Saturday, September 21, 2024
 

ترقی کا سفر

 



’’بچپن میں جب ہم ان کے گھر جاتے تھے تو ان کے گھر دیوار سے لگی ڈھیروں دواؤں کی بوتلیں دیکھتے تھے۔ ان کا گھر ہم سے بھی خراب تھا۔ جب ہمارے گھر پہلی بار پردوں کے لیے ریلنگ لگی تو آپا انھیں اپنے ساتھ لے کر آئی تھیں کہ اس طرح لگوانا ہے پردوں کے لیے۔‘‘

پاکستان آنے کے بعد کے برسوں میں ایسا ہی ہوتا تھا جس نے اپنا گھر خرید لیا وہ خوش حال کہلایا اور جو مہاجرین کے کیمپوں میں رہا وہ ۔۔۔۔

’’ ان کے والد کی بھی دکان تھی، ایک چھوٹی سی دکان۔ بھئی ان کے حالات بہت اچھے نہیں تھے، بھئی ان کا گھر ہمارے گھر سے بھی خراب تھا (اولڈ سٹی کراچی) ہم تو بچے تھے ان کے گھر سپارہ پڑھنے جاتے تھے۔‘‘

’’تو کیا وہ شروع سے ہی دوائیوں کا کام کرتے تھے؟‘‘

’’ہاں کرتے ہوں گے، اب ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہوگی تو گھر پر ہی لا کر رکھ لیتے ہوں گے، بہرحال کوئی انگریز تھا، اس کی دوائیوں کی فیکٹری چل نہیں رہی تھی تو اس نے اسے بیچنا چاہا یا وہ یہاں سے جان چھڑا کر جانا چاہتا تھا تو اس نے وہ فیکٹری اونے پونے ان کے ہاتھ فروخت کردی اور انھوں نے کام شروع کر دیا۔ اس سے پہلے بھی انھوں نے اِدھر اُدھر لوگوں سے بزنس کے لیے کہا تھا، وہ دراصل پڑھے لکھے تھے، اب آج تک مجھے پتا نہیں چل سکا کہ انھوں نے بارہ جماعتیں پڑھی تھیں یا گریجویشن کیا تھا، اس وقت پڑھے لکھے لوگوں کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔

اب ہوا یہ کہ ان کی فیکٹری میں آگ لگ گئی اورکچھ سامان جل گیا تو بھٹو صاحب نے ان کو جیل میں ڈال دیا۔ ہم بچے تھے، ہمیں تو اتنا ہی پتا ہے کہ انھوں نے بہت کہا کہ سامان جلا ہے، کسی طرح سے بھی نہ کوئی جانی نقصان ہوا ہے اور نہ ہی زخمی ہوا ہے لیکن وہ زمانہ ہی ایسا تھا۔ بہرحال جیل میں جا کر انھیں ایک فائدہ ہوا، وہاں انھیں بہت سے صنعت کار ملے، انھوں نے ان سے کہا کہ آج کل کاسمیٹکس کا کام زیادہ چلتا ہے، دوائیوں کے کام میں اتنا فائدہ نہیں ہوتا تو انھیں ایک نئی راہ ملی۔ (مسکراتے ہوئے) بلکہ ان کی ترقی میں ہم بچوں کی دعاؤں کا بھی بڑا حصہ ہے، ہم کو بلایا جاتا تھا ہم ان کی رہائی کے لیے بڑے دل سے پڑھتے تھے، پھر ہمیں مٹھائی بھی ملتی تھی۔‘‘

’’ان کا تو کاسمیٹکس کے علاوہ بھی بڑا کام ہے۔‘‘

’’ظاہر ہے ایک کے بعد ایک بزنس لائن ملتی جاتی ہے۔‘‘

یہ ذکر ملک کے ایک معروف صنعت کار کا تھا۔ جو کاروباری حلقوں کے علاوہ بھی عوام میں اپنے مختلف کاموں سے مقبول ہیں۔ جنھوں نے زیرو سے سفر شروع کیا تھا۔ کامیابیوں کے سو راز، ترقی کے ہزار اصول اور نہ جانے کیا کچھ لکھنے والوں نے لکھ ڈالا ہے لیکن یہی سچ ہے کہ جس کو اوپر والے نے ترقی دینا ہوتی ہے، اس کے لیے کہیں نہ کہیں سے وسیلہ بنا دیتے ہیں اور ہم بڑے بڑے مفکروں کے سنہرے اقوال پر عمل کرنے کو کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں۔

کامیابی کی سیڑھی چڑھنا جس قدر مشکل نظر آتا ہے اس سے اترنا بھی آسان نہیں ہوتا، لیکن کئی بار اوپر چڑھنا اور اترنا دونوں میں اس قدر تیزی پائی جاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ آخر ہوا کیا ہے؟ کئی بار زندگی میں ہمیں ٹھوکر لگتی ہے یا ہم الجھ کرگر پڑتے ہیں لیکن اسی گرنے کے عمل میں ہماری زندگی سے منسلک ایسے واقعات درپیش آتے ہیں کہ ہم گنگ رہ جاتے ہیں اور پھر آگے چل کر وہی ٹرننگ پوائنٹ بن جاتے ہیں ترقی اور تنزلی دونوں کے لیے۔

ملکوں کی ترقی اور تنزلی کا دار و مدار ان کے سربراہان اور اداروں کی مشترکہ پیشکش ہے، جس میں اگر ایمان داری کو نمبر دینا چاہیں تو سو فیصد نہ سہی تو کم ازکم پچھتر فیصد تو ملنے چاہئیں۔ ابھی حال ہی میں برطانیہ میں ایک ذمے دارکا نام خوب بدنام ہوا، جہاں ان کی اہلیہ کے کپڑوں سے متعلق کرپشن کی فریاد بلند ہوئی اور سامنے بھی آگئی۔ ہمارے یہاں اس قسم کی کرپشن کو لولی پوپ کرپشن کہا جاسکتا ہے، یہ بھی بھلا کوئی کرپشن ہوئی۔

بدعنوانی کے قصے ہوں یا تعصب کی آگ، ہمارے ملک میں اس کی دھیمی آنچ کو بھڑکانے کے عوامل بہت ہیں۔ سڑک پر دوڑتا بھاگتا ٹریفک ہو یا آسمان پر اڑتے طیارے، ہم کوئی سرا نہیں چھوڑتے اور پھر بیگ بھر بھر کر چھپاتے نہیں تھکتے، اس ملک کو چلانے والے اہم پہیے زنگ آلود ہو رہے ہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ صنعت کاری سے ملک کی ترقی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ سرمایہ کاری سے ملک میں پیسے آتے ہیں، لوگوں کی بے روزگاری دور ہوتی ہے معاشرے میں اعتماد اور توازن پیدا ہوتا ہے، ہم ایمان داری کے پچھتر میں سے بہ مشکل پندرہ فیصد پر چل رہے ہیں، شاید یہ پندرہ فیصد بھی دل کی آرزو میں پل رہے ہیں اور لڑکھڑاہٹ کی سی حالت میں دنیا منتظر ہے کہ اب گرے کہ تب۔

دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو امریکا، فرانس سے لے کر بھارت کے مکیش امبانی بھی ایک سو سولہ ارب ڈالرز کے ساتھ نویں نمبر پر نظر آ رہے ہیں۔ دنیا کے سارے امیر لوگ صنعت کاری سے جڑے ہیں، سوائے امریکا کی ٹیلر سوفٹ کے جن کا تعلق موسیقی کی دنیا سے ہے جن کے پاس ایک ارب ڈالر سے زائد ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے بائیس امیر خاندانوں کی فہرست تھی۔ جنھوں نے پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بھی اپنی دولت سے پاکستان کی مدد ہی کی اور پاکستان نے ان کو کیا دیا؟ جو بھی دیا وہ انھوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سنبھال کر رکھ لیا۔

کامیابی اور ترقی حاصل کرنے کے نسخے میں قدرت کا کمال ہوتا ہے، یہ انسان کو اس مقررہ وقت پر مل جاتا ہے جب حکم ہوتا ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ ہم ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائیں یا اندھیر نگری چوپٹ راج ہو۔ ہماری زرخیز زمین، سونا اگلتی زمین، سنہری بالیوں سے لہلہاتی زمین، وسیع آسمان، بلند ارادے اور سچائی، اخوت اور صداقت ایسا لکھتے آنکھیں نم ہیں، پر ناامید ہرگز نہیں ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔ وقت کی پٹری طویل ہے، منتظر ہے کہ مسافر کیا سوچ کر اب قدم بڑھاتا ہے کہ سفر ہے شرط۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل