Tuesday, October 14, 2025
 

ڈوڈلسٹن کے پراسرار پیغامات

 



دنیا میں بعض کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سن کرکر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان یقین اور حیرت کے بیچ الجھ جاتا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے حقیقت اور فسانے کے درمیان کوئی باریک سا پردہ ہے،جو اگر لمحہ بھر کے لیے اُٹھ جائے تو سامنے کسی اور جہان کی جھلک دکھا دے۔ جہاں وقت، عقل اور سائنس سب بے بس کھڑے ہوں۔ ڈوڈلسٹن میسجز (The Dodleston Messages) بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے ایک پرانے انگریزی گاؤں، ایک استاد، ایک کاٹج اور ایک ایسے کمپیوٹر کی داستان جس نے نہ صرف ماضی بلکہ شاید مستقبل سے بھی گفتگو کی۔  ایک پرانا گھر، ایک عام زندگی، مگر ایک غیر معمولی واقعہ جس کا آغاز ایک عام دن سے لیکن ایک غیر معمولی دریافت بنا۔ سال 1984: انگلینڈ کے شمال مغربی حصے میں ایک چھوٹااور پرسکون سا گاؤں ، ڈوڈلسٹن۔یہ وہ جگہ ہے جہاں وقت جیسے سست روی سے بہتا ہے؛پتھروں سے بنے مکانات، پرانی دیواریں، اور خاموش گلیاں۔یہیں ایک نوجوان استاد کین ویبسٹر (Ken Webster) اپنی دوست ڈیبی اوکس (Debbie Oakes) کے ساتھ ایک پرانے مگر خوبصورت کاٹیج میں رہنے لگا۔ زندگی سادہ تھی ،دن اسکول میں گزرتا، شام دوستوں کے ساتھ اور راتیں چولہے کی ہلکی آنچ میں باتوں میں بیت جاتیں۔لیکن وہ گھر، جس کی دیواروں میں صدیوں کی نمی بسی ہوئی تھی، اپنے اندر کوئی راز چھپائے بیٹھا تھا۔ ایک شام، جب باہر بارش کی بوندیں چھت پر بج رہی تھیں،کین نے اپنا نیا خریدا ہوا BBC Micro کمپیوٹر آن کیا۔یہ وہ دور تھا جب کمپیوٹر عام گھروں تک نہیں پہنچے تھے اور زیادہ تر لوگ ابھی‘‘ڈیجیٹل دنیا’’سے ناواقف تھے۔کین کو یہ کمپیوٹر اسکول سے ایک پراجیکٹ کے لیے ملا تھا۔لیکن جب اُس نے کمپیوٹر کی سکرین پر ایک غیر متوقع اور اجنبی فائل دیکھی، تو سب کچھ بدل گیا۔  پہلا پیغام :’’تم کون ہو جو میری دیواروں میں گھس آئے ہو؟‘‘ کین نے فائل کھولی۔اس فائل کے اندر ایک تحریر تھی، مگر وہ آج کی انگریزی نہیں تھی۔الفاظ عجیب تھے ،ایسے جیسے شیکسپیئر کے زمانے کی کوئی تحریر ہو۔اس میں ایک پیغام تھا لیکن عجیب زبان میں۔تحریر کچھ یوں تھی: ’’میں اس گھر میں رہتا ہوں۔ تم کون ہو جو میری دیواروں میں داخل ہوئے ہو؟ تمہارے آلے اور چراغ میرے لیے اجنبی ہیں۔ تمہارے چراغ روشنی دیتے ہیں مگر آگ نہیں۔ تمہارے آلات میرے لیے جادو ہیں۔‘‘ کین نے حیرت سے سکرین دیکھی۔ وہ چند لمحے ساکت رہ گیا۔یہ کون لکھ سکتا ہے؟کوئی دوست مذاق میں شرارت کر رہا ہے؟یا شاید کوئی ہیکنگ؟ یا واقعی کسی ان دیکھی دنیا سے آیا ہوا پیغام؟مگر اُس زمانے میں تو انٹرنیٹ بھی نہیں تھا۔کچھ دن گزرے تو اسی طرز کے مزید پیغامات آنے لگے۔تحریر ہمیشہ اسی پراسرار انداز میں ہوتی۔ہر بار الفاظ اور جملے پرانی انگریزی کے ہوتے۔پھر ایک دن، لکھنے والے نے اپنا نام بتایا ۔ ٹومی وینٹین یا تھامس ہارڈن۔ (Thomas Harden) بعض جگہ وہ خود کو‘‘لوکاس وین مین’’بھی کہتا تھا۔ ایک قدیم نام : پانچ سو سال پرانا شخص۔ٹومی نے بتایا کہ وہ 1520 کے آس پاس اسی زمین پر رہتا تھا۔تب یہ جدید مکان نہیں تھا، بلکہ مٹی اور لکڑی کی چھوٹی سی کھیتوں کے بیچ بنی ایک جھونپڑی نما گھر تھا۔وہ خود کو ایک کسان اور لکڑی کا کاریگر بتاتا تھا۔اُس نے حیرت سے لکھا کہ وہ‘‘روشنی کے ایسے چراغ دیکھتا ہے جن کی آگ ٹھنڈی ہے، ’’اور لوگوں کی ایسی زبان سن رہا ہے جو جادو جیسی ہے ۔ایسے الفاظ سنتا ہے جو اُس کے زمانے کے جادوگر بھی نہیں سمجھ سکتے۔‘‘کین نے یہ پڑھا تو اُس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ہاتھ کانپنے لگے۔یہ سب کیسے ممکن تھا؟ کیا واقعی کوئی پانچ سو سال پرانا شخص اُس کے کمپیوٹر کے ذریعے اس سے بات کر رہا تھا؟ اور اگر ہاں ۔تو کیسے؟  ایک مکالمہ، صدیوں کے پار کین نے ایک دن جوابی پیغام لکھا۔سیدھا، سادہ سا جملہ:‘‘تم کون ہو؟ اور یہ کیسے ممکن ہے؟’’ اگلی شام جب اُس نے کمپیوٹر آن کیا تو جواب پہلے سے موجود تھا۔یوں کین اور ٹومی کے درمیان ایک عجیب ساناممکن سا مکالمہ شروع ہو گیا۔کین سوال لکھتا،اور جب وہ سسٹم دوبارہ چلاتا، جواب اُسی پرانی زبان میں ملتا۔لکھنے والا خود کو ‘‘Lucas’’بھی کہتا تھا شاید اُس کے کسی اور نام یا عرفیت کا حصہ۔کوئی ہیکنگ نہیں، کوئی انٹرنیٹ نہیں بس ایک سادہ سا کمپیوٹر، جو جیسے وقت کی تہہ میں اتر کر صدیوں پرانا رابطہ قائم کر چکا ہو۔لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ اُس کی تحریر میں وہی پرانی لسانی ساخت تھی ۔جو واقعی سولہویں صدی میں بولی جاتی تھی۔یہ کوئی عام مذاق نہیں لگتا تھا۔ ٹومی نے بتایا کہ وہ اُس زمانے کا رہنے والا ہے جب چرچ اور بادشاہت کے درمیان تنازعات عروج پر تھے۔وہ لکڑی اور پتھر کے کام میں ماہر تھا، اور اُس کے گاؤں میں اکثر تعلیمی و مذہبی مباحثے ہوتے رہتے تھے۔جو بات حیران کن تھی، وہ یہ کہ اُس کے پیغامات میں استعمال ہونے والے الفاظ اور جملے واقعی سولہویں صدی کی انگریزی کے مطابق تھے ۔وہ طرزِ تحریر جسے صرف ماہر لسانیات ہی سمجھ سکتے ہیں۔کین نے ماہرینِ لسانیات سے رجوع کیا۔انہوں نے کہا:’’یہ تحریر کسی عام آدمی کے بس کی نہیں۔یہ واقعی پرانے زمانے کی ہے۔ یہ اُس دور کی حقیقی انگریزی ہے‘‘۔پھر مستقبل سے بھی آواز آئی ایک نیا موڑ جیسے ماضی سے بات کرنا ہی کافی نہ ہو،ابھی کین اس راز کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا، کہ ایک دن کمپیوٹر نے ایک نیا پیغام دیا لیکن اس بار نہ پرانی زبان میں، نہ کسی کسان کے انداز میں۔ یہ پیغام سال 2109 سے تھا۔ یہ شخص خود کو ایک ’’ناظر‘‘ (Observer) کہتا تھا، جو کہتا تھا کہ وہ کین اور ٹومی کے درمیان ہونے والی اس بات چیت کو مانیٹر کر رہا ہے۔ اس نے لکھا:’’تم دونوں ایک تجربے کا حصہ ہو۔ وقت کے بہاؤ کو سمجھنے کی یہ ایک آزمائش ہے‘‘۔لکھنے والے نے کہا:’’ہم تم دونوں کو دیکھ رہے ہیں یہ ایک تجربہ ہے، وقت کی سمجھ کو جانچنے کی کوشش۔تمہارا رابطہ ایک آزمائش ہے‘‘۔ اب معاملہ اور پراسرار ہو گیا۔ایک طرف سولہویں صدی کا انسان، دوسری طرف مستقبل کے لوگ۔یعنی اب نہ صرف ماضی بلکہ مستقبل بھی اس کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔ کین خود حیرت میں ڈوب گیا کیا واقعی کین کسی ٹائم ایکسپیریمنٹ کا حصہ بن گیا تھا؟ کیا وہ کسی سائنسی تجربے میں ہے؟یا پھر یہ سب محض کسی نادیدہ ذہن کی تخلیق؟ گھر میں ہونے والی عجیب تبدیلیاں اور پراسرار واقعات کین اور ڈیبی نے نوٹ کیا کہ اب گھر میں کچھ عجیب باتیں اور غیر معمولی واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ دیواروں پر چاک سے بنے عجیب نشانات،کھانے پینے کی چیزیں اور سامان کا اپنی جگہ بدل لینا،اور بعض اوقات کمپیوٹر کا بغیر آن کیے خودبخود چل پڑنا۔کین اور ڈیبی دونوں خوفزدہ بھی تھے اور متجسس بھی۔کیا یہ روحانی مداخلت تھی؟یا واقعی وقت کے دروازے کسی طرح اس چھوٹے سے گاؤں میں کھل گئے تھے؟ ایک رات تو کین نے دیکھا کہ کمپیوٹر کی سکرین پر روشنی خود بخود چمکنے لگی، اور چند الفاظ ظاہر ہوئے ’’میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں۔ خوفزدہ نہ ہو‘‘۔ ڈیبی اکثر ڈر جاتا، مگر کین کے اندر اب تجسس بڑھ گیا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ وقت کے اس کھیل میں وہ کہاں کھڑا ہے۔  The Vertical Plane — کہانی جو دنیا تک پہنچی آخرکار 1989 میں، کین ویبسٹر نے اپنی پوری داستان ایک کتاب کی صورت میں شائع کی ’’The Vertical Plane‘‘۔اس میں اس نے تمام پیغامات، ان کے ترجمے، اور تحقیق شامل کی۔ یہ کتاب آتے ہی تہلکہ مچا گئی۔لوگوں نے کہا کہ شاید یہ‘‘وقت کے سفر کا پہلا ثبوت’’ہے۔ کچھ نے کہایہ کسی روحانی مظہرکا نتیجہ ہے۔ اور کچھ نے کہا،’’یہ ایک نفسیاتی وہم ہے، شاید کسی تنہائی کا نتیجہ‘‘۔اور اسے انسانی ذہن کی اختراعی کہانی قرار دیا۔ لیکن ایک بات سب مان گئے ڈوڈلسٹن کا یہ کیس محض مذاق نہیں لگتا تھا۔پیغامات کی لسانی ساخت، ان کی گہرائی، اور تاریخی تفصیلات نے سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور ماہرین کو بھی چکرا دیا۔ ماہرین کی رائے ، فریب یا حقیقت؟  تحقیق، شک، اور سوالات بعد میں Society for Psychical Research (SPR) کے محققین نے بھی اس کیس پر کام کیا۔انہوں نے کمپیوٹر، سافٹ ویئر، یہاں تک کہ گھر کی دیواروں تک کا معائنہ کیا۔کوئی واضح جواب نہ ملا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سائنس دانوں اور ماہرین نے اس معاملے پر مختلف نظریے پیش کیے۔ کچھ نے کہا کہ شاید کسی نے کمپیوٹر کی میموری میں خفیہ کوڈ ڈالے ہوں اور کسی برقی اثر نے یہ پیغامات پیدا کیے ہوں۔کچھ نے اسے’’پولیٹرگائسٹ ایکٹیویٹی‘‘کہا یعنی روحانی مظاہرسے جوڑا۔اور چند نے کہا کہ شاید یہ سب کین کے اپنے لاشعور کی تخلیق تھی،جس نے تنہائی یا ذہنی دباؤ کے دوران یہ پیغامات پیدا کیے۔مگر ان تمام نظریات کے باوجود،ابھی تک کوئی یہ نہیں بتا سکا کہ یہ پیغامات حقیقتاً کہاں سے آئے۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کین کے دوستوں، حتیٰ کہ اس کی شاگردہ ڈیبی نے بھی یہ پیغامات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ تو کیا سب کو وہم ہوا تھا؟ یا واقعی کوئی طاقت وہاں کام کر رہی تھی؟  وقت کا دروازہ — کھلا یا وہم؟ ٹومی (Lucas) نے اپنے آخری پیغامات میں لکھا کہ’’تمہاری دنیا اور میری دنیا ایک ہی زمین پر قائم ہیں،مگر وقت ہمیں جدا رکھتا ہے‘‘۔ ایک بار اُس نے کہا:’’میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں، مگر چھو نہیں سکتا۔تمہاری آگ ٹھنڈی ہے، مگر روشنی دیتی ہے۔تمہارے ہاتھوں میں جادو ہے، مگر تم اسے علم کہتے ہو‘‘۔ ایسے جملے پڑھ کر کوئی بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے ۔کیا واقعی زمانہ صرف آگے بڑھتا ہے؟ یا کہیں ماضی، حال اور مستقبل ایک ہی لمحے میں بہہ رہے ہیں،بس ہماری آنکھیں اسے دیکھ نہیں پاتیں؟  ایک ان مٹ معمّا۔ ایک ایسا راز جو آج بھی زندہ ہے ۔آج چالیس سال گزر چکے ہیں، کین ویبسٹر اب ایک عام اور خاموش زندگی گزار رہا ہے، مگر اُس کی کہانی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔انٹرنیٹ پر سینکڑوں ویڈیوز، فورمز اور پوڈکاسٹس اس پر بحث کرتے ہیں کہ کیا واقعی ڈوڈلسٹن کا کمپیوٹر وقت کے پار رابطے کا ذریعہ بنا؟’’ڈوڈلسٹن میسجز‘‘آج بھی دنیا بھر کے محققین کے لیے ایک معمّا ہے۔سوشل میڈیا پر اس کے سینکڑوں تجزیے، یوٹیوب ڈاکیومنٹریزاور بحثیں چلتی رہتی ہیں ۔کچھ لوگ اسے‘‘ٹائم ٹریول کا ثبوت’’کہتے ہیں، کچھ‘‘روحانی تجربہ’’،اور کچھ‘‘ڈیجیٹل وہم’’ اور کچھ اسے انسانی ذہن کی حیرت انگیز طاقت قرار دیتے ہیں۔لیکن جو بھی ہو یہ کہانی اب ایک افسانہ نہیں، بلکہ جدید تاریخ کا وہ ان حل شدہ معمّا ہے۔جو وقت، سائنس اور عقیدے — تینوں کے درمیان ایک پراسرار لکیر کھینچتا ہے۔ مگر سچ شاید وہی ہے جو کین نے اپنی کتاب کے آخر میں لکھا:’’میں نہیں جانتا کہ یہ سب کیا تھا۔مگر اگر وقت ایک دریا ہے،تو شاید اُس رات ڈوڈلسٹن کے اس چھوٹے سے گھر میں میں نے اُس دریا کی ایک لہر کو چھو لیا تھا‘‘۔  آخر میں ایک سوال جب آپ یہ سب پڑھتے ہیں، تو دل کے کسی کونے میں ایک خیال ضرور ابھرتا ہے کیا واقعی وقت صرف آگے بڑھتا ہے؟ یا کہیں نہ کہیں ماضی، حال اور مستقبل ایک ساتھ موجود ہیں؟کیا واقعی وقت کی کوئی حد ہے؟یا ہم سب ایک ہی لمحے کے مختلف گوشوں میں جی رہے ہیں ۔جہاں ماضی کے الفاظ مستقبل کے کمپیوٹر میں اُبھرتے ہیں،اور مستقبل کے لوگ ہمیں مشاہدہ کر رہے ہیں؟شاید ڈوڈلسٹن کا وہ پرانا کاٹیج وقت کے بہاؤ میں ایک ایسا نقطہ بن گیا تھاجہاں صدیاں مل گئیں،اور وقت نے لمحہ بھر کے لیے اپنی خاموش سرحدیں مٹا دیں اور خود اپنا دروازہ ذرا سا کھول دیا تھا، اور ہم نے ایک لمحے کے لیے اُس کے پار جھانک لیا تھا۔ یہی تو کہانیوں کی خوبصورتی ہے۔ وہ ہمیں یقین اور شک، خواب اور حقیقت کے بیچ لے جاتی ہیں۔ کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ دنیا صرف وہ نہیں جو ہم دیکھتے ہیں،بلکہ وہ بھی ہے جو وقت، روشنی اور تجسس کے بیچ کہیں چھپی ہوئی ہے۔جہاں عقل خاموش ہو جاتی ہے، اور صرف تجسس بولتا ہے۔n

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل