Tuesday, December 24, 2024
 

کشتی سازی کا فن

 



کراچی فش ہاربر سے متصل کالا پانی میں داخل ہوتے ہی سماعتوں سے لکڑی کی تراش خراش کرنے والے ہیوی آرا مشینوں اور کیلوں کے ذریعے لکڑی کے تختوں کو باہم جوڑنے کےلیے ہتھوڑوں کی آوازیں سماعتوں میں گونجتی ہیں۔ یہاں تیاری اور بسا اوقات مرمت کے مراحل سے گزرنے والی بلند و بالا لانچوں اور کشتیوں کو دیکھ کر ایک لمحے کےلیے ان پر چوباروں اور جھروکوں والے پرانے طرز کے خوبصورت اونچے مکانوں کا گمان گزرتا ہے۔ سمندر کے دوش پر ایک روزہ یا پھر طویل وقت اور ایک ماہ تک مچھلی کے شکار کےلیے جانے والی لانچوں کی تیاری یعنی کشتی سازی کے فن کو برسہا برس سے اپنے کام میں یکتا کاریگر جدید دور کے باوجود روایتی انداز میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کشتی سازی کے اس قدیم فن کی مقبولیت عصر حاضر کے فائبر گلاس کے میٹریل سے تیار کشتیوں کی ایجاد کے باوجود بھی کم نہ ہوسکی، جس کی بنیادی وجہ غالباً یہی ہے کہ یہ لانچیں اور کشتیاں سمندر کے کھارے پانی میں سرد و گرم حالات کے دوران انتہائی آزمودہ ہیں اور ان کی سمندری زندگی 10سے 15سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ کالا پانی پر مقامی سطح کے علاوہ غیرملکی خریداروں کےلیے بھی لانچیں اور کشتیاں تیار کی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال سیکڑوں کی تعداد میں نئی کشتیاں تیار کی جاتی ہیں، تاکہ ماہی گیری کی مقامی صنعت کی طلب کو پورا کیا جاسکے۔ ان ہی لانچوں کے جھرمٹ میں ایک منفرد دیوہیکل لانچ کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ 18 ماہ قبل لانچ کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا، جو اب ایک بلند و بالا کوٹھی نما ڈھانچے کے ساتھ موجود ہے۔ ماہی گیری کی اس لانچ کی تیاری میں مہنگی ترین شیشم اور برماٹیک کی لکڑی کے علاوہ مقامی دیار، پرتل سفیدے، کیکر کی لکڑی جبکہ افریقہ سے درآمد کی گئی مہنگی لکڑی بلاو بھی استعمال کی گئی ہے۔ دیگر کشتیوں کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر لمبی چوڑی اس لانچ کو مقامی زبان میں رچ کہتے ہیں۔ تیاری کے آخری مرحلے میں موجود اس لانچ کی خاصیت یہ ہے کہ زمین اس کی عرش اور بالائی منزل تک فاصلہ 24 فٹ سے زائد ہے۔ 3 منزلہ رچ کی نچلی اور بالائی منازل کو کسی پختہ تعیمرات کی طرز پر دلکش انداز میں بنایا گیا ہے، جس میں مضبوط لکڑی کے ستون، چوبارے، اور جھروکوں کے علاوہ منقش جالیاں بھی موجود ہیں، جس میں مغلیہ فن تعمیر کی جھلک نمایاں ہے۔ 57 فٹ لمبی اور لگ بھگ 50 فٹ چوڑی اس لانچ کو بنانے میں کاریگروں کے ساتھ نگران کی صورت مصروف عمل کشتی ساز فرید عبدالرحمن کے مطابق اس کی تیاری کا عمل گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ 90 فیصد کام مکمل کیا جاچکا ہے، اب صرف رنگ و روغن اور دیگر چھوٹے موٹے کام ہونا باقی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ لانچ بلوچستان کے ماہی گیروں کےلیے تیار کی جارہی ہے، جس کو بڑی مچھلیوں کے شکار کےلیے استعمال کیا جائے گا۔ اس لانچ کو چلانے کےلیے تہہ خانے میں 580 ہارس پاور (580 گھوڑوں کی طاقت کے ہم پلہ) کا انجن نصب کیا گیا ہے۔ فرید کے مطابق انھوں نے بڑی کشتیوں اور لانچوں کی تیاری کا فن اپنے پرکھوں سے سیکھا ہے۔ اس سے قبل یہ کام ان کے دادا اور والد کیا کرتے تھے۔ اب یہ فن چوتھی پیڑھی کو منتقل ہوچکا ہے اور ان کا بیٹا سراج بھی ان کے ساتھ شامل ہوچکا ہے۔ فرید کے مطابق اس لانچ کے عرشے کے عین نیچے مچھلی کو ذخیرہ کرنے کے دو بڑے حجم کے ٹینکس موجود ہیں، جو مکمل طور پر کولنگ سسٹم کے حامل ہیں۔ اس لانچ پر بیک وقت 50 ماہی گیر کھلے سمندر میں سفر کرسکتے ہیں۔ اس سے قبل کالا پانی کی کشتی سازی کی اس جیٹی پر دبئی اور ایران کےلیے اَن گنت کشتیاں بنائی جاچکی ہیں۔ یہاں اکثر بننے والی کشتیوں کا معائنہ کرنے کےلیے عرب شیوخ بھی آتے ہیں، جو اکثر و بیشتر بہترین کام پر خوش ہوکر انھیں شاباشی بھی دیتے ہیں۔ فریدالرحمٰن کے مطابق اس سے قبل انھوں نے ایران کےلیے70 فٹ کی لانچ تیار کی تھی اس کی مکمل تیاری پر 4 سال کا عرصہ لگا تھا۔ فرید نے اس بات کا شکوہ کیا کہ یہ فن ویسے سینہ بہ سینہ لوگوں میں منتقل ہورہا ہے، مگر حکومتی سطح پر ان کےلیے کسی بھی قسم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ فرید نے لانچ کی مکمل تیاری کے بعد پانی میں اتارنے کے عمل کو کافی مشکل مرحلہ قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ والا مرحلہ عموماً ایک بڑی کرین کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ یہ تیکنیکی لحاظ سے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، کیونکہ جب تک لانچ پانی میں مکمل طور پر نہیں اتر جاتی اس وقت تک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ خدانخواستہ کچھ گڑبڑ نہ ہوجائے، کیونکہ اس میں کچھ کٹھن صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کشتی سازوں کے مطابق ایک لانچ 40 لاکھ سے لے کر کئی کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہوتی ہے۔ مچھلی کے شکار کےلیے مختلف لانچیں اور کشتیاں سمندر میں شکار پر جاتی ہیں۔ اس میں سب سے چھوٹی لانچ ’’ٹکڑی‘‘ کہلاتی ہے، جس میں صرف 2 ماہی گیر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ہوڑی‘‘ کا عملہ عموماً 5 ماہی گیروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ بڑی لانچوں کی ترتیب ’’ڈونڈے‘‘ سے شروع ہوتی ہے، جو کہ 10 سے 12 فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اس میں بیک وقت 8 ماہی گیر سوار ہوتے ہیں۔ ایک لانچ کو ’’ہوڑا‘‘ کہا جاتا ہے، جو کہ 16 فٹ سے 24 فٹ تک لمبا ہوتا ہے۔ سب سے طویل و عریض لانچوں میں ’’رچ‘‘ 100 فٹ لمبی ہوسکتی ہے، جبکہ ’’گوجا‘‘ کی لانچ 150 فٹ تک لمبی ہوسکتی ہے۔ بڑی مچھلی کے شکار میں ایک اور لانچ بھی سمندر میں شکار کےلیے روانہ کی جاتی ہے، جس کو اس کے مخصوص جال کی وجہ سے ’’قطرے کی لانچ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لانچ 65 ماہی گیروں کے ہمراہ شکار پر نکلتی ہے۔ اکثر و بیشتر ان ماہی گیروں کو نادر و نایاب نسل کی مہنگی ترین سوا مچھلی کا کیچ بھی مل جاتا ہے۔ اس دن کھلے سمندر میں ان کی گویا عید ہوجاتی ہے کیونکہ سوا مچھلی کا گوشت کروڑوں روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ ایک کشتی یا لانچ کی عمر بالعموم 12 سے 15 سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ تاہم جتنا گڑ اتنا میٹھا کے مصداق مہنگی لکڑی سے تیار کی جانب والی کشتی زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ کشتی سازی کا سب سے پہلا اصول پیندے میں ایک خم دار لکڑی ’’پتھان‘‘ کو اس کی جگہ پر نصب کرنا ہوتا ہے۔ کشتی کے اگلے حصے میں ایک اور خم دار لکڑی ’’مہرہ‘‘ نصب کیا جاتا ہے، اور سب سے نچلے حصے میں ایک اور لکڑی ’’سکھان‘‘ نصب کی جاتی ہے۔ یہ تینوں لکڑیاں ایک دوسرے میں باہم پیوست ہوتی ہیں، جس کے بعد انجن کے ساتھ منسلک پروپیلر (پنکھے) کے شافٹ کے قریب لانچ کا رخ موڑنے والا تختہ نصب کیا جاتا ہے۔ لانچ یا کشتی کی مکمل تیاری کے دوران ہی اس کی بالائی اور نچلی منزلوں پر کشمیری فن کے کارونگ کا خوبصورت منقش کام کروایا جاتا ہے۔ شیشم اور لکڑی کے دل آویز کام کے بعد ایک خوبصورت امتزاج ابھرتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل