Sunday, June 23, 2024
 

حج؛ زندگی میں تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ

 



اسلام کی کامل روح تو یہ ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی مجسم عبادت بن جائے، اس کی چال ڈھال، رفتار و گفتار، نشست و برخاست، انفرادی و اجتماعی معاملات، حتیٰ کہ ہر شعبۂ زندگی اور ہر لمحۂ حیات میں اﷲ تعالیٰ کی مکمل بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی کامل اطاعت کی جھلک نظر آئے۔

ہم نے اپنی زندگی کو دین اور دنیا کے نام سے جن دو خانوں میں تقسیم کردیا ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر ہر مسلمان اپنی زندگی کو اﷲ اور اس کے رسول ﷺکی رضا اور اطاعت کے قالب میں ڈھال لے اور اس کا وجود اﷲ کے بندوں کے لیے وسیلۂ رحمت بن جائے تو اس کی معیشت، تجارت اور سیاست، سب عبادت بن جائے گی اور خوف خدا اور اخلاقی گرفت سے عاری زندگی جو انسانیت کے لیے باعث آزار بن گئی ہے، اس سے نجا ت مل جائے گی۔ لیکن اس عمومی اور جا مع و کامل تصور عبادت کے ساتھ اسلام نے رسمی عبادات کا ایک حکیمانہ اور مربوط نظام بھی عطا کیا جن کا حقیقی مقصد مومن کے قلب میں اس جامع تصور عبادت کو ابھارنا ہے۔ یہ عبادات تین اقسام پر مشتمل ہیں۔

(1) خالص بدنی عبادات: جیسے نماز اور روزہ، یہ بہرصورت ہر بندے کو خود ادا کرنی ہوتی ہیں اور ان میں نیابت کا کوئی تصور نہیں۔

(2) خالص مالی عبادت: جیسے زکوٰۃ اور فطرہ وغیرہ، ان میں نیابت چل جاتی ہے، یعنی کوئی فرد دوسرے کا وکیل یا  نمائندہ بن کی بھی ادا کرسکتا ہے۔

(3) مخلوط عبادات: یعنی جو بدنی بھی ہوں اور مالی بھی، اس میں بھی اصل رو ح تو یہی ہے کہ بندہ خود ادا کر ے، لیکن اگر  مجبوری کے باعث خود ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کی نیابت میں اس کے مصارف پر دوسرا قابل اعتماد آدمی بھی کرسکتا ہے، اسے ’’حج بدل‘‘ کہتے ہیں۔

حج کے معنیٰ و مفہوم

لغت میں حج کے معنیٰ ہیں، کسی قابل تعظیم چیز کا قصد کرنا  اور اصطلاح شریعت میں عبادت کی غرض سے بیت اﷲ کے قصد کو حج کہتے ہیں۔  اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بیت اﷲ کا حج کرنا لوگوں پر اﷲ کا حق ہے، جو بھی وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص سفر خر چ اور سواری پر قادر ہو، جس کے ذریعے وہ بیت اﷲ تک پہنچ سکے اور اس کے باوجود وہ حج نہ کر ے تو عملاً اس سے کو ئی فر ق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مر ے یا نصرانی ہوکر مر ے۔‘‘

حج: ایک کیفیت جذب و جنوں

یہ سوال ہر ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ طویل اور تکلیف دہ سفر کرکے مسلمانوں کو ایک مقام پر جمع کرنے میں آ خر کیا راز پنہاں ہے؟ سب لوگوں کو ان کا روایتی لباس اتروا کر دو چا دریں پہنا دینے میں کیا مصلحت ہے؟ آخر اس میں کیا حکمت ہے کہ لاکھو ں انسان دیوانہ وار پتھر کی ایک عمارت کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں؟ دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑ رہے ہیں؟ ایک خاص دن اور تا ریخ کو ایک خاص مقام پر پو را شہر آباد ہوتا ہے اور شام کو اجڑ جاتا ہے۔ لاکھوں لو گ پتھروں کے علامتی ستون پر کنکریاں برسا رہے ہیں، ایک خاص مقام پر ایک ہی دن لا کھوں لوگ جمع ہو کر لاکھو ں جانوروں کی قربانی پیش کر تے ہیں،آخر کیوں؟

یہ سارے انداز یہ بتاتے ہیں کہ حج معمول کے شب و روز کا نام نہیں، بلکہ معمول کی زندگی کو تر ک کر کے مجاہدانہ انداز سے کیمپ لائف گزارنے کا نام ہے، ایک محدود عرصے کے لیے لباس، رنگ، علاقائیت، زبان اور نسب و نسل کے تمام امتیازات کو کلی طور پر ترک کردینے کا نام ہے، یہ سب کچھ دراصل امام الانبیاء حضرت ابراہیمؑ، ان کے صاحب زادے حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ کی اداؤں کو اپنانے کا نام ہے۔

عالمی اسلامی اخوت، وحدت و اتحاد اور نظریاتی ہم آہنگی کے بھرپور مظاہرے کا نام ہے ، اور اس عزم کے عملی اظہار کا نام ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کے دین کا تقاضا ہوا تو ہم حضرت ابراہیمؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا سب کچھ اﷲ کی را ہ میں لٹانے کا عزم رکھتے ہیں اور حج اسی عزم مصمم کے اظہار کا نام ہے۔  اگر یہ ’’روح حج‘‘ ہما رے قلب وقالب میں صحیح معنیٰ میں اتر گئی تو ہم نے مقصد حیات پالیا، ورنہ محض مشقت سفر کے سوا اور حکم الٰہی کی ظاہری تعمیل کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہ آیا۔

کعبہ معبود نہیں، جہت عبادت ہے

جب ہم عین بیت اﷲ کی چوکھٹ کے سامنے سجدہ کررہے ہوں تب بھی بیت اﷲ ہمارا مسجود و معبود نہیں ہوتا، مسجود و معبود تو صرف اﷲ کی ذات ہوتی ہے، بیت اﷲ تو صرف ’جہتِ سجدہ ‘ ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے غالباً اس میں حکمت یہ مستور رکھی ہے کہ کعبے کو اپنے انوار و تجلیات کا مرکز بناکر ہمیں اس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے اور اس کے گرد طواف کرنے کا حکم دیا، تاکہ ہم پر کعبے کی برکات کے طفیل اس کی رحمتوں، برکتوں اور انوار و تجلیات کا نزول ہو۔

دوسری حکمت یہ ہے کہ ہماری عبا دت کے لیے مرکزیت، ایک نقطۂ ارتکاز تو جہ ہو، تاکہ ہم مختلف سمتوں کی جا نب بھٹکنے سے محفوظ رہیں۔ اطراف عالم کے مسلمانوں میں ایک مثالی وحدت اور یک رنگی پیدا ہوجائے۔ حضور نبی پاکﷺ نے اسی قبلے کو مومن کی شناخت اور پہچان کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہمارے قبلے کی جانب عبا دت میں رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ ظاہری علامات کے اعتبار سے مسلم ہے۔‘‘

حج: زندگی میں تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ

اسلام چا ہتا ہے کہ حج مومن کی زندگی میں تبدیلی لا ئے، بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ بن جائے،گناہوں کو ترک کرکے پاکیزہ زندگی گزارنے کا نقطۂ آغاز ہو۔ بند ہ اپنے رب سے شعوری طور پر ایک عہدوپیمان اور تجدید وفا کا عزم کرکے، صرف سلا ہوا لباس ہی نہ اتارے، بلکہ گناہ کا وہ لباس بھی اتار پھینکے جس میں وہ سر تا پا جکڑا ہوا ہے۔ صر ف دو سفید چادروں پر مشتمل اجلا لباس ہی نہ پہنے، بلکہ ایمان و ایقان اور کردار کو بھی اتنا ہی صاف اور پاکیزہ بنا دے۔ اپنے آپ کو، اپنی رو ح اور جسم کو بھی اسی فطرت سلیم کے سانچے میں ڈھا ل لے جس پر خالق نے اسے پہلے روز تخلیق فر مایا تھا۔

رسول کریم ؐ کا فرمان ہے:’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہو تا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘

یعنی حج کا لباس بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنے آ پ کو گناہوں کی ان آلودگیوں سے دور کرکے جو معاشرے نے اس پر تھوپ دی ہیں، فطرت سے قریب تر، بلکہ اس کے عین مطابق ہوجائے۔

رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے خالص اﷲ کی رضا کے لیے حج کیا اور اس  دوران نہ تو شہوت رانی کی اور نہ ہی گنا ہ کیا تو وہ گنا ہوں سے ایسا پاک وصاف ہوکر لوٹے گا جیسے اپنی پیدایش کے دن گناہوں سے پا ک تھا۔‘‘

ایسے ہی کامل و مکمل حج کو تاج دار انبیاء ؐ نے ’حج مبرور‘ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔‘‘

اگر ہم نے حج سے یہ مقصد حاصل نہ کیا تو گویا ہم نے حج کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، ایسی بے رخ عبادات صرف صورتاً عبادات ہوتی ہیں، حقیقتاً نہیں۔

حج: مشقت کی عبادت ہے

حج بنیا دی طور پر مشقت کی عبا دت ہے۔ اس کی یہ کیفیت آج سے ہزار سال پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ ما ضی میں سفر کی صعوبتیں، زاد راہ کی دشواریاں، موسم کی ناگواریاں،  نکیلے پتھروں اور کانٹوں پر چلنا، پانی کی عدم دست یابی، وسائل کی کمی وغیرہ تھی، جب کہ آ ج مادی لحاظ سے زیادہ راحتیں، بلکہ تعیشات موجود ہیں، لیکن مشقت کی روح آج بھی موجود ہے۔ اس مشقت کا سب سے بڑا سبب انسانوں کا ہجوم، ان کی آسائشوں اور تعیشات کا دل دادہ ہونا، محنت ومشقت کا عادی نہ ہونا، جذبۂ ایثار و قربانی کا فقدان، صرف اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہونا وغیرہ ہیں۔ چناں چہ آ ج طواف، سعی اور رمی جمرات اور منیٰ میں حادثات پہلے سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ حاجی جب حج سے واپس آتا ہے تو اس کی زبان پر شکایات ہوتی ہیں۔

یہ طرز فکر وعمل اس لیے ہے کہ ہم ذہنی طور پر اس عمل کے لیے تیار ہو کر نہیں جاتے کہ ہم ایک سپاہی کی طر ح ’کیمپ لائف‘ میں جارہے ہیں اور ہمیں ایک بڑی مشقت کے عمل سے گزر نا ہے۔ راحت و آرام اور تعیش ہمارا مقصود و مطلوب نہیں ہے۔ اگر ہم ایسی سو چ لے کر جائیں تو پھر ہر بڑی تکلیف ہمیں چھوٹی نظر آئے اور ہمیں یہ احساس ہو کہ حج کے لیے اتنا بڑا اجر اسی تکلیف و مشقت کا انعام ہے۔

منشورانسانیت

حضور نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا:

’’لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یک جا ہو سکیں گے۔

لوگو! اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو، تم میں زیادہ عزت و کرامت والا اﷲ کی نظروں میں وہی ہے جو اﷲ سے زیادہ ڈرنے والا ہے‘‘۔

چناںچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے، نہ گورا کالے سے، ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔ ’’سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔

بس بیت اﷲ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات بدستور باقی رہیں گی۔’’اے قریش! ایسا نہ ہو کہ اﷲ کے حضور تم اس طرح آؤ کہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہوا ہو اور دوسرے لوگ سامان آخرت لے کر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں اﷲ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا‘‘۔’’دیکھو میرے بعد گم راہ نہ ہو جانا کہ آپس میں کشت و خون کرنے لگو، اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے‘‘۔

’’لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو‘‘۔دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں سے روند دیا ہے، زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے کالعدم قرار دیتا ہوں۔ میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا اب میں معاف کرتا ہوں۔

دور جاہلیت کا سود اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے اب یہ ختم ہوگیا ہے۔’’لوگو! اﷲ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا، اب کوئی کسی وارث کے حق کے لیے وصیت نہ کرے‘‘۔ بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر پیدا ہوا، جس پر حرام کاری ثابت ہو، اس کی سزا پتھر ہے، حساب کتاب اﷲ کے ہاں ہوگا۔

’’جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی اپنے آقا کے مقابلے میں کسی کو اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اﷲ کی لعنت‘‘۔ ’’قرض قابل ادائیگی ہے، عاریتاً دی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے، تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کسی کا ضامن ہے وہ تاوان ادا کرے‘‘۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے۔ سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے، خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔’’عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے‘‘۔

دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں، عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو اﷲ کی جانب سے اس کی اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔

’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو، کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لیے وہ کچھ نہیں کرسکتیں چناںچہ ان کے بارے میں اﷲ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اﷲ کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو، میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا ہے‘‘۔’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گم راہ نہ ہو سکو گے۔ اگر اس پر قائم رہے اور وہ اﷲ کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیے گئے‘‘۔

’’سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتادیں جو یہاں نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ کوئی غیرموجود تم سب سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو‘‘۔’’اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (اﷲ کے ہاں) سوال کیا جائے گا۔ بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ’’ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے امانت ’دین‘ پہنچا دی اور آپ ﷺ نے حق رسالت ادا فرما دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی‘‘۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل