Wednesday, October 30, 2024
 

انکار، اقرارکی شروعات ہے

 



انکار،انحراف، رد، ممانعت اور اجتناب دراصل ہر اقرار، مثبت عمل، نیکی، فرضیت اور رضامندی کی جانب اُٹھایا جانے والا پہلا قدم ہوتا ہے، سادہ الفاظ میں کہا جائے تو’’ انکار، اقرارکی شروعات ہے‘‘ اس کو ایسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ تمام غلطیوں سے منحرف ہوجانا، صحیح سمت پروازکرنے کا آغاز تصورکیا جاتا ہے۔

بالکل ایسے جیسے تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف سفرکرنا، جہالت کے کیچڑ میں علم کے کنول اُگانا یا بقائمی ہوش و حواس اپنی سوچ کے زاویے کو تبدیل کرنا۔ ان تمام باتوں کوکہنا، لکھنا ساتھ اس کی وضاحت پیش کرنا جتنا سہل ہے، عملاً یہ سب کرنا اُتنا ہی کٹھن و دشوار ہے۔ اپنی ذات کی نفی کر کے اپنے وجود کو دائمی طاقت میں ضم کر دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور جو انسان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اُس پر ابرِ رحمت دونوں جہانوں میں برستی رہتی ہے۔

نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، ثواب اورگناہ، شکرگزاری اور ناشکری، سچ اور جھوٹ، پاکیزگی اور گندگی، یہاں تک کہ انسانیت اور شیطانیت کے درمیان قائم فرق انکار سے شروع ہوکر اقرار پر جا ٹھہرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کائنات کی ہر شے سیاہ اور سفید میں بٹ کر اپنے منفی و مثبت اثرات کو پوری طرح ظاہر کرتی ہے۔ خداوند کریم نے سب سے پہلے اس جہان کو بنایا، تراشا پھر غلطیوں سے مبرا اور ہمہ وقت عبادت میں مشغول مخلوق کو نور سے خلق کیا جنھیں اُن کی نفیس طبیعت کے باعث فرشتے کہا گیا۔ اُن فرشتوں میں ایک آگ سے پیدا کیا گیا، ابلیس بھی شامل تھا جوکہ نور اور آگ کے بیچ حائل تفاوت کی وجہ سے ہیئت میں باقیوں سے قدرے مختلف تھا۔

فرشتے اپنے رب کی حمد و ثناء میں مگن و مطمئن تھے، ہرکوئی درست ڈگر پر چل رہا تھا مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا۔ اُس ذاتِ عظیم نے ایک ایسی خلقت کو تخلیق کرنے کا ارادہ کیا جو نور اور آگ کے بجائے مٹی سے بنی ہو، جس کو اختیارات عطا کرکے آزمایا جائے اور جس کے ذریعے ایمان کا امتحان لیا جاسکے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اپنی تشکیل کو آدم کا نام دیا پھر تمام فرشتوں کو اُنھیں سجدہ کرنے کا حکم صادر فرمایا، سبھی فرشتوں نے حکم کی پیروی کی سوائے ابلیس کے جسے اُس کی حاکمیت اور عالیت کے غرور نے آدم کے آگے اپنا سر جھکانے نہیں دیا۔ یہیں سے انکار اور اقرار وجود میں آئے جو آگے جاکر ہر طرح کے اندھیرے اور اُجالے کے درمیان فرق کی لکیر کھینچتے رہے اور رہتی دنیا تک وہ ایسا ہی کرتے رہیں گے۔

ابلیس کی اس گستاخی پر پروردگارِ عالم نے سزا کے طور پر اُسے بہشت سے نکال دیا، ساتھ مہلت دی روزِ حشر تک کہ جاؤ جس حد تک جاسکتے ہو آدم اور ابنِ آدم کو ورغلانے میں۔ اُن میں سے جو بہک گیا وہ ہماری صفوں سے نکل کر تم سے جا ملے گا اور بہکے ہوئے کا ٹھکانہ دوزخ ہے جسے دہکتی آگ سے تیار کیا گیا ہے۔ ابلیس جو اب تک خود کو اعلیٰ مرتبے والا سمجھ رہا تھا آدم کی موجودگی اور اپنے عہدے سے برطرفی نے اُس کو اچانک سب کی نظروں میں ادنیٰ بنا دیا۔

توہین کو محسوس کرنے کا چونکہ یہ پہلا تجربہ تھا اور احساس کافی شدید لہٰذا ابلیس نے خود سے عہد کیا کہ چاہے کوئی بھی حربہ اپنانا پڑے آدم کو جنت سے نکلوائے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ یہیں سے انکار اور اقرار، بدی اور نیکی میں تبدیل ہوگئے جس نے بعد میں برائی اور اچھائی سے منسلک انگنت صفات کو جنم دیا۔رب العالمین نے آدم کو تخلیق کیا پھر اُن کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا اور دونوں کو ایک دوسرے کے دکھ، سکھ کا ساتھی بنا کر جنت میں زندگی بسر کرنے کیلئے چھوڑ دیا لیکن اس کیساتھ دونوں کو تنبیہ کی کہ ’’ اے آدم تم اور تمھاری بیوی دونوں جنت میں رہو جس طرح چاہو،کھاؤ پیو، امن چین کی زندگی بسرکرو، مگر دیکھو وہ جو ایک درخت ہے، توکبھی اس کے پاس نہ پھٹکنا، اگر تم اس کے قریب گئے تو حد سے تجاوزکر بیٹھو گے اور ان لوگوں میں سے ہو جاؤ گے جو زیادتی کرنیوالے ہیں۔‘‘ یہی وہ موقع تھا جس کا ابلیس کو شدت سے انتظار تھا، وہ بہکا، پھسلا کر آدم اور حوا کو جائے ممنوعہ تک نہ صرف لے کرگیا بلکہ انھیں اُس خاص شجر کا پھل بھی چکھا ڈالا۔ فرمانِ الٰہی کی خلاف ورزی کی گئی تھی، لہٰذا سزا تو ملنی تھی، اللہ تعالیٰ نے جس طرح ابلیس کو جنت سے نکالا تھا بالکل ویسے ہی آدم بمعہ اپنی شریکِ حیات بہشت سے بیدخل کردیے گئے، یہیں سے انکار اور اقرار نے گناہ اور ثواب کی شکل اختیارکر لی۔آدم اور حوا زمین پر اُتارے گئے، اس طرح وہ دنیا میں قدم رکھنے والے پہلے مرد اور عورت کہلائے،

یہاں سے دنیا میں زیستِ انسانی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ وقت گزرتا رہا، زمانے آتے اور جاتے رہے، اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں بنی نوع انسان کی فلاح کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و پیغمبر دنیا میں بھیجے ساتھ انسانوں کو ضابطہ حیات سمجھانے کیلئے چار آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائیں۔ ہر مرتبہ معاملہ انکار سے شروع ہوکر اقرار پر اختتام پذیر ہوتا تھا لیکن انسان کی بے چین طبیعت اُس کے عروج کو طویل عرصے تک ٹکنے نہیں دیتی تھی اور زوال آخر میں خود اُسی کو منہ چڑاتا تھا۔ پھر نئے سرے سے جہالت کے بادل آسمان پر نمودار ہوتے اور اللہ رب العزت اپنے خاص بندوں کو ایک ایک کرکے ایمان کا علمبردار بنا کر زمین پر اُتارتے رہے۔ انھی بدلتے حالات کے دوران انکار اور اقرار، زوال اور عروج کے راستوں پر سفرکرتے ہوئے جھوٹ اور سچ سے جا ملے۔سلسلۂ نبوت و رسالت آنحضرتﷺ پر آکر ختم ہوا اور ادھر بھی نبوت کا آغاز انکار سے ہوا۔ اس بار جس بات کی ابتداء انکار سے ہوئی اُس کا اقرار دراصل علمیت کا نیا آغاز تھا جوکہ لوح محفوظ میں کائنات کی تشکیل سے قبل بھی موجود تھا اور جسے اللہ تعالیٰ نے صحیح وقت پر دنیا کی جہالت مٹانے کیلئے زمین پر اُتارا۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا لہذٰا آگے کے مراحل اہلِ بیت نے طے کرنے تھے، قرآن مجید کا نزول مکمل ہوا اور حضرت محمد ﷺ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

دین اسلام پر وقتِ آزمائش پھر سے آگیا تھا اور اس مرتبہ بغاوت اپنوں نے کی تھی، یزید نے حکمرانی کے نشے میں نواسہ رسول، اُن کے خاندان اور اصحاب پر کربلا کے میدان میں ظلم کی انتہا کی ۔ یزیدی فوج نے اہلِ بیت کو شہید توکردیا مگر آج تک مذہب و نسل کی تفریق کے بغیر محمد ﷺ کے خاندان کے غم پر آہ و زاریاں کرنے والے لاتعداد افراد موجود ہیں جبکہ یزید کا کوئی جان نثار نہیں بچا۔سانحہ کربلا نے انکار اور اقرار کو شیطانیت اور انسانیت کا روپ دیا جہاں سے ہر قسم کے ظلم و زیادتی اور اُن سے نجات حاصل کرنیوالی راحت کی شروعات ہوئی۔ اس کے علاوہ دنیا میں جب بھی کسی نے انکارکا راستہ اپنایا اُس کی منزل اقرار یا اُس سے منسوب صفات کو ہی پایا۔ عام انسان کی زندگی کی بات کی جائے تو یہاں بھی اُس کی ہر آرزو، تمنا، خواہش اور التجا پر خدا تعالیٰ کا انکار دراصل اُس کیلئے بہتری کے بیشمار درکھولتا ہے جس پر اُس کا سر جو پہلے ناشکری سے اکڑا ہوا تھا سجدہ شکر میں جُھک جاتا ہے۔ تبھی انکار اور اقرار، ناشکری اور شکرگزاری میں بدل کر ایک کامیاب انسانی زندگی کو جنم دیتے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل