Loading
قومی سیاست اور جمہوریت کے تناظر میں پاکستان کو بہت سی نئی تبدیلیاں درکار ہیں ۔کیونکہ جو روائتی سیاست اور جمہوریت کو بنیاد بنا کر نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ اپنی افادیت کو ختم کرچکی ہے ۔ آج کی جدید دنیا میں جو ہمیں آگے بڑھنے کے لیے جدید حکمرانی کا نظام درکار ہے، وہ ریاستی و حکومتی محاذپر قومی ترجیحات کا حصہ نہیں۔اول یا تو ہم جدید بنیادوں پر نظام کو چلانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے یا ہمارا اپنا علم ،سمجھ بوجھ ، فہم اور عقل دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ دوئم ہم سمجھتے تو بہت کچھ ہیں مگر جدیدیت کی بنیاد پر حکمرانی کے نظام کی تشکیل ہمارے اپنے سیاسی ،ذاتی اور کاروباری مفادات کے خلاف ہے ۔اسی بنیاد پر ہم جان بوجھ کر ایک روائتی ، فرسودہ ،ناکارہ بنیاد پر پہلے سے موجود نظام کو چلانے میں ہی اپنا مفاد سمجھتے ہیں ۔ مسئلہ محض سیاست کا نہیں بلکہ ریاست کا مجموعی نظام اور اس سے جڑے ادارے سب ہی ایڈہاک پالیسی اور سیاست، جمہوریت، آئین وقانون کو پس پشت ڈال کر چلایا جارہا ہے ۔وجہ صاف ہے کہ جب ریاستی وحکومت کے نظام میں نہ جدیدیت ہوگی اور نہ ہی کوئی جوابدہی یا احتساب کا نظام ہوگا تو معاشرے میں اصلاحات اور اس کو بنیاد بنا کر نظام میں تبدیلی کا عمل کیسے ممکن ہوگا۔ اس وقت مجموعی طور پر حکومتی ، ادارہ جاتی اور ریاستی نظام میں سیاسی اورنوکرشاہی بونوں کا قبضہ ہے یا ایسے لوگ ہمارے نظام میں مختلف شکلوں میں غالب ہوگئے ہیں جو نااہل بھی ہیں، فردسودہ نظریات کے حامل اور عمررسیدہ ہوچکے ہیں، لیکن طاقت ور عہدوں سے چمٹے ہوئے ہیں، ان میں اب کچھ نیاکرنے کی لگن ، شوق، امنگ اور جستجو باقی نہیں رہی۔ ایک ہی بیانیہ طاقت ور حلقوں یا فیصلہ سازی یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں یا سول سوسائٹی سمیت میڈیا پر غالب ہے کہ یہ نظام درست نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے خود کو کسی بھی سطح پر تبدیلی کے ایجنٹ کار کے طور پر پیش کرنے کے بجائے ہمیں جاری نظام کو ہی قبول کرکے خاموش ہوجانا چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست، جمہوریت اور قانون کی بات تو ہوتی ہے لیکن نظام پر بات نہیں ہوتی ۔ سیاسی جماعتوں میں نئی قیادت اول تو پیدا ہی نہیں ہورہی اور اگر پیدا ہوتی ہے تو وہ بھی پہلے سے موجود سیاسی نظریات کی ہی حامی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں خاندانی انٹرپرائزز ہیں یا شخصیت پرستی کی بنیاد پر ایک فرقہ یا گروہ ہے۔ انھوں نے حالات سے یہ ہی سبق سیکھا ہے کہ ہمیں نظام میں موجود مسائل ومشکلات میں مزاحمت کے بجائے طاقت ور حلقوں کے ساتھ ہی مراسم یا تعلقات بڑھا کر اقتدار کی سیاست میں اپنے حصہ کو یقینی بنانا ہے۔ جب سیاسی نظام میں عوام کی رائے کی اہمیت نہیں ہوگی اور حکومت بنانے یا سیاسی وحکومتی نظا م کو چلانے میں اقرباپروری ، پسند وناپسند کی بنیاد پر نظام یا حکومتوں کی تشکیل کی جائے گی یا حکومتوں کو بنانے یا بگاڑنے یا ختم کرنے کا کھیل ہی بالادست رہے گا اور سیاسی قیادت بھی اسی کا حصہ ہوگی تو پھر سیاست ،جمہوریت کوئی بھی بہتر ساکھ قائم نہیں کرسکے گی ۔ طاقت ور حلقے بشمول سیاسی و مذہبی اشرافیہ، کاروباری، زرعی اور قبائلی اشرافیہ، پیشہ ور پروفیشنل اشرافیہ جس کا حصہ بااثر وکلاء چیمبرز، انجینئرزفرمز، ڈاکٹرزاور آڈٹ فرمزکے مالکان ہوتے ہیں۔ یہ طبقے سیاسی اور انتظامی نظام میں اصلاح کے عمل میں باربار نئے نئے سیاسی تجربات کرتے ہیں یا پھر پہلے سے موجود جماعتوں میں تور پھوڑ کرکے نئی جماعتوں کی سرپرستی میں تشکیل کرتے ہیں تو پھر نہ تو سیاسی جماعتیں مضبوط ہونگی اور نہ ہی سیاست و جمہوریت کا کوئی بہتر بھلا ہوسکے گا۔ سیاست ،جمہوریت ، آئین و قانون کی حکمرانی کے نعروں کو ریاستی ،حکومتی یا سیاسی نظام عملی طور پر بطور ہتھیار کے استعمال کرتے ہیں ۔عوامی مفادات کی سیاست یا عوامی خواہشات سمیت ریاستی مفاد کی بنیاد پر موجود ایجنڈا مجموعی طور پر ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ سیاست میں روداری کا خاتمہ اور تنقید کے مقابلے میں تضحیک کا پہلو یا سیاسی تنقید کے مقابلے میں سیاسی دشمنی کا پہلو غالب ہوچکا ہے ۔لوگوں میں سیاسی نظام حکومتی ہو یا ریاستی ان سے لاتعلقی بھی ہے اور مایوسی بھی کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اجتماعی طور پر جو کچھ بھی اس نظام میں ہورہا ہے، وہ ہمار ے خلاف ہے ۔ حکومتی نظام سے لوگوں کی لاتعلقی کی خلیج کم ہونے کے بجائے تواتر کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ اس وقت بھی یہ سوچا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے بعد ریاست کیا حکمت عملی کو اختیار کرے ۔کیا ان ہی روائتی جماعتوں کو ایسے ہی کام کرنے دیا جائے یا پھر کسی نئے تجربے کو بنیاد بنا کر نئے سیاسی رنگ بکھیرے جائیں ۔ بظاہر حکومت او ران کی اتحادی جماعتیں مضبوط ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی ان کی خوب دوستی ہے ۔اپنی مرضی کی آئینی ترامیم کی جاچکی ہیں۔ پی ٹی آئی کو بھی دیوار سے لگادیا گیا ہے مگر اس کے باوجود یہ سیاسی بندوبست کئی محاذوں پر مشکلات کا شکار ہے ۔مجموعی طور پر حکمرانی کا یہ نظام ایک بوجھ بن گیا ہے اور اسے درست کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا جارہا ہے یا سوچا جارہا ہے، وہ بھی عملیت پسندی کے مقابلے میں خواہش کی بنیاد پر ہے۔ پاکستان کی سیاست اور ریاست کو ایک ایسے بیانیہ کی ضرورت ہے جس کی بنیاد سیاسی ،جمہوری ، آئینی و قانونی بھی ہو اور وہ ایک ایسے نظام جس میں معیشت بھی ہو ، سیکیورٹی بھی ہو، ادارہ جاتی بالادستی بھی ہو اور عوامی مفاد کا غلبہ بھی ہو ۔یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم اس نظام کو آئینی و قانونی یا سیاسی وجمہوری بنیاد پر چلائیں۔ہمیں خود کو تجربہ گاہ بنانے کے بجائے دنیا کے تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ انھوں نے کیسے خود کو بہتر بنایا اور ایک ایسے نظام کو ممکن بنایا جس نے ان کی حکمرانی کے نظام کی ساکھ قائم کی ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل