Loading
غزہ سے تعلق رکھنے والے فوٹو جرنلسٹ شادی ابو سیدو نے 20 ماہ طویل اسرائیلی قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد اپنے بچوں کو زندہ دیکھ کر سکتے میں آگئے۔ عرب خبر رساں ادارے کے مطابق شادی ابو سیدو کے سکتے میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ انھیں اسرائیلی جیل میں انھیں ایک نہایت بری خبر سنائی گئی تھی۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ آپ کے اہل خانہ بچوں سمیت اسرائیل کے حملے میں جاں بحق ہوچکے ہیں اور غزہ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔ یہ بات تواتر کے ساتھ انھیں اس انداز میں بتائی گئی کہ انھیں بھی سو فیصد یقین ہوگیا تھا کہ اہل خانہ اب جنت مکیں ہوچکے ہیں۔ View this post on Instagram A post shared by The Headlines (@headlines.ban) تاہم جب غزہ امن منصوبے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے نتیجے میں شادی ابو سیدو کو رہائی ملی۔ جب وہ رہا ہونے کے بعد اپنے گھر پہنچے اور بچوں کو زندہ دیکھا تو ایک لمحے کے لیے گہری خاموشی میں ڈوب گئے۔ شادی ابو سیدو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور بچوں سے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ انھوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ میں دو سال بھوکا رہا۔ بھوک کی حالت میں ہی جیل گیا اور بھوکا ہی باہر آیا۔ وہ (اسرائیلی فوجی) کہتے تھے کہ ہم نے تمہارے بچے مار دیے، غزہ ختم ہو گیا۔ شادی ابو سیدو نے مزید کہا کہ جب میں رہائی کے بعد غزہ میں داخل ہوا تو لگا جیسے یہ قیامت کا منظر ہو۔ یہ وہ غزہ نہیں رہا جسے میں جانتا تھا، جسے میں چھوڑ کر جیل گیا تھا۔ شادی ابو سیدو نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُن ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے آواز اٹھائیں جو اب بھی زندہ قبروں میں سسک رہے ہیں۔ یاد رہے کہ شادی ابو سیدو کو مارچ 2024 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اسرائیلی افواج نے الشفا اسپتال پر حملہ کیا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل