Thursday, November 14, 2024
 

آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے اقدامات پر چاروں صوبوں سے رپورٹس طلب کرلیں

 



سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی خاتمے کے اقدامات پر چاروں صوبوں سے 3 ہفتوں میں مثبت رپورٹس طلب کرلیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کی سبراہی میں قائم آئینی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے ماحولیاتی آلودگی کے تمام کیسز کو یکجا کر دیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ بتایا جائے آلودگی کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے، ماحولیاتی آلودگی کا مقدمہ غیر معینہ مدت تک زیر التواء نہیں رکھا جا سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ماحولیاتی اتھارٹی کے چیئرمین کی تعیناتی کا پراسس مکمل ہوا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہ اکہ انوائرمنٹل ایجنسی کی اجازت کے بغیر کوئی اینٹ تک نہیں لگا سکتا، ایجنسی اور قانون کی موجودگی کے باوجود ہاوسنگ سوسائٹی کی بھرمار ہے۔ خیبر پختونخوا میں اسکول کی عمارت کے ساتھ ماربل فیکٹریاں ہیں، ماحولیاتی ایجنسی کے افسران تو دفاتر سے نکلتے نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آج کل اسموگ بہت بڑا ایشو ہے، اسموگ کی وجوہات کیا ہیں اور اسموگ کے خاتمے کا علاج کیا ہے؟ ڈی جی ماحولیاتی ایجنسی نے بتایا کہ عدالت کے احکامات پر ماحولیاتی ایجنسی کے اہم اقدامات اٹھائیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا عدالت کا کام ہے آپ کے ادارے کی نگرانی کرے، اگر عدالت نے ماحولیاتی آلودگی کے معاملات کو دیکھنا ہے تو پھر اداروں کی کیا ضرورت ہے۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ کھیت کھلیان کو ختم کرکے ہاؤسنگ سوسائیٹز بن رہی ہیں، لاہور بڑھتے بڑھتے شیخوپورہ تک جا پہنچا ہے۔ اسلام آباد میں بھی ہاؤسنگ سوسائیٹز کی بھرمار ہیں اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے لیے زرخیز زمین کو ختم کیا جا رہا ہے، سوسائیٹیز کے بجائے فلیٹس کو فروغ کیوں نہیں دیتے، کاشت ختم اور ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ لارڈ نذیر کے 1993 خط پر سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے معاملہ کا نوٹس لیا تھا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل