Tuesday, October 14, 2025
 

بابائے طب بو علی سینا

 



بخارا، ازبکستان (ترکستان) کا مشہور تاریخی شہر ہے۔ اس کے ایک نواحی قصبے افشنہ میں صفر 370ھ/ اگست 980ء میں عبداللہ ابن سینا کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام حسین رکھا گیا۔ یہی حسین بن عبد اللہ بڑا ہو کر اپنے دادا سینا کی نسبت سے بو علی سینا یا ابن سینا کے نام سے مشہور ہوا اور یورپ میں ابن سینا کو Avicenna (ایوی سینا) کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں اس کی مشہور کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ نے یورپی زبانوں کو قانون یا کَینن(Canon) کی مستقل اصطلاح عطا کی جس کے معنی ضابطہ، اصول یا کسی مصنف کی کتب کا مجموعہ ہیں۔ شیخ الرئیس بوعلی سینا کا باپ عبداللہ بلخ (افغانستان ) کا رہنے والا تھا۔ وہ بخاراجا کر سامانی امیر نوح بن منصور کے دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوا، چنانچہ چھ برس کی عمر میں بو علی سینا اپنے والد کے ہمراہ بخارا پہنچا تھا جہاں اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ پہلے اس نے قرآن مجید حفظ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور کے مسلمان سائنسدان بھی اپنے بچپن میں اپنی تعلیم کا آغاز قرآن پاک کے حفظ وتعلیم سے کرتے تھے۔ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ابن سینا نے مختلف اساتذہ سے حساب ، فقہ اور علم کلام کی تعلیم پائی۔ فلسفہ، ہندسہ (جیومیٹری) اور ہیئت (علم فلکیات یاAstronomy)کے علوم خصوصاً افلاطون کی المجسطی (Almagest) کے اسباق اس نے ابو عبداللہ ناتلی سے حاصل کیے جو اتفاق سے بخارا آیا تھا اور اس کے باپ کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا لیکن جلد ہی شاگرد اپنی ذہانت کی بنا پر استاد سے آگے بڑھ گیا۔ طب (میڈیسن) میں اس نے خوب مہارت پیدا کرلی، بلکہ علاج معالجے اور تجربوں اور مشاہدوں سے وہ اس فن کی تکمیل کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ علمِ طب کوحکیم بقراط یونانی نے پیدا کیا ، جب یہ علم مر چکا تھا تو جالینوس یونانی نے اسے زندگی بخشی ، جب یہ بکھرا ہوا تھا تو مسلمان طبیب ابو بکر محمد بن زکریا رازی نے اسے سمیٹا اور جب یہ علم ناقص تھا تو ابن سینا نے اسے مکمل کیا۔ حسین ابن سینا، جسے اللہ تعالیٰ نے کوہ سینا کی سی علمی بلندی عطا کی، اٹھارہ سال کی عمر تک دن رات پڑھنے لکھنے میں مشغول رہا۔ اس پر نیند کا غلبہ ہوتا تو وہ کوئی چیز پی لیتا تا کہ مطالعے میں فرق نہ آئے۔ سونے میں بھی اس کا ذہن مسائل میں الجھا رہتا۔ اسے یونانی حکیم ارسطو کا فلسفہ بار بار کے مطالعے کے باوجود سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ خود لکھتا ہے کہ میں چالیس دن اس کے مطالعے میں غرق رہا مگر میں سمجھ نہ پایا۔ آخر کسی کے مشورے سے اس نے ابو نصر فارابی کی کتاب ’’الابانہ‘‘ نیلام میں خریدی جس سے کتاب کا موضوع پوری طرح اس کی سمجھ میں آگیا۔ ابن سینا کو اس پر اتنی خوشی ہوئی کہ وہ سجدے میں گر گیا اور اللہ کا شکر بجا لایا۔ یہ تھی وہ علمی لگن جس کی بنا پر ابن سینا بڑا ہو کر شہرت کے آسمان پر سورج کی طرح چمکا۔ اس دوران میں ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا تھا۔ بخارا کا سامانی حکمران نوح بن منصور بیمار ہوا تو ابن سینا نے کامیابی سے اس کا علاج کا اور اس کے صلے میں اسے شاہی کتب خانے کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ یوں اسے وسیع مطالعے کا موقع میسر آیا لیکن اس کے اطمینان اور فارغ البالی کا یہ زمانہ دیکھتے دیکھتے ختم ہو گیا۔ وہ بیس برس کا تھا جب اس کے باپ نے اچانک وفات پائی اور اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد نوح بن منصور کا بھی انتقال ہو گیا۔ بخارا میں سامانی دربار کے حالات غزنوی یلغار سے خراب ہوئے تو نوجوان ابن سینا نے خوارزم کا رخ کیا جہاں امر علی بن مموان کے دربار مں اسے ابوریحان البیرونی، ابونصر عراقی اور ابو سعد ابوالخرل جیسے اہلِ علم سے ملنے کا موقع ملا۔ لیکن خوارزم کی علمی رفاقت بھی اس کے لیے مختصر ثابت ہو ئی۔ اس زمانے میں وسط ایشا کا سب سے بڑا حکمران سلطان محمود غزنوی تھا جس کی سلطنت کی حدود دریائے سندھ سے لے کر دریائے جحوون(آمودریا) تک اور بدخشاں سے نشانپور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس نے علی بن ممومن کو لکھا کہ آپ کے ہاں جو اہل علم موجود ہں ، انھیں غزنہ (افغانستان) بھیج دیا جائے۔ البیرونی اور ابوسہل تو غزنہ روانہ ہو گئے مگر ابن سینا کو محمود غزنوی کے دربار مںس جانا گوارا نہ تھا، چنانچہ اس نے ایران کا رخ کا اور پھر وہ محمود غزنوی کے خوف سے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتا رہا۔ اس دوران مں وہ طوس، جرجان ، رے، ہمدان اور اصفہان مں مقیم رہا۔ چونکہ وہ ایک اچھا طبیب تھا، اس لے ہر جگہ اسے خوش آمدید کہا جاتا رہا۔ لیکن اصفہان کے سوا وہ کہیں زیادہ عرصہ نہ ٹھہرا۔ وہ اصفہان کے والی علاء الدولہ بویہی کے پاس پندرہ برس مقیم رہا۔ جب سلطان محمود غزنوی نے حملہ کا تو ابن سینا ہمدان چلا گیا۔ اس دوران کبھی اس نے وزیر اور مشیر اور کبھی شاہی طبیب کے فرائض انجام دیے اور کبھی اسے سیاسی مجرم قرار دیا جاتا رہا۔ امیر علاء الدولہ ہمیشہ اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا، چنانچہ جب اسے ابن فارس سے مقابلہ پیش آیا، تب بھی ابن سینا علاء الدولہ کے ہمراہ تھا۔ اس دوران ابن سینا بیمار پڑ گیا۔ جوں جوں علاء الدولہ کی اس جنگی مہم نے طول کھنچا، ابن سینا کی بیما ری میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کی بے سکون زندگی نے مدت سے اس کی صحت خراب کر رکھی تھی۔ وہ جب اصفان لوٹا تو جسمانی طور پر بہت کمزور ہو چکا تھا۔ کچھ دنوں بعد جب وہ پھر علاء الدولہ کے ساتھ ہمدان روانہ ہوا تو قولنج کی پرانی بیماری نے بڑی شدت سے اس پر حملہ کیا حتی کہ 4 رمضان 428ھ/ 21 جون 1037ء کو اس عظیم سائنسدان کا ہمدان (ایران) میں انتقال ہو گیا اور وہ ہمدان ہی میں دفن ہوا۔ اس وقت ابن سینا کی عمر 58 برس تھی۔ تاریخ اسے ’’شیخ الرئیس‘‘یعنی علم و حکمت کے تاجدار کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ حیرت ہے کہ اگرچہ اس کی زندگی کے آخری 38 سال پریشانیوں میں گزرے ، اس کے باوجود اس نے اتنی زیادہ اور گرانقدر علمی تصانیف دنیا کو دے ڈالیں۔ بو علی سینا کی تصانیفات دو سو سے زیادہ ہیں مگر اس کی کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ نے بہت شہرت پائی۔ یورپ میںیہ کتاب Canon Medicina(قانونِ طب)کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کی پہلی طباعت چار جلدوں میں روم (اٹلی) مں ہوئی۔ یورپ مں اس کے تیس سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے۔ یہ کتاب سترہویں صدی تک یورپ کی یونی ورسٹیوں مونٹ پیلیئر(فرانس) اور لووین(بلجیم)کے نصاب میں شامل رہی۔ یہ طب کا ایک ضخیم انسائیکلو پیڈیا ہے۔ ابن سینا نے کئی نئی بیما ریاں دریافت کیں اور پہلے سے معلوم بیماریوں کے اسباب کی نشاندہی کی۔ اس نے درد کی پندرہ قسموں میں فرق واضح کا اور گردن توڑ بخار کی صحیح تشخیص کی۔ دماغ کی رسولی اور معدے کے زخم (Ulcer) کا علاج کا علاج کیا اور السر کا سبب نفسا تی دباؤ اور پریشانی کو قرار دیا۔ اس نے یہ رائے ظاہر کی کہ سرطان (Cancer) کے پھوڑے کو عملِ جراحی سے دور کرنا ممکن ہے لیکن بیماری کے بڑھ جانے کے بعد یہ عمل مفیدِ نہیں ہوتا۔ جدید طب میں زخموں کی خرابی کا باعث جراثیم کو سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریے کا ابتدائی تصور ابن سینا کے ہاں ملتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بعض گندے برجونی اجسام (موجودہ اصطلاح جراثیم) زخم میں داخل ہو کر جب جسم کی رطوبت سے ملتے ہیں تو زخم میں عفونت (Infection) پید ا ہو جاتی ہے۔ یہی اجسام بعض امراض کو متعدی بنا دیتے ہیں۔ ابن سینا نے زخموں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے الکحل یا سپرٹ (میتھائل الکحل یا ایتھائل الکحل یعنی شراب) کو مفید بتایا۔ اس کے بقول مرض کے پھیلنے میں ہوا اور پانی کا بڑا دخل ہے۔ اسی سے بعد میں جراثیم کے تصور نے جنم لیا۔ ابن سینا نفسا تی علاج کا بھی ماہر تھا۔ اس نے دوا سازی کے طریقوں میں بھی نئے انداز اپنائے۔ اس کے آٹھ طبی رسالے نظم مں ہیں جن میں حفظانِ صحت کے اصول، مجرب طریقِ علاج، علم تشریح الابدان (اناٹومی) اور بیماریوں کے اثرات بیان ہوئے ہیں ۔ قدیم یونانیوں کا خیال تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں بدلا جا سکتا ہے۔ بعض مسلمان سائینس دان بھی اس ناممکن کام کو انجام دینے مںو اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔ ابن سینا نے رائے دی کہ دھاتیں وہ عناصر ہیں جنہیں اللہ نے ایک خاص ساخت میں پیدا کیا ہے ، انھیں کسی دوسری دھات میں بدلنا ممکن نہیں ہے اور دھات کا رنگ تبدیل کر دینے یا اس کا بھرت (Alloy) بنا دینے سے اس کی اصلیت نہیں بدلتی۔ بو علی سینا نے ریاضی اور ہئیت پر بھی کام کیا اور کئی رسالے تصنیف کیے۔ اس نے ریاضی کے جن مسائل کو لیا ان میں وہ پہلوں سے سبقت لے گیا۔ طبیعات(فزکس) مں ابن سینا نے حرکت کے تصور پر کام کیا اور بتایا کہ ایک متحرک جسم کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جو اس واسطے کی مزاحمت کو دور کرتی ہے جس میں وہ جسم حرکت کر رہا ہوتا ہے۔ اس قوت کو اس نے میل قصری کا نام دیا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ قوت خلا میں بھی جسم کو متحرک رکھتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس قوت کی مقدار اس قوت کے زیر اثر جسم کی رفتار اور اس کے وزن کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔ بو علی سینا کا یہ نظریہ اندلس کے مسلمان سائنسدان البطروجی کے واسطے سے یورپ کو ملا اور نیوٹن کے قوانین حرکت کی بیناد بنا۔ ابن سینا کی ایک اور مشہور تصیف ’’الشفاء ‘‘ ہے جو فلسفہ، منطق اور ماہ بعد الطبیعیات (میٹا فزکس) سے متعلق ہے۔ علامہ اقبال کی ’’ضرب کلیم‘‘ میں ایک نظم ’’ذکر و فکر‘‘ ہے جس میں بو علی سینا کا ذکر موجود ہے: یہ ہیں سب ایک ہی مالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے ’’علّمالاسماء ‘‘ مقامِ ذکر، کمالاتِ رومی و عطار مقامِ فکر، مقالاتِ بوعلی سینا مقامِ فکر ہے، پیمائشِ زمان و مکاں مقامِ ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ (رومی سے مراد مولانا جلال الدین رومی ہیں اور عطار کا پورا نام فرید الدین عطار ہے۔ ذکر: دینی علوم۔ فکر: طبعی علوم، سائنس وغیرہ)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل