Wednesday, October 30, 2024
 

پی ٹی آئی پر پابندی اور اس کے مضمرات

 



مسلم لیگ ن کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے، عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری پر آئین شکنی پر آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس قسم کے اعلانات سوائے سیاسی بوکھلاہٹ کے کچھ نہیں ہوتے۔ ایسے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کے اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے اور اسے پارلیمانی پارٹی قرار دینا حکومت ، اس کے اتحادیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک دھچکہ ہے۔ یہ جو ہمیں حکومتی سطح پر سخت گیر حکمت عملی کی بنیاد پر رد عمل یا فیصلے دیکھنے کو مل رہے ہیں، وہ ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کے اکثریتی فیصلے نے حکومت بڑا دھچکا دیا ہے، جو اسے قابل قبول نظر نہیں آرہا۔

کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا یا کسی پارٹی کی قیادت پر غداری کا مقدمہ چلانا، پاکستان میں نیا نہیں ہے، ماضی میں نیپ پر پابندی عائد ہوچکی ہے ، ولی خان اور عطااﷲ مینگل وغیرہ پر حیدر آباد ٹربیونل کے نام مقدمہ چلتا رہا ہے۔بعد میں ضیاء الحق نے انھیں باعزت رہا کردیا تھا۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت نے آئین و قانون کی اپنی تشریح کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے مگر کیا یہ فیصلہ آئینی وقانونی محاذ پر یا عدلیہ میں قبولیت حاصل کرسکے گا، امکان کمزور نظر آتا ہے کیونکہ فل کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے پہلے ہی 8فروری کے انتخابات اور انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے، ایسی صورتحال میں کیا سپریم کورٹ پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کی توثیق کرسکے گی؟

پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملیوں پر لاکھ تنقید کریں اور تنقید کا جواز بھی ہوگا مگر ایک ایسی جماعت جو اس وقت قومی اسمبلی اور سینیٹ میںاکثریتی جماعت بن چکی ہو، جس کا ووٹ بینک 8فروری کے انتخابی نتائج کی روشنی میں سب سے زیادہ ہو اور جس جماعت یا ان کے قائد کی مقبولیت بھی سب سے زیادہ ہو تو ایسے میں اس جماعت پر پابندی کا مقصد ہم کو سوائے ایک بڑی سیاسی تقسیم اور سیاسی انتشار کی صورت میں ہی دیکھنے کو ملے گا حالانکہ مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادیوں کی پہلے ہی سے اقتدار کی گرفت کمزورہے اور ایسے میں سیاسی حکمت عملی یا بڑی سیاسی قوت کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے طاقت کی بنیاد پر ختم کرنا یا اسے دیوار سے لگانے کی حکمت عملی سوائے ناکامی کے کچھ نہیںدے سکے گی۔

ایسے لگتا ہے کہ مجموعی طور پر ہم سب لوگ نظام کو کمزور کرنے اور اسے پیچھے کی طرف دھکیلنے کے کھیل کا حصہ بن کر خود ہی ملک کے خلاف سازش کر رہے ہیں کیونکہ جب ادارے کون طاقتور ہے ، کون سپریم ہے اور کون زیادہ بااختیارہے کی پاور گیم کے کھلاڑی بن جائیں، انتظامیہ اور مقننہ اپاہج بنا دی جائے ، ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے آزاد ہوجائیں تویہ منظرنامہ کیسے ہمیں سیاسی، جمہوری یا معاشی بنیادوں پر مستحکم کر سکے گا۔ قومی سیاست میں غداری کے سرٹیفیکیٹ، بغاوت، قومی سلامتی یا سیکیورٹی رسک یا ملک دشمنی کے الزامات کا خمیازہ پاکستان اور اس کے عوام بھگت رہے ہیں۔

پی ٹی آئی پر پابندی اور غداری کے مقدمہ پر عملدرآمد ہو یا نہ ہو مگر حکومت کے سیاسی عزائم واضح ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ایک مقابلہ پی ٹی آئی سے ہے تو دوسری طرف عدالت کی بنیاد پر نیا محاذ کھولا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اس فیصلے میں سیاسی طور پر تنہا بھی کھڑی ہے کیونکہ براہ راست اس فیصلے کی حمایت میں اس کے اتحاد ی بھی پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور کچھ مسلم لیگ ن میں بھی ایسے لوگ ہیں جو حکومت یا اپنی جماعت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ سیاسی جماعت پر پابندی یا مخصوص ججز کی مخالفت سے خود کو علیحدہ رکھا جائے وگرنہ پارٹی کی سیاسی ساکھ کو اور زیادہ سیاسی سطح پر نقصان اٹھانا پڑ ے گا۔

اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی سے پی ٹی آئی ختم ہو جائے گی یا اس کی مقبولیت کا خاتمہ اور عمران خان بھی غیراہم ہوںگے تو یہ ان کی خوش فہمی ہوگی کیونکہ 8فروری کے انتخابات کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کو بطور جماعت باہر رکھا گیا ، انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، پارٹی کے امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا، اس کے باوجود لوگوں نے ووٹ ان ہی کو دیے تھے۔ اس طرح کی پابندیوں کے نتیجے میںپارٹیاں نیا متبادل راستہ اختیار کرکے نئے نام کے ساتھ سیاست کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی کی داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر قبولیت نہیں ہوگی اور اس کا ایک بڑا نتیجہ قومی سیاست میں سیاسی انتہاپسندی کی صورت میں ہوگا ۔ پہلے ہی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کو مختلف محاذوں پر ایک مخصوص گروہ کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے ۔ یہ سوچ یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی نئے مسائل کو پیدا کرے گی جس سے گریز کیا جانا چاہیے۔

مسلم لیگ ن میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی یا غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کب، کہاں اور کس نے کیا کیونکہ مسلم لیگ ن کی بیشتر قیادت اس فیصلے سے لاعلم تھی۔ اسی طرح اتنا بڑا فیصلہ حکومتی سطح پر ہوا مگر حکومتی سطح پر کسی بھی اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جو مزید حکومت کو سیاسی محاذ پر تنہا کرے گا۔ اسی طرح اس طرح کے فیصلے کی ٹائمنگ بھی دیکھنی ہوگی کہ ایک طرف حکومت کی مخالفت میں آٹھ ججز کا اکثریتی فیصلہ آیا اور دوسری طرف اس کے ردعمل میں حکومت کی ان ججز اور پی ٹی آئی کے خلاف نئی مہم جوئی شروع ہوگئی ، جو ظاہرکرتی ہے کہ حالات میں بگاڑ پیدا ہوگا۔

پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے یہ فیصلہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے اور سیاست کی بنیاد پر کھیلا جانے والا کھیل سیاست میں مزید الجھاؤ پیدا کرے گا۔ سیاسی اختلافات کا ہونا اپنی جگہ مگر ہمیں سیاسی اختلافات کو اس نہج پر نہیں لے جانا چاہیے کہ ہم کسی کے لیے اور وہ بھی مقبول جماعت کے لیے ہی سیاسی راستوں کو بند کرنا چاہتے ہیں، کوئی حمایت نہیںکرے گا۔ جمہوریت کی جو بچی کچھی ساکھ ہے وہ بھی متاثر ہوگی اور اس کے نتیجے میں سیاسی قوتوں کو فائدہ کم اور نقضان زیادہ ہوگا۔ ایک ایسا ملک جسے سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی استحکام درکار ہے اور جو علاقائی، عالمی اور داخلی سیاست میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہو، وہاں اس قسم کے فیصلے، مہم جوئی یا سیاسی تماشا کیسے ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دے سکے گا اور کیوں دنیا اس کھیل میں محض تماشائی کا کردار ادا کرے گی۔ یہ ایک نئی دنیا ہے جہاں پرانے خیالات اور پرانے فرسودہ روایات یا سیاسی حکمت عملیاں کمزور ہو رہی ہیں۔ لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل