Loading
سیاسی ،سماجی،علمی و فکری راہنمائی یا عوامی رائے عامہ کو پیدا کرنا یا اسے منظم خیالات سے جوڑنے میں ایک بڑا کردار ریاستی نظام میں دانشور کا ہوتا ہے ۔ دانشور سے مراد وہ علمی وفکری آدمی جو ایک خاص موضوع پر علم و مہارت رکھتا ہو اور اسے اپنی بات کرنے کا یا دوسروں تک پہنچانے کا سلیقہ آتا ہو۔ ایسے ہی لوگ معاشرے میں مختلف طبقات کے اندر رائے عامہ بنانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور ایک مختلف یا متبادل نظریہ سب کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ ان کی یہ سوچ کسی تعصب ، سیاسی و ذاتی مفاد یا جذباتیت کی بجائے ٹھوس شواہد ،منطق ، تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ایسے لوگوں یا ان کی فکری راہنمائی کی مدد سے حکومت یا سماج کے نظام میں بہتر ی پیدا کی جاتی ہے ۔دانشور طبقہ محض تنقید ہی نہیں کرتا بلکہ معاملات کا حل یا ایک متبادل نظریہ بھی پیش کرکے روشنی کے مینار کو سب کے سامنے نمایاں کرتا ہے ۔ معروف امریکی پروفیسر ، اسکالر اور دانشور نوم چومسکی جو کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی ہے۔ان کی شہرت ایک ایسے دانشور کی ہے جن کی عالمی سطح پر ایک نمایاں حیثیت ہے ۔ ان کے بقول ’’ عوامی دانشور وہ ہوتا ہے جو طاقت کے ڈھانچے سے آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے عوامی گفتگو میں حصہ ڈالنے ،رائے عامہ کی تشکیل میں مدد کرنے اور پالیسی پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنی مہارت اورعلم کا استعمال کرتا ہے۔‘‘ عمومی طور پر ہمیں کئی طرح کے دانشوروں کا سامنا ہے لیکن ایک عوامی دانشور جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے اور وہ کچھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کا براہ راست تعلق عوامی مفادات سے ہوتا ہے۔ اس کو تبدیلی کے عمل میں ایک بڑے راہنما کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔کیونکہ اس طرز کے سوچنے ،سمجھنے ، پرکھنے والے دانشور خود کو ایک آزاد خیال رکھنے والے کے طورپر پیش کرتے ہیں اوران کی سوچ پر کسی مفاد، لالچ اور اندھی تقلید کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ اس طرز کے دانشور معاشرے میں موجود معاشی لوٹ مار، مذہبی تنگ نظری، نسلی، لسانی اور قبائلی و ذات برادری کے تعصب کو چیلنج کرتے ہیں ۔ ان کا بنیادی کردار سماجی انصاف اور معاشی مساوات کو فروغ دینا ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر وہ اپنے علم اور تجربے کو استعمال کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ایک بڑا دانشور حکومت ، اس کی مشینری اور طاقتور طبقات کے تضادات کو آشکار کرتا ہے۔ وہ اپنے علم و مہارت کی بنیاد پر ریاستی نظام کو عملی طور پر پرکھ کر ایک ایسا خیال پیش کرتا ہے جو معاشرے میں ایک اچھی حکمرانی،اعتدال بر مبنی معاشرہ ، سیاسی ،سماجی و معاشی انصاف کو یقینی بنانے میں مدد کرتا ہے ۔ضروری نہیں کہ ایک بڑے دانشور کا بیانیہ عوامی سطح پر یا ریاستی وحکومتی سطح پر مقبولیت رکھتا ہو ممکن ہے اس کے خیال کی پزیرائی کم ہو مگر وہ اپنی سچائی کی بنیاد پر کھڑا ہو ۔ہم ایک بڑے دانشور سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات میں سچائی کی بنیاد پر اپنی رائے پیش کرے۔ ہمارے جیسے معاشروں میںموقع پرستی کی صلاحیت والے کو رہنما بھی سمجھا جاتا ہے اور دانشور بھی ۔ یہی لوگ اپنا اپنا لیڈر اور اپنی اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح افراد کو گمراہ کرتے ہیں، ان کے معاشی اور سماجی استحصال کو اپنی مرضی کا رنگ دیتے ہیں۔ہمارا مجموعی نظام دانشور اسے قراردیتاہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں شرم محسوس نہ کرے۔ اسی بنیاد پر ان کی ہمارے حکومتی نظام اور سیاسی و مذہبی جماعتوں میں بڑی پزیرائی ہوتی ہے۔ میڈیا میں بھی ایسے خیالات اور سوچ رکھنے والوں کا غلبہ ہوتا ہے اور جو شخص ریاستی نظام میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کرتا، نام نہاد انقلابی سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے تضادات کو واضع کرنے کی خواہش رکھتا ہے، ان کی میڈیا میں نہ تو کوئی رسائی ہوتی ہے اور نہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے سماج میں حکومتی نظام میں مثبت تبدیلی نہیں لائی جا سکی ۔ بدقسمتی سے اگر ہم حکومتی پالیسیوں پر ایک متبادل سوچ کو سنتے ہیں تو اس کی قبولیت کا پہلو نہ صرف کمزور ہے بلکہ اس خیال کو پیش کرنے والوں کی سماجی قبولیت پر بھی پابندیاں ہیں ۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے اور ضروری نہیں کہ اس کی تنقید درست ہو مگر اسے ایک دلیل کے طور پر ضرور پرکھنا ہوگا اور اس کی عدم قبولیت کے باوجود اس کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے نہ کہ اس کی تضحیک کی جائے۔ ہر حکومت کے اردگرد ایسے ہی دانشوروں کا قبضہ ہوتا ہے جو لوگوں کو گمراہ بھی کرتے ہیں اور سچائی کے مقابلے میں جھوٹ کو بنیاد بنا کر مجموعی طور پر ریاستی نظام کی کمزوری کا سبب بن رہے ہیں ۔حقیقی دانشور بنیادی طور پر اپنے ملک اور لوگوں سے محبت کرتا ہے اوراسی بنیاد پر وہ معاشرے کی سطح پر ایک ایسی تبدیلی دیکھنا چاہتا ہے جس میں تمام لوگوں کی یکساں قبولیت بھی ہو اور ان کے ساتھ سیاسی ،سماجی اور معاشی انصاف بھی ہو۔ یہ سوال ہمارے جیسے معاشروں میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں موجود دانشور طبقہ اپنی حقیقی ذمے داری کو واقعی ادا کررہا ہے یا اس کے کردار سے معاشرے میں بگاڑ اورکمزور نظام فروغ پا رہا ہے۔ بنیادی طورپر ایک مہذب معاشروں میں ہمیں دانشوروں، پالیسی سازوں اور حکومتی نظام کے درمیان ہم آہنگی ملتی ہے اور نظام ان متبادل آوازوں کی بنیاد پر اپنی حکمرانی کے نظام کی سمت کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہمارے یہاں فکری بنیادوںپر دانشورو ں کا ایک طبقہ موجود ہے جو ایک خاص موضوع پر دسترس رکھتے ہیں اور اسی طرح سے صحافتی سطح پر بھی یا سیاسی و سماجی راہنماؤں کی صورت میں سوچنے سمجھنے والے لوگ موجود ہیں ۔ ہمیں دو طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔اول سوچنے وسمجھنے والے افراد نے طاقت وروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور دوئم ہم رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا اداروں کے احتساب کا کوئی نظام وضع نہیں کرسکے ۔ بہرحال ہمیں ایسے دانشوروں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا جو عوامی مفاد کی بنیاد پر حکومتی یا معاشرتی نظام کی تشکیل میں ایک مثبت کردار ادا کررہے ہیں ۔اسی طرح ایسے لوگوںکا کڑا احتساب کرنا چاہیے جو دانشوری کے نام پر گمراہی کا کھیل جان بوجھ کر کھیل کر حکومتی نظام کو طاقت پہنچاتے ہیں اور عوامی مفاد کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل