Loading
رہنما تحریک انصاف ہمایوں مہمند کا کہنا ہے کہ ہمارا گلہ پہلے بھی نہیں تھا ان لوگوں کو جو حکومت ہے یا ساری حکومتی پارٹیاں ہیں ان کو ہمیشہ ہم سے گلہ تھا کہ تحریک انصاف حکومت سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ ان لوگوں نے کہا کہ پاور ہمارے پاس ہی ہے ہم سے بات کرو ہم نے ان کا جو بلف ہیں کال کر کے کہا کہ ہم آپ سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب یہ یاد رکھیں کہ جب مذاکرات ہوتے ہیں تو اس کا بنیادی عنصر یہ ہوتا ہے کہ جو آپ کے بنیادی نکات جن پر پرابلم ہوتی ہے ان کو ڈسکس کرتے ہیں۔ رہنما مسلم لیگ (ن) رانا احسان افضل نے کہا کہ ہماری جماعت پہلے دن سے وزیراعظم شہباز شریف، چاہے وہ اپوزیشن لیڈر ہوں وہ میثاق معیشت کی بات کرتے رہے ملک کے مفاد کے لیے بیٹھنے کی بات کرتے رہے۔ اس کے بعد بھی ایپکس کمیٹی ہو جہاں گنڈاپور بیٹھے تھے انھوں نے کہا کہ ہم کو یہ دھرنوں کی اور تشدد کی سیاست کو چھوڑ کر ہمیں ملکر کام کرنا چاہیے پھر انھوں نے فلور آف دی ہاؤس بھی کہا تو دیکھیں کہ ہم ویسے بھی ہم بہت ساری کولیشن حکومت ہیں، مختلف جماعتوں کے ساتھ بیٹھتے بھی ہیں۔ ایک سوال پران کا کہنا تھا کہ حکومت تو ہمیشہ بات چیت کی بات کرتی رہی لیکن حکومت کا ہمیشہ یہ موقف تھا کہ کنپٹی پر بندوق رکھ کر، بلیک میل کر کے کہ سول نافرمانی ہوگی اور یہ کر دیں گے وہ کردیں گے ایسے مذاکرات نہیں ہوتے۔ ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا کہ جب آپ کسی بھی ملک کی پارلیمنٹیری فارم آف گورنمنٹ کے اندر ہوتے ہیں تو وہاں پر ایک سے زیادہ پولیٹیکل پارٹیز ہوتی ہیں، چاہے آپ ان پارٹیز کی ایگزیسٹنس کو لائک کریں یا ڈس لائک کریں یا ان کے مینی فیسٹو کو لائک کریں یا ڈس لائک کریں لیکن وہ اس پارلیمنٹیری فارم آف گورنمنٹ کے اندر وہ ایک حقیقت ہوتی ہے اور اس حقیقت سے آپ آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جو پچھلی کئی دہائیوں سے جو پالیٹکس ہے وہ ایک دوسرے کے خلاف، ایک دوسرے کی ایگزیسٹنس کے خلاف تھی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل