Loading
’’ عصر حاضر میں مارکسزم کی معنویت، پاکستان اور تیسری دنیا کے نظریاتی مباحث ‘‘ رانا اعظم کی ایک شاندار تصنیف ہے۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ سیاسی جدوجہد میں صرف کیا ہے۔ وہ بائیں بازو کے ان کارکنوں میں شامل ہیں جنھوں نے سوشلسٹ لٹریچر باریک بینی سے پڑھا اور پھر مارکسزم کے عمومی نفاذ کو اپنی زندگی کا ایک بڑا مقصد بنالیا۔ ان کی یہ کتاب 12 حصوں اور 319 صفحات پر مشتمل ہے۔
اس کتاب میں نظریاتی مسائل، فلسفہ، عالمی کمیونسٹ تحریک سے لے کر بائیں بازوکی صورتحال، پارٹی بلڈنگ، ریاست کا کردار، وادئ سندھ کی تہذیب، تاریخی واقعات، نوید فکر اور بہت کچھ شامل ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر نظریاتی مباحث کی ایک کتاب ہوتی اور عملی معاملات پر ایک اور کتاب مرتب ہوتی تو مجھ جیسے ناقص العقل قاری کو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوجاتی، مگر اس پرآشوب دور میں کتاب شایع کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ بقول بنگالی زبان کے عظیم شاعر ٹیگور کے کہ ہر بچہ پیدا ہونے کے بعد یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خدا ابھی تک انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ اس طرح دانش سے بانجھ اس معاشرے میں ایسی کتاب شایع ہونے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اس معاشرے میں سوچنے والے کچھ موجود ہیں۔
صاحب کتاب کی زندگی کے بارے میں پڑھ کر نیشنل عوامی پارٹی اور 70ء کے ان کے آبائی علاقہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس کی یاد تازہ ہوگئی، نیپ نے سیکولر سیاست کو تقویت دی تھی، اگر بنگلہ دیش ہمارے ساتھ رہتا تو اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی انتہا پسندی اتنی طاقتور نہ ہوتی۔ بہرحال 2025 برصغیر ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا 100واں سال ہے۔ مصنف کا بائیں بازوکی سیاست سے وابستگی کا بھی پچاسواں سال ہے۔ انھوں نے ابتداء میں یہ بات لکھ دی ہے کہ کتاب ایک سیاسی کارکن کی پاکستان سمیت تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور طبقاتی ساخت کی روشنی میں بنیادی سماجی تبدیلی، محنت کشوں کے استدلال کے عمل کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس کوشش میں مکمل طور پرکامیاب ہوگئے ہیں۔ مصنف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہمیں اپنے درست افکار اور دنیا کی سچائیوں کو دہراتے رہنا چاہیے۔ ابلاغ عامہ کا یہی اصول ہے کہ اگر پیغام کو بار بار دہرایا جائے تو رائے عامہ تبدیل ہوجاتی ہے۔
مصنف نے پہلے باب میں ’ مارکسزم اپنی عنصریت کھوچکا ہے‘ کے موضوع پر خاصی بحث کی ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل میں لکھا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کو نظریہ کی شکست قرار دیتے ہوئے واحد سپر پاور کے کھڑے کیے گئے مینارِ نور سے یہ اعلان کیا گیا۔ دنیا اب پہلے سے زیادہ پر امن اور خوشحال ہوجائے گی مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مارکسزم اب بھی زیادہ Relevant ہے مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جدید دورکے تقاضوں کے مطابق اب نظریہ میں کوئی تبدیلیاں ہونی چاہئیں ناکہ مارکسزم کو کلاسیکل انداز میں ہی دیکھنا چاہیے۔ کتاب کے دوسرے باب میں مارکسزم کے بنیادی اصول جامع اور سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس طرح مارکسی کے تصور تاریخ میں مصنف نے شیکسپیئر اور مرزا غالب کا موازنہ کیا ہے۔
مارکسی نقطہ نظر سے دنیا کے دو بڑے شاعروں کے ادوارکا موازنہ ایک دلچسپ امر ہے۔ اس موازنہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مارکس نے بھی دنیا کے اس وقت کے ادب کا بغور مطالعہ کیا اور پھر اس دورکے حالات کے مارکسی نقطہ نظر سے تجزیے نے نوجوانوں کو ایک وسیع ذہن کے طور پر دنیا بھر کے ادب کے مطالعے کو تقویت دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ برطانیہ میں میگنا کارٹا معاہدہ اور آئینی بادشاہت کے قیام کے بارے میں معلومات اہم ہیں مگر میگنا کارٹا معاہدہ کی تاریخ شاید درست نہیں ہے۔ مصنف نے ’’ ارتقاء اور پڑاؤ‘‘ کے عنوان سے ایک اور اہم بات تحریرکی ہے، اس تحریر پر بہت زیادہ بحث و مباحثے کے دروازے کھلتے ہیں۔ سوویت یونین کے انقلاب کے بعد نئی راہیں ڈھونڈنا ایک قدرتی عمل ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ قدرتی اور طبقاتی سوال کی اس جدوجہد میں کی حیثیت ہے۔ اس کتاب کا ایک اہم باب فرینکفرٹ اسکول اور نیو مارکسزم سے متعلق ہے، جس میں اہم مباحث کے بارے میں فرینکفرٹ اسکول کے دانشوروں نے گزشتہ صدی میں مارکسزم اور فلسفہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ 1960 میں طلبہ میں سیاسی شعور جاگا۔ ان طلبہ کو فرینکفرٹ اسکول کے معروف فلسفیوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں سے کچھ فلسفیوں نے ماہر نفسیات فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریے کو تسلیم کیا۔ مارکسی دانشوروں نے فرائیڈ کے تحلیل نفسی کے نظریہ پر تنقید کی ہے، فرائیڈ کا بنیادی نظریہ جنس سے متعلق ہے۔
ظاہر ہے کس مارکسی دانشور سماج میں صرف جنس کے تضاد کو ہی بنیاد نہیں سمجھتے، اگرچہ فرینکفرٹ اسکول کے دانشور جا جین ہیبر مارس کے نظریہ قدر زائد پر تنقید کی ہے وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایسا معاشرہ جو بھرپور طریقہ سے ٹیکنالوجی پر ٹھہرا ہے وہاں قدر زائد محنت کش طبقے کی محنت سے وارد نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کا ورود یا استخراج اس معاشرے کی انتہائی میکانیکلی اور تکنیکی جدت طرازیوں کی مرہونِ منت ہے۔ فری مارکیٹ کی بنیاد ہی بنیادی طور پر قدر زائد پر ہے۔ مصنف نے ’’متبادل کی تلاش ‘‘ کے عنوان میں امریکی بورژوا دانشور ایمانوئیل والرٹین کا حوالہ دیا ہے۔ اس دانشورکا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ سوشلسٹ اکنامی لے گی۔ اگرچہ یہ دانشور 1980کی دہائی میں یہ کہہ چکا تھا کہ وہ نہیں جانتا کون سا ورلڈ سسٹم سرمایہ داری کا متبادل ہوگا مگر سوشلسٹ اکنامی کی اصطلاح کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ مصنف نے ’’ نظریاتی قحط اور فکری مغالطے‘‘ کے عنوان سے ایک باب میں انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی کا ذکر کیا ہے۔
انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی 1950 میں مقبول پارٹی تھی۔ اس کی قیادت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ پارٹی کا فوکس دیہی علاقہ سے تھا۔ پارٹی جبری مشقت کے خلاف تھی اور زمینوں پر قبضہ کی حوصلہ افزائی کرتی تھی مگر پھر امریکی سامراج کی نگرانی میں انڈونیشیا کی سہارتو حکومت نے پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کا قتل عام کیا۔ تقریباً 30 لاکھ کے قریب کارکن قتل کیے گئے مگر اس کے ساتھ اس وقت کے امریکا مخالف صدر ڈاکٹر سیکارنور اور ان کی جماعت کا ذکر ضروری ہے۔ انڈونیشیا کی فوج نے سیکارنو کا تختہ الٹا تھا، انڈونیشیا کی فوج ایک انقلابی فوج میں تبدیل نہ ہوئی، اگر کیوبا کی طرح اس فوج کو انقلابی فوج میں تبدیل کردیا جاتا تو پھر انڈونیشیا، سوشلسٹ انڈونیشیا ہوتا۔ میری رائے میں انڈونیشیا کا معاملہ پارٹی کی نوجوان قیادت سے زیادہ وہاںکے اس وقت کے حالات کے تجزیے سے حقیقی نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
(جاری ہے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل