Tuesday, October 14, 2025
 

ڈیڑھ سو رنگ وسیب کے

 



سیاحت اور آثارِقدیمہ کے تحفظ کو فروغ دینے کے کئی طریقے ہیں جن میں سیاحتی دوروں کے ساتھ ساتھ سیمینار، کانفرنسز ، تصویری نمائشوں اور سیاحتی و ثقافتی میلوں کا انعقاد شامل ہیں۔   تصویری نمائش کا یہ فائدہ ہے کہ بہت سے لوگ جو مجبوریوں کی وجہ سے کہیں دور گھومنے نہیں جاسکتے وہ تصاویر سے اپنا شوق کسی حد تک پورا کرسکتے ہیں، نیز ان میں تحقیق کرنے والوں کے لیے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ چھپی ہوئی جگہیں سامنے آتی ہیں اور ذوق جمال کو تسکین ملتی ہے۔ اور انہی پہلوؤں پر لاہور میوزیم نے خاص توجہ دی ہے۔ لاہور کا میوزیم برٹش انڈیا کا بہت پرانا تاریخی، ثقافتی و تہذیبی مرکز ہے، جس کے وسیع و عریض ہالز میں مختلف تاریخی اہمیت کی حامل اشیاء و فن پارے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ عجائب گھر کی موجودہ انتظامیہ کا اس میوزیم میں مختلف قسم کی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ہے جیسے آگاہی و معلوماتی سیمینارز کا انعقاد، مختلف گیلریز میں اضافہ، اور تصویری نمائشیں یہاں آنے والوں کے لیے بہت مفید تقریبات ہیں۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے لاہور میوزیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عاصم رضوان نے پنجاب کے پس ماندہ ڈویژنز کے تاریخی مقامات کو اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے وسیب کے معروف فوٹوگرافر پروفیسر شعیب رضا اور لاہور کے مایہ ناز فوٹو گرافر محمد رضوان خان سے رابطہ کیا اور اس نمائش کی تیاری شروع کردی۔ اس نمائش کا مقصد یہ تھا کہ پنجاب کے جنوبی اضلاع جنہیں وسیب کہا جاتا ہے، کے تاریخی مقامات کو سامنے لایا جائے جنہیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اپنے ورثے سے محبت صحت مند معاشرہ کی نشانی ہوتا ہے سو تاریخی ورثہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور لوگوں میں شعور کو بڑھانے کے لیے وسیب کے تین ڈویژنز کے مسلم اور غیرمسلم تاریخی مقامات کا انتخاب کیا گیا۔ اس ضمن میں پورے پنجاب کے مایہ ناز فوٹوگرافرز کو تلاش کیا گیا جن کے شان دار فن پارے اپنی مثال آپ تھے۔  لاہور میوزیم کی جانب سے پاکستان کے تاریخی مقامات کی تصویری نمائشوں کے سلسلے کی پہلی نمائش کا افتتاح، 27 ستمبر 2025 کو عالمی یوم سیاحت کے موقع پر پاکستان میں سری لنکا کے ہائی کمشنر ریئر ایڈمرل سینی ورانتھے کے ہاتھوں ہوا، جب کہ سیکرٹری ٹورازم، آرکیالوجی اینڈ میوزیم ڈاکٹر احسان بھٹہ مہمانِ اعزاز تھے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ لاہور میوزیم کی ڈائریکٹر محترمہ نبیلہ عرفان اور محکمہ آثارِقدیمہ کے ڈائریکٹر جناب اقبال خان منج بھی موجود تھے۔ اس نمائش میں جن فوٹوگرافرز کا کام پیش کیا گیا ان میں وسیب سمیت گوجرانوالہ اور لاہور کے ماہراحباب بھی شامل تھے۔  پروفیسر شعیب رضا (ڈیرہ غازی خان)، ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری (خان پور کٹورہ)، ڈاکٹر سید مزمل حسین (ملتان)، عمران احسان مغل (گوجرانوالہ)، شجاعت علی (لاہور)، محمد شعیب (لاہور)، تنویر ملک (گوجرانوالہ)، طارق حمید سلیمانی (جہانیاں)، ندیم خاور (لاہور)، محمد ایان، نجم صاحب، امجد امداد راشدی، احمد لودھی اور ڈاکٹر مہرین حسن وہ فوٹوگرافرز ہیں جن کا بہترین کام اس نمائش میں پیش کیا گیا۔ ڈائریکٹر لاہور میوزیم نبیلہ عرفان کے مطابق پنجاب کے تاریخی مقامات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، کئی مقامات محفوظ کر لیے گئے ہیں جب کہ کچھ پر بحالی کا کام جاری ہے۔ اسی طرح وسیب کی یہ تاریخی جگہیں بھی بہت منفرد اور دل چسپ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نمائش کا مقصد عوام میں اپنے ورثے اور تاریخی مقامات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور انہیں محفوظ بنانے کی ترغیب دینا ہے۔ نمائش کے انعقاد میں ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور میوزیم محمد عاصم رضوان اور ریسٹوریشن اینڈ ایگزیبیشن آفیسر عرشیہ سہیل نے کلیدی کردار ادا کیا، جنہوں نے دن رات محنت کرکے اِن تاریخی مقامات کی تصاویر اکٹھی کیں اور انہیں فریم کروا کے ایک خوب صورت نمائش کمیں پیش کیا۔ اس کاوش میں پروفیسر شعیب رضا اور محمد رضوان خان نے بھی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس نمائش میں وسیب کے ڈیڑھ سو سے بھی زائد مقامات کی تصاویر پیش کی گئی ہیں جن میں رحیم یار خان، بہاول پور، بہاولنگر، ملتان، لودھراں، وہاڑی، خانیوال، ڈیرہ غازی خان، لیہ، بھکر، راجن پور، مظفرگڑھ اور جھنگ کے اضلاع میں موجود صوفیاء کے مقبرے، قدیم مندر، دل کش مساجد، کلاسیک چرچ، پرانی حویلیاں، مزارات، نوابوں کے محلات، انگریز دور کی قدیم عمارتیں، ریلوے اسٹیشن، تاریخی حویلیاں، سرائے، بلند و بالا قلعے اور عجائب گھر شامل ہیں۔  میرے نزدیک اس تصویری نمائش کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ بہاولپور اور ملتان کے مشہور مقامات کے ساتھ سیت پور، تونسہ، منچن آباد، تلمبہ اور کبیروالا جیسے دوردراز اور کم مشہور علاقوں کے تاریخی ورثے کو بھی برابر اہمیت دیتے ہوئے عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے، یوں دیکھنے والے وسیب کے کئی نئے نئے اور دلچسپ مقامات سے آشنا ہوئے۔ این سی اے کے ایک طالب علم نے مجھے بتایا کہ ’’میں یہ نمائش دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سرزمینِ نیل اتنی خوب صورت ہے مجھے معلوم نہ تھا۔ بہاولپور کے نوابوں کے شاہی مقبرے اور شورکوٹ کا ورثہ دیکھ کے میں حیران ہوں۔ فوٹوگرافی بھی بہت شان دار ہے جس میں ایک عمارت کے کئی زاویے دیکھنے کو ملے ہیں۔ میں یہاں سے اپنے تھیسز کے لیے بہت سے آئیڈیاز لے کر جا رہا ہوں۔‘‘ مصنفہ اور ڈرامانگار رفیعہ کاشف کے مطابق ’’لاہور میوزیم میں جاری وسیب کی تصاویر کی یہ نمائش اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ تصاویر مجھے ماضی میں کہیں دور لے گئیں۔ یہ سفید محل، یہ قلعہ دراوڑ، یہ نور محل کی تصاویر صرف تصاویر نہیں ہیں یادوں کی ایک پٹاری ہیں جو کھل گئی تو یکے بعد دیگرے بہت سے چہرے آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے بہت سی آوازیں سماعت میں گونجنے لگیں۔ وہ دیراوڑ کے مضافات میں پیلو کے قدیم درخت کے نیچے بیٹھ کر پیلو پکیاں گانا، وہ سفید محل کے صحن میں لگے گلاب کے پودوں کی مہک، وہ خواجہ صاحب کے دربار پر انہیں کافیوں کا نذرانہ پیش کرنا۔۔۔ سب کچھ جیسے ایک فلم کی طرح آنکھوں کے آگے سے گزرنے لگا۔ لاہور میوزیم کا شکریہ کہ اس نمائش کے ذریعے ان لمحات کو ایک بار پھر جینے کے قابل کردیا۔‘‘ یہ نمائش دس اکتوبر تک لاہور میوزیم میں صبح نو سے شام پانچ بجے تک جاری ہے جس میں آپ اپنے بچوں سمیت شریک ہو سکتے ہیں۔ اس نمائش کی کام یابی کے بعد عجائب گھر لاہور دیگر خطوں پر بھی تصویری نمائش منعقد کروانے کا ارادہ رکھتا ہے جو ایک بہترین بات ہے۔ اس طرح کی ثقافتی تقریبات ہمارے معاشرے کے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہیں جن سے نہ صرف مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ ملتا ہے بلکہ آرٹ اور کرافٹ کی اہمیت سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل