Loading
(تحریر: سہیل یعقوب) آج کی اس تحریر کی تحریک کراچی میں منشیات کا ایک اہم کیس بنی ہے۔ ویسے تو ہمیں اگر اپنا حال اور مستقبل عزیز ہوں تو منشیات کا ہر کیس انتہائی اہم ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے اس ملک میں کیس جرم کی نوعیت کے بجائے جرم کرنے والے کے معاشی، سیاسی، سماجی اور کاروباری قد کاٹھ پر اس کا تعین ہوتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو یہ کیس واقعی ایک ہائی پروفائل کیس ہے۔ یہ کیس اتنا ہائی پروفائل ہے کہ اس کیس میں پولیس نہ صرف اب تک اپنی کوتاہی کا اقرار کرچکی ہے بلکہ ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعتراف کررہی ہیں کہ اس کیس سے جڑے کردار اس کےلیے مسائل کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس بات کو آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے کہ یہ لوگ پولیس سے بھی بڑے اور طاقتور ہیں۔ گویا قانون کو بھی ان کے آگے اپنی کم مائیگی کا احساس ہورہا ہے۔ اب تک اس مقدمے سے متعلقہ لوگ بڑی تعداد میں ملک چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے منہ دیکھ رہے ہیں اور منہ دیکھ کر فرار ہونے دے رہے ہیں۔ اس کیس سے ملتا جلتا ایک سچا واقعہ جو شاید آج بھی بہت سے گھروں کی کہانی ہو۔ ایک متوسط طبقے کے محلے میں ایک صاحب اپنے ایک محلے دار کو روک کر ان سے کہتے ہیں کہ ابھی پچھلے دنوں میں ایک محلے سے گزر رہا تھا تو وہاں کچھ لڑکے کسی کو لوٹ رہے تھے اور ان لٹیروں میں مجھے آپ کا بیٹا بھی نظر آیا تھا۔ میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ یہ بات کیسے آپ کے گوش گزار کروں، ویسے تو آپ کا یہ بیٹا ہر روز نئی نئی موٹر سائیکل چلاتا نظر آتا ہے اور اس کے ہاتھ ایک سے ایک قیمتی فون ہوتا ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس پر نظر رکھیں کہ کہیں کچھ الٹا سیدھا نہ ہوجائے۔ دوسرے صاحب نے بیچارگی سے کہا کہ مجھے اس کے سارے مشاغل اور کاروبار کا علم ہے۔ اس پر پہلے والے صاحب نے حیرت سے کہا کہ آپ اس کو روکتے کیوں نہیں ہے؟ تو لڑکے کے والد نے کہا کہ وہی بیٹا تو گھر چلاتا ہے اس کو روک دیا تو گھر میں فاقے ہوجائیں گے۔ یہ تو ایک متوسط طبقے کی کہانی تھی کہ جن کے بچے کبھی نہ کبھی پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں لیکن موجودہ منشیات کا کیس متوسط طبقے کا نہیں ہے۔ یہ تو اس نام نہاد اپر کلاس کا ہے کہ جس میں سب شامل ہونا چاہتے ہیں اور اس کےلیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں، چاہے وہ قانونی ہوں یا غیر قانونی، بس پیسے بننے چاہئیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے اب اس کاروبار میں افراد نے ہی نہیں بلکہ اداروں نے بھی پیسے کو ہی اپنا سب کچھ مان لیا ہے۔ مانا کہ کوریئر کا کام چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہچانا ہے مگر اس میں کم از کم منشیات کی تفریق ضرور ہونی چاہیے۔ جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ منشیات کی ترسیل میں دو کوریئر اداروں کا نام بھی آرہا ہے۔ اب اگر ادارے بھی اس میں بہہ گئے ہیں تو پھر ہماری نوجوان نسل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس اپر کلاس میں جرم کے محرکات کیا ہوتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ اس چھوٹے سے سوال کا بڑا سا جواب دیا جائے، کیا ہم سب اتنی کڑوی حقیقتوں کا سامنا کرنے کےلیے تیار ہیں؟ سب سے پہلے تو والدین کی جانب سے بے جا لاڈ پیار اور حد سے زیادہ چھوٹ اس کا سبب ہے۔ لڑکا جب پہلی دفعہ جرم کرتا ہے تو اس کے والدین ہی اس کے سب سے بڑے محافظ بن جاتے ہیں یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ وہ خود اپنے بیٹے کی قبر کھود رہے ہیں۔ کچھ والدین تو اپنے لڑکوں کے پیار میں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ اعانت جرم کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد اگر کبھی انھیں احساس بھی ہوتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ آج شاید مصطفیٰ عامر کے والدین اسی کیفیت سے دوچار ہوں گے لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے اگر وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر اس پورے واقعے کا جائزہ لیں گے تو اس میں انھیں اپنا کردار صاف نظر آجائے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ خود ہی خود کو اس کا ذمے دار قرار دے دیں۔ آج کل مصطفیٰ عامر کیس کی بڑے پیمانے پر تحقیقات ہورہی ہیں۔ کیا اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟ اگر ہم اپنی قوم کی ماضی کی کارکردگی پر اس کا جواب دیں تو اس کا جواب ’’نہیں‘‘ ہوگا۔ تھوڑے دنوں میں کوئی اور واقعہ ہوگا اور لوگ اس کو بھول جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں جب ان کا کوئی بڑا جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیاجاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔‘‘ (صیحیح البخاری حدیث نمبر 4304) اب اگر اس حدیث کی روشنی میں ہم دیکھیں تو یہ من حیث القوم ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ ہم اگر اب بھی نہیں سدھرے تو ہمیں اپنے انجام کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے اور انصاف لوگوں کی سماجی حیثیت دیکھ کر نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ والدین بھی اپنی ترجیحات کا تعین کریں کہ انھیں مال و دولت عزیز ہے یا اولاد کی زندگی؟ اگر انھیں واقعی اولاد کی زندگی عزیز ہے تو پھر ان پر شیر کی نگاہ رکھنی ہوگی ورنہ دیگر صورتوں میں ان کا کردار اعانت جرم میں شمار کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنے بیٹوں کو ’’صاحبزادہ‘‘ کہنے والے خول سے بھی نکلنا ہوگا۔ کسی صاحب نے بہت خوب کہا ہے کہ بیٹے کو صاحبزادہ کہنا دراصل خود کو صاحب کہلوانے کی بھونڈی کوشش ہے۔ والدین جب تک اپنے بیٹوں کے ذریعے اپنی تشنہ اور غیر قانونی خواہشات پوری کرتے رہیں گے تو پھر اولاد کا تو یہیں انجام ہوگا۔ اب آگے والدین کی اپنی مرضی۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل