Thursday, July 04, 2024
 

نگارِ سحر کی حسرت میں (آخری حصہ)

 



وہ لکھتے ہیں کہ ایک وقت ذوالفقار علی بھٹو اور چھ افراد کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ میں بھٹو کا اعلان کردہ جانشین تھا اور بھٹو کی کابینہ کے سب سے پہلا استعفیٰ دینے والا وزیر بھی میں تھا اور بھٹو صاحب نے اختلاف کی بنیاد پر قید کیا، اسپیشل ٹریبونل سندھ نے 4 سال کی سزا سنائی تھی۔ معراج محمد خان نے اس باب میں پاکستان میں طلبہ تحریک کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں 1960 میں شریف کمیشن کے 3 سالہ ڈگری کورس کی اسکیم کے خلاف طلبہ تحریک کا ذکرکیا ہے۔

حکومت نے معراج محمد خان اور دیگر طلبہ رہنماؤں کوگرفتارکرنے، تھانوں میں بیہمانہ تشدد اورکراچی بدرکرنے کے واقعات کو بیان کیا ہے۔ اس وقت کے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے شعبہ تاریخ میں میرٹ پر نام آنے کے باوجود معراج محمد خان کو داخلہ نہیں دیا۔ یہی وقت تھا جب کمیونسٹ پارٹی کے رہنما حسن ناصر کو شاہی قلعہ لاہور میں قتل کیا گیا اور یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو امتناعی اقدام کے اختیارات دیدیے گئے تھے۔ برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ کنونشن کے پولو گراؤنڈ کراچی میں ہونے والے کنونشن کو طالبات کے ساتھ مل کر الٹ دیا گیا تھا۔

ایک موضوع ’’ محترمہ فاطمہ جناح اور الیکشن 1964‘‘ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1964 میں بنیادی جمہوریت کے تحت الیکشن ہوتا ہے۔ ہم ان انتخابات میں اپنے نمایندے کھڑے کر دیے جو انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ این ایس ایف کی سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ چند نکات کی بنیاد پر طلبہ تحریک شروع کی جائے اور ’’ ایوب خان مردہ باد، فاطمہ جناح زندہ باد ‘‘ کے نعرے لگائے جائیں گے، پھر تحریک شروع ہوئی۔ معراج محمد خان لکھتے ہیں کہ حکومت نے ان سے بات چیت کی اور شعیب سے میری ملاقات ہوئی۔ سینئر ساتھیوں سے مشورے کیے اور پھر حکومت نے مطالبات منظور کر لیے۔ حکومت نے یہ شرط مان لی کہ اب طلبہ گرفتار نہیں ہوں گے مگر حکومت کی جانب سے یہ شرط رکھی گئی کہ این ایس ایف صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کی حمایت نہیں کرے گی، یہ شرط نہیں مانی گئی۔ ہم فاطمہ جناح کی حمایت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔

معراج محمد خان کے وارنٹ جاری ہوئے، وہ کئی ماہ بعد پروفیسر کرار حسین کے گھر کے سامنے سے گرفتار ہوئے اور معراج محمد خان کو 9ماہ قید کی سزا دی گئی۔ کتاب کے مصنف کو واضح طور پر لکھنا چاہیے تھا کہ محمد شعیب ایوب خان کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ معراج محمد خان نے جنگِ ستمبر کا ذکر کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ دھاندلی زدہ الیکشن پر مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوام میں جو غم و غصہ تھا اس کا رخ موڑنے کے لیے ایوب خان نے کشمیر فتح کرنے کا ارادہ کیا۔ عوام کو بتایا گیا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی ہے مگر یہ المیہ ہے کہ معراج محمد خان نے جنگ میں ایوب خان کی حمایت کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1970کے انتخابات کے بعد کس نے بنگال کے عوام کا قتل ِ عام کیا، کس نے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکارکیا،کس نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا،کس نے 25 فروری کو بنگالی عوام کا قتلِ عام کیا،کون شیخ مجیب الرحمن کو ہتھکڑی لگا کر اسے پیٹ سے باندھ کر مغربی پاکستان لایا اور کس نے حمود الرحمن کمیشن کو عرصے تک شایع نہ کیا؟ یہ سوالات جواب طلب ہیں۔ معراج محمد خان لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو اعلیٰ تعلیم یافتہ وسیع المطالعہ انتہائی ذہین اور دانشور انسان تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے کچلے ہوئے پسماندہ عوام کو شعور دینے کی کوشش کی مگر معراج محمد خان یہ بھی لکھتے ہیں کہ بھٹو صاحب ایک متضاد شخصیت کے مالک تھے، وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن، خود پرست اور قدامت پرست بھی تھے۔ بھٹو جس مشن کا ارادہ کر لیتے تھے اس کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار رہتے تھے۔ معراج نے 1970کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھٹو میری بہن اور غلام مصطفی کو لے کر پنڈی جیل ( یہ غلام مصطفی کھر تھے) میرے پاس آئے اور انتخابات میں حصہ لینے کو کہا۔ انھوں نے انتخابات کا خرچہ دینے کی ذمے داری لینے کا وعدہ کیا لیکن میں نے انکار کردیا۔

معراج محمد نے اقرار کیا کہ ان کا فیصلہ غلط تھا، مگر 70ء کی دہائی میں بائیں بازوکی سیاست کے بارے میں جاننے والے جانتے تھے کہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کمیونسٹ پارٹی چین نواز کا تھا۔ معراج کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ خود معراج محمد خان نے کئی دفعہ کہا کہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کمیونسٹ پارٹی چین نواز گروپ کا تھا جس کے فیصلے کے وہ پابند تھے۔ معراج نے لکھا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جارہی تھی تو میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں جنرل ضیاء الحق کو گولی مار دوں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیگم بھٹو ان کے پاس گھر آئیں۔ میں نے کہا کہ بھٹو کو پھانسی دیدی جائے گی مگر نصرت بھٹو نے کہا کہ سفارتی کوششوں کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اب پھانسی کے فیصلے پر عمل نہیں ہوگا۔ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے دوران ذوالفقار علی بھٹوکو جیل سے باہر لانے کا منصوبہ پیش کیا گیا مگر بے نظیر بھٹو کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ اس منصوبے پر عمل نہ کیا جائے۔

انھوں نے جنرل ضیاء الحق اور میاں نواز شریف وغیرہ کے ادوار کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں کئی اہم معلومات بیان کی گئی ہیں مگر حیرت انگیز طور پر معراج محمد خان کے کمیونسٹ پارٹی سے تعلق کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ خود معراج محمد خان نے کئی بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی چین نواز کے رکن تھے اور 1970میں راولپنڈی جیل میں جب وہ نظربند تھے تو ان کے بھائی منہاج برنا نے راولپنڈی جیل میں ان سے ملاقات کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کے فیصلے سے آگاہ کیا تھا۔

اس فیصلے کی بناء پر معراج محمد خان اور ان کے کئی ساتھیوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ معراج محمد خان نے کئی دفعہ یہ بات سرعام کہی اور پروفیسر انیس زیدی کو بتایا تھا کہ رشید حسن خان کو این ایس ایف کا صدر بنانے کا فیصلہ کمیونسٹ پارٹی کا تھا جو غلط تھا اور معراج محمد خان نے اس فیصلے پر انیس زیدی سے معذرت کی تھی۔ جعفر احمد کی یہ کتاب ہر صورت میں اشتراکی ادب میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آیندہ اس موضوع پر شایع ہونے والی کتابوں میں جو تفصیلات رہ گئی ہیں، وہ مزید بیان ہوںگی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل