Friday, January 10, 2025
 

شکریہ ٹرمپ

 



امریکی صدر ٹرمپ کی صدارت کا منصب سنبھالنے میں اب تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ لیکن انھوں نے کافی حد تک اپنا ایجنڈا کلیئر کر دیا ہے۔ اس ایجنڈے میں ابھی تک پاکستان کا کوئی ذکرنہیں۔ یہ کافی حد تک اچھی بات ہے کہ ٹرمپ کے ایجنڈے میں کہیں بھی پاکستان نہیں ہے۔ وہ کینیڈا کو امریکا کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پانامہ کینال واپس لینا چاہتے ہیں۔ وہ یورپ سے اتحاد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ روس یوکرین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی غزہ میں فتح چاہتے ہیں۔ وہ میکسیکو سے لوگوں کا آنا بند کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے ناجائز مقیم لوگوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔ وہ چین سے معاشی جنگ چاہتے ہیں۔ وہ چینی الیکٹرک گاڑیوں پر امریکا میں ٹیرف لگانا چاہتے ہیں۔ وہ نیٹو میں امریکا کے پیسے لگانا بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں کہیں بھی پاکستان نہیں ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ایک دفعہ ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ لوگ اپنی قیمتی چیزیں اٹھا کر محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے لگے۔گاؤں میں ایک فقیر چھت پر چڑھ کر ناچ رہا تھا۔ لوگ پریشان تھے اور وہ ناچ رہا تھا، گانے گا رہا تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا سب طرف پریشانی ہے۔ لوگ اپنی اپنی قیمتی چیزیں لے کر بھاگ رہے ہیں۔ تم کیوں ناچ گا رہے ہو۔ اس نے کہا میری پاس کچھ ہے ہی نہیں۔ میں فقیر ہوں۔ لیکن آج ہی تو فقیری کا مزہ آیا ہے۔  پاکستان تو اس وقت امریکا سے کوئی ایڈ نہیں لے رہا۔ ملٹری ایڈ بھی بند ہو چکی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں جب بانی تحریک انصاف پاکستان کے وزیر اعظم تھے پاکستان کی ملٹری ایڈ ختم کر دی تھی۔ اس کے بعد بائیڈن نے دوسرے شعبوں میں ملنے والی ایڈ بھی بند کر دی تھی۔ اب یو ایس ایڈ کا حجم 200ملین ڈالر سے بھی کم ہے۔ جو کسی خاطر میں ہی نہیں آتا۔ جہاں ایک طرف 200 بلین ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں 200ملین ڈالر کی کیا اہمیت۔ یہ امریکا کو بند کر کے کوئی فائدہ نہیں۔ اور اگر بند بھی ہو جائے تو ہمیں کوئی نقصان نہیں۔ اس لیے اس محاذ پر پاکستان کے لیے فکر کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی خسارہ بھی کوئی خاص نہیں۔ امریکا ہمیں 3.2بلین ڈالر برآمدات کرتا ہے اور ہم سے 6بلین ڈالر کی درآمدات کرتا ہے۔ اس لیے سارا تجارتی خسارہ تین بلین ڈالر سے بھی کم ہے۔ ہم خیر سے کوئی سبسڈی نہیں لیتے۔ ہماری کوئی سبسڈی ختم نہیں ہو سکتی۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان کو ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ٹرمپ کی اس پالیسی کا ویسے تو پاکستان پر کوئی اثر نہیں۔ ابھی تو ہمیں ہماری فاقہ مستی کا مزہ آئے گا۔ پاکستان کو شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ٹرمپ نے افغان طالبان کو ملنے والی امریکی امدادکو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کو امریکا کی جانب سے چالیس بلین ڈالر کی امداد مل رہی تھی۔ امریکا طالبان کی افغان حکومت کو مدد دینے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اب ٹرمپ نے یہ امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کے لیے خوش آئند ہے۔ اسی امداد کی وجہ سے تو افغان طالبان پاکستان کے کنٹرول سے بھی باہر ہوئے تھے۔ چین نے بھی کافی امداد دی ہے لیکن وہ امریکا سے کم ہے۔ اس لیے جب پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ بند کرتا ہے تو افغان طالبان اس کو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ امریکا سے بڑی امداد مل رہی تھی۔ اس لیے اگر یہ امداد بند ہو جاتی ہے تو افغان طالبان شدید مالی بحران میں آجائیں گے۔اس لیے ابھی تک ٹرمپ پاکستان کے لیے خوش آئند ہی ہیں۔ ہمارے لیے اس وقت افغانستان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ لیکن اس بار ان کا رویہ کافی مختلف تھا۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی امداد تھی۔ افغان کرنسی بھی اسی امداد کی وجہ سے مستحکم نظر آرہی تھی۔ اس لیے وہاں کوئی بحران بھی نظر نہیں آرہا تھا اورانھیں پاکستان سے کسی قسم کے تعاون مانگنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھے۔افغانستان کے لیے صرف امریکی ڈالر بند ہونے دیں۔ ٹرمپ دنیا سے ایک معاشی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے اتحادیوں اور دشمنوں سے بھی معاشی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ میں سب سے پہلے وہ ان ممالک کو نشانہ بنا رہے ہیں جو امریکا سے معاشی فوائد اٹھا رہے ہیں وہ اس کو بند کرنا چاہتے ہیں۔دوسرا، وہ ممالک ہیں جن کو امریکا معاشی فوائد دے رہا ہے، وہ اس کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان دونوں فہرست میں نہیں۔ نہ ہم مفاد لے رہے ہیں اور نہ ہی ہم مفاد دے سکتے ہیں۔ اس لیے آپ سمجھیں ہماری غربت بھی اس وقت ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں۔ ہماری کوئی اہمیت ہی نہیں، ہمارا کوئی ذکر ہی نہیں۔ آپ سمجھیں ٹرمپ کے ایجنڈے میں ہم کہیں ہے ہی نہیں۔ کسی بھی لسٹ میں پاکستان کا نام ہی نہیں۔ پاکستان کی حکومت کو تو فوری طور پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ان کی پالیسی کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل