی سے لے رہے ہیں، تو انھیں فیصلے کا بالکل حق نہ دیا جائے۔ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ انھوں نے آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیا تو آپ اسی بات کو دل میں لیے بیٹھی رہیں اور نسلوں تک یہی رویہ منتقل کریں۔ اگر آپ کے کسی بہن، بھائی نے آپ کے کسی بیٹے، بیٹی کے لیے رشتہ منظور نہیں کیا، تو ضروری نہیں کہ آپ بھی ویسا ہی رویہ رکھیں۔ آپ کو چاہیے کہ اس انا پرستی کی دیوار کو گرا دیں اور فراخ دلی سے سوچیں کہ اگر وہ آپ کے حق میں بہتر ہے، تو اسے قبول کرنے میں دیر نہ لگائیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کئی سالوں تک اچھا رشتہ نہ ملے اور زندگی کی پریشانیاں بڑھتی جائیں۔ کسی نے بہو کو طلاق دے دی، تو سب انھیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ ہماری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میاں بیوی نے ایک دوسرے کا ساتھ نہ نبھایا ہو۔ کسی نے بڑی بہو کو الگ کر دیا، تب بھی رشتے کے لیے آنے والوں کا عجیب سا رویہ ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ بہن سے رشتہ مانگا اس نے نہیں دیا، تو سالوں ایک دوسرے کا منھہ نہیں دیکھا جاتا، خوشی، غمی میں بھی شریک نہیں ہوا جاتا۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ شاید قسمت میں ایسے ہی لکھا ہوا تھا اور پھر ہمیں تو ان سے بھی زیادہ اچھا رشتہ مل گیا تھا۔ بیٹی، بیٹا اپنے گھروں میں خوش تھے، لیکن ماں،باپ اپنے دلوں سے کدورتیں ہی ختم نہیں کرتے اور زندگی کی حقیقی خوشیوں سے سکون ہی حاصل نہیں کرتے ۔ اسی طرح دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ چچا زاد بھائی سے چھوٹی بیٹی کا رشتہ مانگا، انھوں نے بڑی کے لیے کہا تو بس وہیں سے رشتے میں دارڑ پڑ گئی، رشتہ تو لینا دور، ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا اور رشتے داروں کے سامنے الگ بے عزت کیا کہ ’’بڑی والی ہمارے سر زبردستی تھوپ رہے تھے۔‘‘ وہیں سے لڑائی جھگڑے اور کدورتیں بڑھتی چلی گئیں۔ یہاں کہنے کا مطلب ہے کہ اپنے رویوں کو بدلیں، دل کو وسیع کریں، اپنی انا کی جنگ ختم کریں۔ زندگی بہت مختصر ہے، نہ جانے کب ختم ہو جائے، جو رشتے آپ کے پاس موجود ہیں ان کی قدر کریں۔ فراخ دلی سے رشتوں کو عزت دیں، نہ کہ سارے رشتے داروں کے سامنے انھیں بے عزت کریں۔ رشتے نہیں لیے، نہیں دیے کوئی بات نہیں، لیکن ان سے پہلے کا اور خونی تعلق ہر گز نہ توڑیں، بلکہ کسی نہ کسی طرح جوڑے رکھیں، تاکہ آپ کے بچے بھی تعلق جوڑنے والے بنیں اور ان کے اپنے دور نزدیک کے سبھی رشتے داروں سے اچھے تعلقات ہوں۔ مثبت رویوں سے زندگیاں سنور جاتی ہیں اور غلط رویے نسلیں تباہ کر دیتے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں میں کبھی یہ مت ڈالیں کہ فلاں رشتے دار سے ہم نے فلاں چیز مانگی تھی، لیکن اس نے نہیں دی۔ ورنہ بچے خود ہی ایسے رویے پہچان لیتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ بچوں کے درمیان ایسی طنزیہ انداز اور لب و لہجہ اختیار نہ کریں۔ آپ کو سمجھانے کا مقصد یہی ہے کہ جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا ضروری نہیں کہ آپ کے بچوں کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو۔ ابھی وقت ہے بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔ انا کی جنگ میں ہار جیت چلتی رہتی ہے، لیکن دل کے رشتے دوبارہ نہیں ملتے اور اپنے رویوں سے اپنے سگے اور خونی رشتوں کو دور نہ کریں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل