Wednesday, October 15, 2025
 

گندم ،آٹا، سبزی مافیا…مریم نواز سرنڈر نہیں کریں گی

 



بانی پی ٹی آئی جن دنوں وزیر اعظم پاکستان تھے، تب انھوں نے حافظ آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں آلوٹماٹر کی قیمتیں دیکھنے کے لیے سیاست میںنہیں آیا۔‘‘ اس بیان پر ان کے سیاسی مخالفین اور عوامی حلقوں نے سخت تنقید کی تھی مگر ’’بانی‘‘ نے ’’سچ‘‘ کہا تھا کیونکہ انھیں ماضی کی اسٹیبلشمنٹ جن مقاصد کے لیے ’’لائی‘‘ تھی، ان میں سبزیوں، آٹا اور چینی کی قیمت کم رکھنے کا ٹاسک شامل نہیں تھا ۔پنجاب کی موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ مسلسل یہ کہتی رہتی ہیں کہ میں عوام کے لیے سبزیاں، دالیں، آٹا، چینی سستی کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ بنی ہوں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب روزانہ کی بنیاد پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں بارے معلومات حاصل کرتی ہیں، ان دنوں ٹماٹر کی مقامی فصل آنے میں کچھ دن باقی ہیں جس وجہ سے اس کی قیمت بڑھ رہی ہے ۔گزشتہ روز بھی وزیر اعلیٰ نے سبزیوں کی قیمتوں بارے اجلاس کی صدارت کی ہے۔ چند ہفتے قبل پنجاب میں آٹا قیمت2400 روپے فی تھیلا سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی تھی جس پر وزیر اعلیٰ نے معاملات کی مکمل تطہیر اور سدھار کے لیے ڈاکٹر کرن خورشید کو سیکریٹری پرائس کنٹرول اور امجد حفیظ کو ڈی جی فوڈ تعینات کیا جس کے بعد معاملات میں بہتری آئی ہے۔ ان کے بعض فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، کچھ معاملات میں یہ ممکن ہے کہ مریم نواز صاحبہ سے دانستہ یا نادانستہ غلط فیصلہ ہو گیا ہو یا پھر بیوروکریسی نے انھیں مکمل آگاہ نہ کیا ہو لیکن اشیائے خورونوش کی حد تک ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا،اس معاملے میں وہ مضبوط ارادوں، پختہ یقین اور حقیقی عملدرآمد پر یقین رکھتی ہیں اور تمام غیر جانبدار حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ پنجاب کے عوام کو سستی سبزیاں، آٹا، چینی دینے کے لیے ’’زیرو ٹالیرنس‘‘ پالیسی کے تحت کام ہو رہا ہے،یہ ایک روزانہ کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ ہے جس میں مصنوعی مہنگائی اور قلت پیدا کرنے والے مافیاز وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم سے ٹکرا نے کے لیے آئے روز نیا ’’حملہ‘‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے مختلف حلقوں کی کوشش کے باوجود گندم کی سرکاری خریداری دوبارہ سے شروع کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا ہے کیونکہ تمام دستاویزی اور مالیاتی شواہد کی بنیاد پر مریم نواز صاحبہ یہ پختہ یقین رکھتی ہیں کہ ماضی (بشمول ن لیگ ادوار حکومت)پنجاب میں سرکاری گندم کی خریدو فروخت، رمضان پیکیج، سستی روٹی کے لیے دی جانے والی کھربوں روپے کی سبسڈی سے مستحق عوام سے کئی گنا زیادہ فلورملز، سرکاری محکموں ، کمرشل بینکوںکو فائدہ ہوا ہے۔ پنجاب کی سبسڈی والا آٹا اسمگل کر کے کروڑوں روپے روزانہ کمائے جاتے تھے ۔فعال فلورملز حکومت کی مقررہ شرح کے بجائے اپنے مفاد کے مطابق سرکاری گندم سے آٹا ،میدہ فائن چوکر تیار کرتی تھیں جب کہ غیر فعال فلورملز اپنے حصے کی سرکاری گندم فعال فلورملز کو فروخت کر کے دیہاڑی لگاتی تھیں۔رمضان پیکیج کے نام پر کئی سالوں تک میگا کرپشن کا بازار گرم رہا، عوام تو سرکاری سستا آٹا لینے کے لیے طویل قطاروں میں دھکے کھاتے اور جانیں گنواتے رہے لیکن فلورملز، آٹا ڈیلرز کی چاندی رہی،آج بھی نیب میں رمضان پیکیج آٹا کرپشن کیس التواء کا شکار ہے ، حیرت ہے کہ انتہائی باخبر اور متحرک وزیر اعلیٰ مریم نواز، ماضی کے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کیوں نہیں کر رہی ہیں ،آیا ان کے علم میں نہیں یا کوئی’’مصلحت‘‘ انھیں مجبور کر چکی ہے۔ سرکاری گندم کی قیمت اور اوپن مارکیٹ گندم کی قیمت میں ہوشربا فرق نے فلورملز کے مابین یہ دوڑ شروع کروادی تھی کہ کیسے نئی فلورمل لگا کر یا پرانی کی رولر باڈیاں بڑھا کر زیادہ مقدار میں سرکاری گندم کوٹہ حاصل کیا جائے ۔فائیو اسٹار ہوٹل میں ہزاروں روپے مالیت کا کھانا کھانے والا اور گلی محلے کے تندوری ہوٹل میں کھانا کھانے والا دونوں ہی سبسڈائزڈ آٹے سے بنی روٹی کھاتے تھے جو سرکاری وسائل کا بے دریغ ضیاع قرار دیا جاتا تھا۔ سرکاری گندم کوٹہ کے تاریک دور میں ہی یہ مناظر دیکھنے میں آتے تھے کہ دوکانوں سے آٹا غائب ہوتا تھا، ٹرک کھڑے کر کے سرکاری آٹا فروخت کروایا جاتا جہاں طویل قطاریں ہوتیں، خریدار کو ایک تھیلا خریدنے کے لیے بھی شناختی کارڈ کوائف نوٹ کروانے پڑتے تھے جب کہ کچھ ملیں تو اتنی’’استاد‘‘ تھیں کہ دن کو ٹرکنگ پوائنٹس یا دوکانوں پر آٹا بھیج کر شام کولوڈر رکشوں کے ذریعے واپس منگوا لیتی تھیں جب کہ اسی دور کی سچی کہانیاں ہیں کہ دس تھیلے بجھوا کر محکمہ خوراک کے کاغذوں میں 50 تھیلے لکھے جاتے تھے۔ آج ہمارے بہت سے کسان بھائی سرکاری گندم خریداری بند ہونے پر اعتراض کرتے ہیں مگر ان سے چند سوالات ضرور ہوچھنا چاہیے کہ جب سرکاری گندم خریداری ہوتی تھی تب کسانوں کا شکوہ ہوتا تھا کہ محکمہ خوراک ہم سے باردانہ دینے کے عوض بھی ’’اسپیڈ منی‘‘ لیتا ہے اور گندم خریدتے وقت بھی اضافی وزن لیا جاتا ہے ، کیا یہ سچ نہیں کہ 70فیصد گندم فروخت کرنے والے ’’آڑھتی‘‘ ہوتے تھے جو پہلے ہی کسان سے سستے داموں گندم کا سودا کرچکے ہوتے تھے ۔کیا کبھی کسی کسان کو اپنی گندم کی وہ قیمت فروخت ملی جو حکومت نے مقرر کی تھی، سارا منافع تو بیوپاری لے جاتا تھا، پھر آج کسان اعتراض کر رہا ہے یا پس پردہ اسی بیوپاری کی پرانی خواہشات زور مار رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے گندم کی آیندہ فصل کے لیے علامتی قیمت خرید3500 روپے فی من مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے، اس کے کم ہونے پر تو بات ہو سکتی ہے مگر حکومت اگر کسانوں کو براہ راست فائدہ دینے کے لیے ’’ای ڈبلیو آر‘‘ سمیت دیگر پروجیکٹس لانا چاہ رہی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔فلورمل مالک ، ٹریڈر یا بیوپاری کے بجائے کسان اپنی ہولڈنگ پاور کو کیوں نہیں بڑھاتا تاکہ خود براہ راست زیادہ سے زیادہ منافع کما سکے۔ گزشتہ ایک ماہ سے فلورملنگ انڈسٹری کا ایک گروپ محکمہ خوراک کو مسلسل قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پنجاب حکومت ’’پاسکو‘‘ سے گندم لے کر اسے فلورملز کو فراہم کرے، کبھی یہ گروپ تین ہزار والی گندم کی ’’مساوی‘‘ فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے اور کبھی یہ لوگ آٹا کی بین الصوبائی ترسیل کے لیے ضلعی کوٹہ مقرر کرنے کے لیے حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تادم تحریر حکومت نے ان کے یہ تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے ہیں کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ لوگ انھیں ’’ٹریپ‘‘ کر کے دوبارہ سے سبسڈی والے سرکاری گندم کوٹہ کے تعفن زدہ اندھے کنویں میں دھکیلنا چاہتے ہیں جو حکومت کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔ بین الصوبائی گندم آٹا ترسیل پر کسی قسم کی پابندی کے ہم بھی مخالف ہیں کیونکہ آئین پاکستان آزادانہ تجارت کی ضمانت دیتا ہے مگر ان دنوں حالات ایسے ہیں کہ دیگر صوبوں میں گندم آٹا کی قیمت بہت زیادہ ہے اور پنجاب میں آٹا سستا ہے، اس لیے اگر کسی چیک اینڈ بیلنس کے بغیر ترسیل ہونے دی گئی تو پنجاب بحران کا شکار ہوجائے گا، اسی لیے آیندہ 24 گھنٹوں میں محکمہ خوراک پرمٹ اجراء کا آغاز کرنے والا ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران ڈی جی فوڈ پنجاب امجد حفیظ نے محکمہ خوراک کی نقل کر کے بنائے گئے دو جعلی ویب پورٹل پکڑے ہیں جہاں سے بوگس پرمٹ جاری ہوتے تھے، مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، گرفتاریاں متوقع ہیں ۔ ان مبینہ جعلسازوںمیں سے کچھ کا فلورملنگ انڈسٹری کے چند بڑے ناموں سے گہرا تعلق ہے لیکن یہی امتحان کا وقت ہے کہ جن رہنماوں سے تعلق ہے وہ ملک وقوم کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہیں یا صرف اپنی ملز کے جائز ناجائز مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔جو بڑے لیڈر ہوتے ہیں وہ اپنی ذات سے اوپر ہو کر سوچتے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ پنجاب کے عوام کو سستا آٹافراہم یقینی بنانے کے لیے وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ گندم آٹا سبزی مافیا کے سامنے ’’سرنڈر‘‘ نہیں کریں گی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل