Thursday, November 21, 2024
 

بھارت کا پہلا ہائپرسونک میزائیل

 



ہمارے جنگجو پڑوسی نے حالیہ 12 نومبر کو ’’طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائیل ‘‘ (Long Range Land Attack Cruise Missile) اور 16 نومبر کو ’’طویل فاصلے تک مار کرنے والے اینٹی شپ میزائیل‘‘ (Long Range Anti-ShipMissile) کے تجربے کیے۔ پہلا بھارتی میزائیل سب سونک (Subsonic) اور دوسرا ہائپر سونک (Hypersonic) ہے۔ بھارت کے سائنسی و تحقیقی ادارے باہمی شراکت سے بہ سرعت نت نئے میزائیل تیار کر رہے ہیں اور مودی حکومت ان کو کثیر سرمایہ فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ جدید ترین ، موثر اور کارگر میزائیل ایجاد کر سکیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کو خبردار ہو جانا چاہیے۔ ہمیں بھی جدید اور بہتر میزائیل تیار کرنے ہوں گے تاکہ بھارتی حکمران طبقے کی جنگجوئی کا مقابلہ کیا جا سکے جس نے دل سے قیام پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ انتہا پسند تنظیم، آرایس ایس کے رہنما تو کھلے عام اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ عربی زبان میں نہ ہونے کے باعث یہ عرب حکمرانوں تک نہیں پہنچ پاتیں جو معاشی مفاد کے سبب بھارتی حکمران طبقے کے قریب ہو رہے ہیں۔ یہ اشد ضروری ہے کہ تمام پاکستانی ذاتی یا گروہی مفادات پس پشت ڈال کر پاکستان کی تعمیر وترقی پر کمربستہ ہو جائیں تاکہ طاقتور دشمن کی جنگجوئی اور سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا جا سکے۔ بھارتی اداروں کا ہائپرسونک میزائیل بنا لینا خاص طور پہ تشویش ناک ہے۔ یہ میزائیل آواز سے پانچ تا پچیس گنا زیادہ رفتار سے اڑتے ہیں۔ گویا وہ ایک میل کا فاصلہ ’’صرف پانچ سیکنڈ سے ایک سیکنڈ کی چند ساعتوں ‘‘میں طے کر لیتے ہیں۔ انتہائی تیزرفتاری کے سبب ان ہائپرسونک میزائیلوں کو ریڈار کے ذریعے شناخت کرنا اور پھر مار گرانا مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔ ان کو تیار کرنے کے لیے خصوصی ٹیکنالوجی اور سامان درکار ہوتا ہے اور کثیر سرمایہ بھی۔ اسی لیے صرف بڑی طاقتیں ، امریکا، روس اور چین ہی باقاعدہ اور مستند ہائپرسونک میزائیل بنا پائے ہیں۔ اب بھارت کا دعوی ہے کہ وہ بھی ایک ہائپرسونک میزائیل ایجاد کر چکا جو طویل فاصلے تک مار بھی رکھتا ہے۔ گویا یہ اس کی ایک اور خاصیت ہے۔ امریکا ،روس اور چین نے ایسے بلاسٹک میزائیل بھی بنا رکھے ہیں جو ہائپرسونک رفتار رکھتے ہیں۔ ہائپرسونک میزائیل اور بلاسٹک میزائیل میں فرق یہ ہے کہ آخرالذکر بہت اوپر جا کر تیر کی طرح سیدھے نشانے کی سمت نیچے بڑھتے ہیں۔ جبکہ ہائپرسونک میزائیل فضا کی نچلی سطح پر پہنچ کر اِدھر اُدھر حرکت (maneuver) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ صلاحیت اسے ریڈاروں اور حملہ آور میزائیلوں یا طیاروں کی گولیاں سے بچاؤ میں مدد دیتی ہے۔ ہائپرسونک میزائیل کی دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم’’ ہائپرسونک گلائیڈ وہیل‘‘ (Hypersonic glide vehicle )کہلاتی ہے۔ اس میزائیل کو پہلے راکٹ کے ذریعے بلندی تک پہنچایا جاتا ہے۔ پھر راکٹ سے نکل کر ہائپرسونک میزائیل پوری رفتار سے اپنے ٹارگٹ کی سمت بڑھنے لگتا ہے۔ دوسری قسم کے ہائپرسونک میزائیل میں سکریم جیٹ (scramjet)نامی ریم جیٹ انجن لگایا جاتا ہے۔ اس خصوصی انجن کی وجہ سے میزائیل ہائپرسونک رفتار حاصل کر لیتا اورفضا کی نچلی سطح پر اڑ سکتا ہے۔ ’’براہموس دوم‘‘ بھارتی اسلحہ ساز اور سائنسی وتحقیقی ادارے مل کر دونوں اقسام کے ہائپرسونک میزائیل بنا رہے ہیں۔ ان کا بنیادی ایسا میزائیل ’’براہموس دوم‘‘ (BrahMos-II) ہے۔ یہ سکریم جیٹ سے چلنے والا ہائپرسونک میزائیل ہے۔ خیال ہے کہ اس کی حد مار پندرہ سو کلومیٹر ہو گی۔ یہ ماخ 8 کی رفتار سے سفر کرے گا۔ گویاصرف 1.7 سیکنڈ میں ایک میل پار کر جائے گا۔ یہ روسی اسلحہ ساز کمپنی کے تعاون سے بن رہا ہے اور ابھی زیرتکمیل ہے۔ بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ اس میزائیل کے ذریعے زمینی ، فضائی اور بحری … ہر قسم کے نشانوں کو تباہ کیا جا سکے گا۔ بھارتی ہائپرسونک گلائیڈ وہیل ایچ جی وی ۔ 202 ایف (HGV-202F) ہائپرسونک گلائیڈ وہیل ہے جسے بھارتی کمپنی، ایچ ٹی این پی انڈسٹریز تیار کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ میزائیل اگنی چہارم یا اگنی پنجم بلاسٹک میزائیلوں کے ذریعے فضا میں بلندی تک پہنچایا جائے گا اور پھر وہاں سے یہ اپنے ٹارگٹ کی جانب بڑھے گا۔ ایچ جی وی ۔ 202 ایف میں تین سو کلو وزنی بم لادا جا سکے گا۔ جبکہ اس کا وزن ڈیرھ ٹن ہو گا۔ اس کی حد مار ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس کی رفتار بیس اکیس ماخ ہونے کا بھارتی دعوی ہے۔ گویا یہ ہائپرسونک گلائیڈ وہیل صرف 0.44 سیکنڈ میں ایک میل پار کر جائے گا۔ تجرباتی ہائپر سونک وہیل بھارت میں عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق کرنے والے سب سے بڑے سرکاری ادارے، ڈرڈو ( Defence Research and Development Organisation) نے سکریم جیٹ انجن سے چلنے والا ایک تجرباتی ہائپر سونک ٹکنالوجی ڈیمانسٹر وہیل (Hypersonic Technology Demonstrator Vehicle) بھی بنا رکھا ہے۔ اس کے ذریعے میزائیلوں کی ہائپرسونک رفتار پانے کے لیے مختلف نوعیت کے تجربات کیے جاتے ہیں۔ بھارتی پہلا ہائپرسونک میزائیل ماہرین عسکریات کی رو سے بھارت نے حال ہی میں جس ہائپرسونک ’’طویل فاصلے تک مار کرنے والے اینٹی شپ میزائیل‘‘کا تجربہ کیا ہے ، وہ براہموس دوم اور ہائپر سونک ٹکنالوجی ڈیمانسٹر وہیل پر کیے گئے تجربوں سے اخذ شدہ معلومات کی بنیاد پر ایجاد کیا گیا۔ بھارتی ذرائع کا دعوی ہے کہ اگرچہ یہ بحری جہاز شکن ہائپرسونک میزائیل ہے مگر اس کے ذریعے زمینی اور فضائی نشانے بھی تباہ کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی رفتار خفیہ رکھی گئی ہے مگر وہ ظاہر ہے، پانچ ماخ سے زیادہ ہو گی۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کا پہلا ہائپرسونک میزائیل دراصل ہائپرسونک گلائیڈ وہیل ہے۔ پہلے اسے ایک بلاسٹک میزائیل یا راکٹ کے ذریعے فضا میں پہنچایا گیا اور پھر اس سے نکل کر ہائپرسونک میزائیل نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ ہائپرسونک میزائیل بیس ٹن وزنی، چودہ میٹر لمبا اور تقریباً ڈیرھ میٹر چوڑا ہے۔ فی الحال اس کو بحری جنگی جہاز اور ساحلی بیٹریوں سے چھوڑا جا سکتا ہے۔ لمحہ فکریہ  درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ اپنے جنگی جنون کی بنا پر جدید ترین میزائیل بنانے کے لیے عسکری تحقیق کی اپنے اداروں کو کھل کر رقومات دے رہا ہے۔ پھر اب تو اس کو روس کے علاوہ اسرائیل ، امریکا اور یورپی ممالک کی عسکری ٹیکنالوجی تک بھی رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ پاکستان کو حسب روایت اس ضمن میں جدید میزائیل بنانے کے لیے اپنا دائرہ کار اس حد تک ضرور پھیلانا چاہیے کہ بھارتی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط دفاع تشکیل پا جائے۔ یہ منزل پانے کے لیے پاکستانی سائنس دانوں اور سبھی ماہرین کو شدید محنت اور جذبہ حب الوطنی سے کام کرنا ہو گا۔ نیز چین بھی سائنسی وٹکنالوجیکل شعبے میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ پاکستان کم وسائل کے باوجود روایتی، بلاسٹک اور کروز میزائیل بناچکا جو ہمارے عسکری ماہرین کی بہت بڑی کامیابی ہے اور جس پہ وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔ اب انھیں یہ مرحلہ درپیش ہے کہ بعض پاکستانی میزائیلوں کو ہائپرسونک بھی بنایا جائے تاکہ دشمن اس شعبے میں اپنی برتری کا اظہار کر کے غرور وتکبر نہ کر سکے۔ اگرچہ یہ خبریں آ چکی کہ پاک فضائیہ ایک چینی ساختہ ہائپر سونک میزائیل رکھتی ہے ۔ پاکستانی چینی ساختہ ہائپرسونک میزائیل ماہرین عسکریات کے مطابق یہ پاکستانی ہائپرسونک میزائیل ’’سی ایم۔ 400 اے کے جی (CM-400AKG) کہلاتا ہے۔ اس کو چین کی کمپنی، ایوی ایشن انڈسٹری کارپوریشن آف چین نے تیار کیا ہے جس کی رو سے سی ایم۔ 400 اے کے جی پانچ ماخ کی رفتار سے اڑ سکتا ہے۔ یہ فضا سے زمین پر مار کرنے والا میزائیل ہے جسے ہمارے جے ایف 17 تھنڈر میں لگایا جا چکا۔ یہ دو سے تین سو کلومیٹر کی حد مار رکھتا ہے۔ اس میں سکریم جیٹ نصب نہیںبلکہ یہ بلندی سے چھوڑے جانے کے باعث نیچے آتے ہوئے پانچ ماخ تک کی رفتار پا سکتا ہے، خصوصاً جب اُسے راستے میں تیز ہوا کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس پر دو سے تین سو کلو وزنی بم رکھنا ممکن ہے۔ بھارت کے پہلے ہائپرسونک میزائیل کی طرح سی ایم۔ 400 اے کے جی بھی بنیادی طور پہ بحری جہاز شکن میزائیل ہے ، مگر اس کے ذریعے مختلف زمینی ٹارگٹ تباہ کرنا بھی ممکن ہے۔ چین کا سب سے کارگر ہائپرسونک میزائیل’’وائی جے ۔ 21‘‘ (YJ-21) ہے۔ یہ چھ سے دس ماخ کی رفتار رکھتا ہے۔ جنگی بحری جہاز یا ہوائی جہاز سے چھوڑا جاتا ہے اور اس کا ٹارگٹ بھی جنگی بحری جہاز ہوتے ہیں۔ پاکستان یہ ہائپرسونک میزائیل حاصل کرنے کے لیے غوروفکر کر سکتا ہے تاکہ دشمن کی جانب سے بڑھتے خطروں کا سدباب ہو سکے۔ چینی سائنس دانوں کی شراکت سے ہمیں اپنے میزائیل منصوبوں کو مزید وسعت دینا ہو گی تاکہ نئے تقاضوں کے مطابق جدید ترین میزائیل تیار ہو سکیں۔ جنگ وجدل کے میدان میں جنم لیتی تبدیلیاں اشارے دیتی ہیں کہ مستقبل کی جنگوں میں میزائیل اور ڈرون اہم ہتھیار بن جائیں گے۔ روس و یوکرین جنگ اور اسرائیل کے غزہ و لبنان پر حملوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ دونوں جنگوں میں میزائیل ،راکٹ ، ڈرون اور جنگی طیاروں سے کی گئی بم باری ہی زیادہ تر نظر آتی ہے۔ زمین پر بری افواج کا آپس میں مقابلہ اسی وقت ہوتا ہے جب علاقے پر قبضہ کرنا مقصود ہو اور مدمقابل کا بڑا اسلحہ میزائیل، راکٹ، ڈرون اور فضائی بم باری سے تباہ کر دیا جائے۔ لہذا پاکستانی ماہرین عسکریات کو بھی مستقبل کی جنگوں کے جدید ترین ہتھیار بنانے کی طرف خاص توجہ دینا ہو گی جو ابتداً اور زیادہ تر فضا میں ہی لڑی جائیں گی۔ 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل