Wednesday, October 30, 2024
 

ظلم کیخلاف توانا آواز، شاہدہ لطیف

 



جدید شاعری کئی حیثیتوں سے قدیم شاعری سے مختلف ہے۔ اس کی نمایاں خصوصیات عاشقانہ مضامین و معروضات اور تخلیات کے بجائے حقائق اور واقعات کی ترجمانی کرنا ہے۔ قومیت، حُبِ الوطنی جذبہ کا احساس اور آزادی کی روح جدید شاعری کا سب سے بڑا وصف ہے۔ اُردو شاعری میں یہ تصور بالکل نیا ہے اور مغربی ادب کے اثرات کا نتیجہ ہے، ان تصورات اور نظریات کی ترجمانی نے ہماری شاعری کو قومی اور ملکی خصوصیات کا آئینہ دار بنا یا۔

آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ جدید اُردو شاعری میں آزادی کا احساس روز بروز شدت اختیارکرگیا۔ یوں ملکی اور سماجی مسائل پر کھل کر اظہارِ خیال کیا جانے لگا، جس سے جدید شعراء نے اپنے کلام کی بدولت عوام الناس کے دلوں میں اُمیدکا دیا روشن کیا، ان کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیا اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا تاکہ قوم اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کر سکے لیکن آگے چل کر اس میدانِ شعر و سخنوری میں ایسے بھی لوگ سامنے آئے جنہوں نے اپنی روایت، مذہب، تہذیب وتمدن اور اخلاق کو اپنی شاعری میں بڑی توانائی اور شدت جذبہ و احساس سے بھرپور انداز میں پیش کیا۔ جن میں شاہدہ لطیف کا وجود روشنی کے اُس ستارے کی طرح ہے جس کی روشنی آسمان کے کئی ستاروں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔

اس حوالے سے کچھ محترمہ کے بارے میں جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ ’’ یہ روشنی اُن خواتین کیلئے چراغ راہ ہے جو اپنے جائز انسانی اور مذہبی حقوق کیلئے جہاد کررہی ہیں، جو ظلم و تشدد کیخلاف آواز اُٹھانا چاہتی ہیں۔ خواتین کی شخصیت کو مسخ کر دینے والے گھٹن اور بہتر ذہنی صلاحیتوں کے باوجود خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم سطح پر زندگی بسرکرنے پر مجبورکردینے والے ناروا اور بے جواز جبرکے خلاف جو خواتین آواز اُٹھا رہی ہیں، ان میں محترمہ شاہدہ لطیف پیش پیش ہیں وہ خود اپنی مثال سے اپنی تحریر و تقریر سے اور اپنی شاعری سے اس تحریک کو حوصلہ اور عزم عطا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔‘‘ محترمہ شاہدہ لطیف کی زیرِ نظر تصنیف ’’ معرکہء کشمیر‘‘ ایک ایسی لازوال کاوش ہے جس میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر پر ظلم و تشدد کیخلاف برسرپیکار ہو کر اپنے جذبات کو لفظوں کی مانند صفحہ قرطاس پر اُتارنے کی بھرپورکوشش کی ہے، تاکہ بھارتی ظلم وستم کی آگ میں جلنے والی قوم کو ان کی غلامی کی زنجیر سے ہر ممکنہ نجات دلا کر انہیں اپنی مرضی سے اس دھرتی پر جینے کا حق مل سکے، جس کیلئے شاعرہ نے حق وباطل کا پردہ چاک کرنے کیلئے اپنی شاعری میں اس بات کا حقیقی معنوں میں ذکر اپنے اشعار میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ۔

حساس ہے جو دل وہ تڑپتا ہے ظلم پر

جو آنکھ جبر دیکھتی ہے اشک بار ہے

کب اُن نہتوں کو ملا رائے دہی کا حق

بھارت کی فوج جن کے سروں پر سوار ہے

شاہدہ لطیف کی شاعری کا سب سے اہم حصہ ان کی انقلابی نظمیں ہیں جس میں امن کا پیغام، آزادی کا گیت،کشمیر ہماری جان، پاکستان کا رشتہ، روشنی کے مسافر، اب تو سوچو، محاذِ جنگ، ماں کی فریاد اور سری نگر سے خط کے علاوہ دیگر ایسی نظمیں ’’ معرکہء کشمیر‘‘ میں شامل ہیں جنہیں پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاعرہ نے اپنے دورکے ہیجان کی مکمل ترجمانی کی ہے۔ ان کے تصور انقلاب میں بھی رومانیت جھلکتی ہے۔ ان کے دل میں وطن سے اور کشمیر کے مسلمانوں سے والہانہ محبت کا جذبہ موجزن ہے اور اس کی ایک ایک چیز سے ان کو لگاؤ ہے۔ ’’معرکہ کشمیر‘‘ بھی ان کے دوسروں کے پالے ہوئے دکھ کی داستان ہے، جس میں وہ اس دُکھ کو پرایا نہیں بلکہ اپنا سمجھ کر جھیلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

اس کتاب میں سردار محمد عبدالقیوم خان، میجر جنرل سردار محمد انور خان اور ڈاکٹر رشید نثارکی آراء کے ساتھ ساتھ اعتبار ساجد کا دیباچہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے جس میں وہ شاہدہ لطیف کی اس کاوش کو انقلاب آفریں معرکہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ معرکہ کشمیر‘‘ حق و باطل کا ایک ایسا شعری اور تخلیقی آئینہ ہے جس میں پاکستان کی بیٹی شاہدہ لطیف نے تمام عوامل و عناصر یکجا کردیے ہیں جو کسی مظلوم، آزردہ اور انصاف طلب خطے کے پیکر میں نمایاں خدوخال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے مطالعے کے بعد ہر حقیقت پسند قاری کے دل سے کشمیر کے منصفانہ حل اور شاہدہ لطیف کی حیات جاوداں کے لیے بے ساختہ دُعا نکلے گی۔‘‘’’لہو لہو کشمیر‘‘ ان کی ایک ایسی خوبصورت اور بھرپور نظم ہے جو بھارت سمیت دنیا بھر کے ریاستوں کو کشمیرکی صورت حال کو دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

انگاروں میں سُلگ رہی ہے جنت کی تصویر

دُھواں دُھواں ہے آزادی کے خوابوں کی تعبیر

اس عالم میں کیوں کر ہو گی انساں کی توقیر

دیکھ ذرا کشمیر

لہو لہو کشمیر

اس طرح کی نظموں کو تخلیق کرنا عموماََ بہت مشکل طلب کام ہوتا ہے، مگر جس طرح سے شاہدہ لطیف نے اس کام کو انجام دیا ہے وہ یقینا ان کی مشقت اور ریاضت کا صلہ ہے، کیونکہ محترمہ کے اس شعری آہنگ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس بات کا بار بار خیال آتا ہے کہ ہماری کتنی شاعرات نے اس موضوع کو موضوع کتاب کی حیثیت سے دیکھا اور پرکھا ہے تو میرے خیال میں ایسی شاعرات بہت کم ہیں جنہوں نے الگ سے منظومات کی کتاب کشمیر کے حوالے سے نذرِ قارئین کی ہو۔ اس لحاظ سے محترمہ کو خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان کے شہر اسلام آباد میں مقیم رہ کر کشمیر کے درد کو کشمیر کی بیٹی کی طرح محسوس کیا اور ’’ معرکہ کشمیر‘‘ کی صورت میں اس کتاب کو شائع کیا۔ ان کی اس شاعری مجموعہ میں حمد، نعت، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ ان کی اس کاوش کو سید عارف عالمی ضمیر پر طمانچہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’ شاہدہ لطیف کی کتاب بھارتی استبداد کیساتھ ساتھ سوئے ہوئے عالمی ضمیر پر ایک زبردست طمانچہ ہے کشمیر کے موضوع پر شاہدہ لطیف نے بہت اچھی اور پر تاثیر شاعری کی ہے۔‘‘ غرضیکہ شاہدہ لطیف نے ’’معرکہ کشمیر ‘‘ لکھ کر اُردو شاعری کو نیا انداز اور فنی شعور دیا ہے جس کی جدید شاعری کے ارتقاء میں بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے اُردو شاعری کو بے باکی، والہانہ پن اور جدت عطا کی ہے اور ان کے ایسے ہی کچھ اشعار نذرِ قارئین حاضر ہے۔

شدت تھی قتل گاہ میں اپنے عروج پر

سارے چراغ خود ہی سرِ دار جل اُٹھے

…٭…

ہیں وفا کے نام لیوا خیمہ زن کشمیر میں

ہے جنھیں کرب و بلا سے رات دن کا واسطہ

…٭…

آنچ اُٹھتی ہے خیالوں کے الاؤ سے بُلند

شاہدہؔ اب مرا ہر حرفِ سُخن جلتا ہے

…٭…

کیسی ہیں کشمیرکی گلیاں،کوچے اور بازار سبھی

جنت کو میں لمحہ لمحہ مٹتے دیکھی جاتی ہوں

’’ معرکہ کشمیر‘‘ کے علاوہ ان کی متعدد تصانیف میں معجزہ، میں پاکستانی ہوں، برف کی شہزادی (منظوم سفر نامہ)، محبت ہو نہ جائے، اُف یہ برطانیہ (منظوم سفر نامہ)، بیت اللہ پر دستک (منظوم سفر نامہ)، نگاہِ مصطفیٰ(نعتیہ مجموعہ) اور ’’خواب سونے نہیں دیتے‘‘ جبکہ ’’ حکایات کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ کے علاوہ ان کے کرنٹ افیئرز پر مبنی مضامین کی کتب میں ’’پاکستان میں فوج کا کردار‘‘، ’’امریکا، اسلام اور عالمی امن ‘‘ اور دو عدد نال کے مجموعوں میں سات قدیم عشق، سلطان محمد فاتح اور شعبہ تعلیم کے معلق ’’Short stories & one act plays جو بی اے کی طالب علموں کے لیے ایک انمول تحفہ ہے، جبکہ تخلیص و ترجمہ کے حوالے سے ان کے ’’دنیا کے 70 عجوبے‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ محترمہ ایک ادبی ،ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی مجلہ ’’ اوورسیز انٹرنیشنل‘‘ کی بطور مدیرہ اپنے صحافتی فرائض بھی سرانجام دے چکی ہے، یوں اس طرح آج شاہدہ لطیف کی علم وادب اور تاریخِ صحافت کے لیے خدمات گراں قدر ہیں اور ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہیے، انہیں ادبی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں حکومتی سطح پر صدارتی اعزاز برائے حُسنِ کارکردگی سے بھی نوازا جا چکا ہے مگر یہ ان کی بے نیازی کا ثمر ہے کہ وہ اپنے ساتھ یہ لکھنا مناسب نہیں سمجھتی، شاید اس لیے ابھی جو آنکھوں میں خواب ہیں اُن کی تعبیر ادھوری ہے جن کی وجہ سے انہیں ابھی تک ’’خواب سونے نہیں دیتے۔‘‘

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل