Saturday, July 06, 2024
 

جاپان کی اعلیٰ عدالت نے جبری نس بندی قانون کو غیرآئینی قرار دے دیا

 



 ٹوکیو: جاپان کی اعلیٰ عدالت نے جبری طور پر نس بندی کا قانون غیرآئینی قرار دے دیا، جس کے تحت 1948 سے 1996 کے دوران ہزاروں افراد متاثر ہوئے اور انہیں ہرجانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔

غیرملکی خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ٹوکیو کی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ریاست کے لیے تاوان کی ادائیگی سے بچنا نامناسب اور ناانصافی ہوگی اور مکمل طور پر ناقابل برداشت ہوگا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ غیرفعال نس بندی کے قانون کے حوالے سے جاپان کی سپریم کورٹ نے بھی قرار دیا تھا کہ 20 سال کی حد پر قائم قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

عدالت کے اس فیصلے کے نتیجے میں برسوں تک قانونی جنگ لڑنے والے متاثرین کو تاوان کی ادائیگی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔

جاپان کی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ اس قانون کے تحت ایک اندازے کے مطابق 16 ہزار 500 افراد کی جبری نس بندی کی گئی تھی اور اس کا مقصد جسمانی لحاظ سے کمزور افراد کی نس بندی کرکے ان کی نسل محدود کرنا تھا۔

رپورٹس کے مطابق اضافی طور پر 8 ہزار 500 افراد کی نس بندی ان کی منشا کے مطابق کی گئی تھی تاہم وکلا کا خیال ہے کہ وہ کیسز بھی ممکنہ طور پر جبری نس بندی میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کو انفرادی طور پر دباؤ برداشت کرنا پڑا تھا۔

خیال رہے کہ 1953 میں قائم جاپان کی حکومت کے ایک نوٹس میں کہا گیا تھا کہ نس بندی کے لیے زبردستی، بے ہوشی یا دھوکا بھی دیا جاسکتا ہے۔

جاپان کے مذکورہ قانون سے متاثر ہونے والے شہری سابورو کیتا نے صحافیوں کو عدالت کے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ آج یہاں بہت سارے لوگ موجود نہیں ہیں، ان میں وہ بھی شامل ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، میں اپنے والدین کی قبر میں جا کر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم جیت چکے ہیں۔

سابورو کیتا کو اس وقت نس بندی کے عمل سے گزارا گیا تھا جب وہ ایک مشکلات کے شکار بچوں کے لیے بنائے گئے ایک گھر میں رہائش پذیر تھا اور محض 14 سال کا تھا جبکہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو اس حوالے سے 2013 میں ان کے انتقال سے مختصر عرصہ قبل بتایا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے پر اس وقت بھی مکمل احساس نہیں پایا جاتا، میں اپنے وکلا کے ساتھ مل کر اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا۔

عدالت کے باہر کئی متاثرین موجود تھے جو فیصلے پر جشن منا رہے تھے اور ان میں سے چندایک وہیل چیئر پر تھے۔

واضح رہے کہ 1996 میں مذکورہ قانون کو غیرفعال کرنے سے پہلے 1980 سے 1990 کی دہائیوں کے دوران اس طرح کے آپریشن کی تعداد میں کمی لائی گئی تھی۔

جاپان کی تاریخ کا یہ سیاہ باب 2018 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک 60 سالہ خاتون نے اس آپریشن کے حوالے سے حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا اور وہ اس عمل سے 15 برس کی عمر میں گزری تھیں۔

متاثرہ خاتون کے بعد جاپان میں اس طرح کے مقدمات کی بھرمار ہوئی تھی۔

بعدازاں 2019 میں حکومت نے معافی مانگی تھی اور قانون بھی منظور کرلیا تھا جس کے تحت ہر متاثرہ فرد کو 32 لاکھ جاپانی ین (20 ہزار امریکی ڈالر) ادا کرنے کی منظوری دی تھی۔

دوسری جانب متاثرین حکومت کے اس اقدامات کو مذکورہ عمل کی حساسیت سمجھنے میں تاخیر قرار دیتے ہوئے عدالت میں اپنی جدوجہد جاری رکھی تھی جبکہ ججز بھی اس حوالے سے منقسم تھے تاہم اب اعلیٰ عدالت نے اس قانون کو غیرآئینی قرار دے دیا۔

 

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل