Friday, June 28, 2024
 

بُلھے دی نگری 

 



پچھلے برس کی بات ہے، شاید جولائی یا اگست کا مہینہ تھا۔ میں قصور پر اپنا ہوم ورک مکمل کر چکا تو ایک اتوار وہاں جانے کا پلان کیا مگر رات اس قدر تیز بارش شروع ہوگئی کہ جانا کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا۔ ہر طرف ہی جل تھل تھی۔

میری بہت سی بری باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کوئی ایک پروگرام عین وقت پر منسوخ کرنا پڑجائے اور میں اس پر اپنا کام مکمل کر چکا ہوں تو پھر اس سفر سے جی اٹھ جاتا ہے۔ یہی اس سفر میں بھی ہوا۔ آنے والے کسی بھی اتوار کو قصور جانے کو جی نہ چاہا اور ایک سال یوں ہی گزر گیا۔ ایک دن ایسے ہی جانِ من شجاعت کی قصور کی تصاویر نظر سے گزریں تو دل کے کسی کونے میں دبی قصور جانے کی خواہش پھر سے جاگ اٹھی۔

مئی کا آغاز ہوچکا تھا مگر اس اتوار ذرا موسم اچھا تھا۔ صبح سویرے لاہور پہنچا تو اڈے پر ہی ایک باذوق لاہوری ٹکرا گیا۔ فقط ڈیڑھ سو روپے میں طے پایا کہ وہ مجھے اپنی بائیک پر لاری اڈے سے علی ہجویری صاحب کے مزار کے سامنے اتار دے گا جہاں سے مجھے قصور کی گاڑی ملنی تھی۔ بائیک والا باذوق لاہوری شاہی قلعے کی فصیل کے ساتھ ہی مڑنے لگا تو آگے ٹریفک پولیس کھڑی تھی۔

اس نے وہیں سے بائیک موڑی اور مجھے اندرون لاہور کی گلیوں میں لے کر اڑن چھو ہوگیا۔ جو جو پرانی عمارت آتی، اس کے بارے کچھ بتاتا۔ ہیرامنڈی کی طوائفوں کے کچھ فلیٹ راستے میں پڑے تو بتلانے لگا کہ یہ ہیرامنڈی کے فلیٹ ہیں۔ تیسری منزل کے فلیٹ سے ایک ادھیڑ عمر عورت تھوڑا سا کھلا گلا پہنے ٹیرس پر ذرا جھکے ہوئے کھڑی تھی۔

بالوں کو اوپر کی جانب اٹھا کر انھیں پچیس روپے والے کیچر سے باندھا گیا تھا۔ پَھجے کے پائے کے پاس سے گزرے تو اس دکان کے بارے بھی بتلانے لگا۔ گزرتے گزرتے میری نظر ایک تھڑے پر پڑی۔  لکھا تھا یہاں سے اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ مطلب کہ اقبال بھی اسی مکان میں رہتے ہوں گے۔ ہر شے کو محفوظ کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس پر جو بڑا سا دودھ دہی کی دکان کا اشتہار لگا تھا، وہ نہ ہوتا۔ گھومتے گھماتے ہم ٹیکسالی دروازے سے باہر نکل گئے۔ صرف ٹیکسالی دروازے کی ہی چند گلیاں دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ موسم کچھ بہتر ہونے پر مجھے جانِ من شجاعت کو ذرا زحمت دینی چاہیے کہ وہ مجھے لاہور کے ان تاریخی دروازوں کے اندر کی گلیاں دکھائے، جن میں گھومتے ہوئے مجھے جدید دور کا ذرا بھی احساس نہ ہو۔

قصور کی وجہ تسمیہ کے بارے دو روایات مشہور ہیں۔

1۔ قصور کا لفظ عربی زبان کے لفظ قصر کی جمع ہے جس کا معنی محل ہوتا ہے، قصور شہر کو شہنشاہ اکبر کے دور میں قندھار کے پٹھان امرا نے آباد کیا اور یہاں پر اپنے خاندانوں کی رہائش کے لیے الگ الگ قلعہ نما محل تعمیر کروائے۔ انہیں محلات کی وجہ سے قصور کا نام معرض وجود میں آیا۔

پہلے زمانے میں ان کے بڑے بڑے دروازے تعمیر کیے گئے تھے، اب ان کے صرف آثار باقی ہیں۔ یہ محلات بعد میں کوٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔ بہت سے کوٹ اب بھی انہی پرانے ناموں کے ساتھ موجود ہیں، مثلاً کوٹ حلیم خاں، کوٹ فتح دین خاں، کوٹ عثمان خاں، کوٹ غلام محمد خاں، کوٹ رکن دین خاں، کوٹ مراد خاں، کوٹ اعظم خاں، کوٹ بدر دین خاں، کوٹ پیراں، کوٹ بڈھا، کوٹ میر باز خاں، کوٹ شیر باز خاں، روڈ کوٹ اور کوٹ علی گڑھ وغیرہ۔

2۔ رام چندر کے دو بیٹے تھے لوہ اور قص (کس)، لوہ کے نام پر لاہور اور قص کے نام پر قصور کا نام رکھا گیا۔

ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے1526ء میں ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد افغانوں کی خدمات کے صلے میں قصور کا علاقہ ان کو عنایت کردیا۔ یہاں پر زیادہ تر منظم حکومت افغانستان کے پٹھانوں کی رہی ہے جنہیں دہلی یا لاہور حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا، لیکن وہ مقامی طور پر خود مختار حیثیت رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں چین کا ایک مشہور سیاح ہیون تسانگ یہاں پہنچا اور یہاں کے حالات بھی تحریر کیے۔ اس کی تحریر سے ہمیں آثارقدیمہ کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں۔ اس سے قبل قصور کا تاریخی حوالے سے تذکرہ مفقود ہے۔

قصور کی گنڈا سنگھ والا سرحد مشہور ہے۔ یہ انڈیا اور پاکستان کو ملاتی ہے۔ اس کا تقسیم ہند سے قبل قصور کے مضافاتی قصبات میں شمار ہوتا تھا۔ یہاں پر پاکستان اور بھارت کی مشترکہ پرچم کشائی کی تقاریب ہوتی ہیں، جب کہ اس بارڈر کے دوسری طرف بھارت کا شہر فیروزپور ہے۔ اسی طرح 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں فتح ہونے والا بھارتی شہر کھیم کرن بھی ہے۔ یہاں پر ایک بڑی ٹینکوں کی جنگ کے مقام کی وجہ سے ٹینکوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔

قصور کی سیاحت بابا بلھے شاہ کے دربار کے علاوہ اور کہاں سے اور کیوں کر شروع ہو سکتی ہے؟ اصل نام محمد عبداللہ شاہ جب کہ تخلص بلھے شاہ تھا۔ پیدائش کے بارے کوئی مستند سال تو نہیں مگر زیادہ مشہور یہی ہے کہ آپ 1680 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے قصور تشریف لائے۔ قصور پر اس وقت پٹھانوں کی حکومت تھی۔ نہ جانے کہاں سے ایک غلط بات چل نکلی ہے کہ بلھے شاہ اور وارث شاہ دونوں ہم جماعت تھے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ دونوں کے استاد غلام مرتضیٰ تھے، جن کا ایک مقولہ بہت مشہور ہے:

’’مجھے دو عجیب شاگرد ملے۔ ایک بلھے شاہ جسے علم پڑھایا تو اس نے سارنگی پکڑ لی اور دوسرا وارث شاہ جو عالم ہو کر ہیر رانجھے کے گیت گانے لگا۔‘‘

بلھے شاہ بارے ایک اور بات بھی مشہور ہے کہ ان کی والدہ کا جب بیماری کی وجہ سے انتقال ہوا تو دونوں ہمشیرگان بھی صدمے سے انتقال کر گئیں۔ یوں تینوں کا جنازہ ایک ساتھ اٹھا۔

بٹالہ کے شیخ محمد فاضل الدین کے کہنے پر آپ شاہ عنایت قادری کے ہاں تشریف لائے۔ رہتے قصور میں تھے مگر حکم رانوں نے اتنا تنگ کیا کہ قصور چھوڑ کر لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ ذات کے آرائیں تھے۔ قصور کی ایک جامع مسجد میں امامت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔

بلھے شاہ کے شاہ عنایت سے ملنے کے مختلف واقعات کتب میں درج ہیں، جن میں سے ایک سب سے مشہور کچھ یوں ہے کہ شرفِ ولایت کے لیے آپ قصور سے پیدل چل کر لاہور شاہ عنایت کے پاس آئے۔

آپ تب بھاٹی گیٹ کی کسی مسجد کے امام تھے۔ شاہ عنایت نے بلھے شاہ کو لینے سے انکار کردیا۔ بار بار اصرار کرنے پر شاہ عنایت نے شرط رکھی کہ آپ پہلے پانچ صدر روپیہ نقد، پانچ صد روپیہ کا گھوڑا، طلائی کنگن کی جوڑی اور لباس فاخرہ شام تک پیش کریں۔ بلھے شاہ غریب الدیار تھے۔ مایوس ہو کر راوی کا رخ کیا۔ ایک نقاب پوش آیا، اس نے سب چیزیں بلھے شاہ کو سونپ دیں اور اندھیرے میں گم ہو گیا۔ بلھے شاہ، شاہ عنایت کے پاس پہنچے تو بلھے شاہ کے واقعہ بیان کرنے سے پہلے خود شاہ عنایت نے سارا واقعہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ یوں شاہ عنایت نے بلھے شاہ کو قبول کرلیا۔

چوں کہ بلھے شاہ سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور شاہ عنایت ذات کے آرائیں تھے تو خاندان والوں نے بلھے شاہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جس پر بلھے شاہ نے اپنی مشہور نظم کہی۔

بلھے نوں سمجھاون آئیاں             بھیناں تے بھر جائیاں

من لے بلھیا ساڈا کہنا               چھڈ دے پلا آرائیاں

آل نبی اولادِ علی نوں                تو کیوں لیکاں لائیاں؟

جیہڑا سانوں سید سدے            دوزخ ملن سزائیاں

جو کوئی سانوں رائیں آکھے         بہشتی پینگاں پائیاں

رائیں سائیں سبھنی تھائیں          تب دیاں بے پروائیاں

سوہیناں پرے ہٹایاں               تے کوجھیاں لے گل لائیاں

بلھے شاہ کی شاعری میں بغاوت ہے۔ خواہ معاملہ دین کا ہو یا دنیا کے رسم و رواج کا، دونوں جگہ ہی یہ بغاوت آپ کو یکساں ملے گی۔ شاہ عنایت اسی بات پر بلھے شاہ سے ناراض ہوئے اور ان کو اپنے سے دور کر دیا۔ جلد ہی بلھے شاہ کو احساس ہو گیا کہ ان کا دامن مرشد کے فیض سے خالی ہوچکا ہے۔

بلھے شاہ نے ایک مُغَنّی کا روپ دھارا اور قصور سے لاہور آ گئے۔ ان قوالوں سے ملے جو شاہ عنایت کی محفل میں عارفانہ کلام گایا کرتے تھے۔ آپ مغنی کے بھیس میں ہی پیر کی بارگاہ تک رسائی چاہتے تھے۔ قوالوں کی سفارش پر اس مغنی (بلھے شاہ) کو اپنا فن پیش کرنے کا اجازت ملی۔ بلھے شاہ نے مغنیہ کے بھیس میں ہی محفل میں پہنچے اور اپنے درد بھرے لہجے میں اپنی مشہورِزمانہ کافی گانا شروع کر دی۔

چھیتی موہڑیں وے طبیبا نہیں تاں میں مرگیاں

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

آپ کافی گا چکے تو شاہ عنایت نے مغنیہ سے پوچھا:

‘’’تو بلھا ہے؟‘‘ آپ نے کہا:

’’نئیں سرکار میں بھلاواں۔‘‘ یعنی میں بھولا ہوں۔ پیر نے گلے سے لگالیا اور آپ واپس قصور چلے گئے۔

بلھے شاہ کے انتقال کی کوئی حتمی تاریخ معلوم نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ ان کی موت اچانک ہوئی۔ ملاؤں نے ان کی انقلابی فکر و عمل والی شاعری کی بنیاد پر ان کو قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت نہ دی۔ شہر کے نام ور لوگوں نے ان پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور انہیں برادری سے خارج کردیا۔ آپ کا مزار ریلوے روڈ پر ہے جب کہ ہر سال 10 تا 12 بھادوں آپ کا عرس منایا جاتا ہے۔

میں اس حق میں ہوں کہ ہمارے جتنے بھی شعراء اکرام کے مزارات کے ساتھ مساجد ہیں، وہ کسی بھی صورت نہیں ہونی چاہییں۔ خواہ وہ مزار بلھے شاہ کا ہو یا پھر وارث شاہ کا۔ شاہ حسین کا ہو یا پھر کسی اور کا۔ ان سب مزارات کے ساتھ مساجد کا کیا کام؟ یہ ہمارے بہترین پنجابی شعراء تھے۔ ان سب کے مزارات کے احاطے میں ان ہی کا کلام فن کار لوگوں کو پیش کرنا چاہیے۔

دھمال ہونی چاہیے۔ ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے سب کو جھومنا چاہیے بلکہ انسان کا من نہ بھی کرے تو وہ جھوم ہی جاتا ہے مگر جب آپ خواہ مخواہ مساجد کو ان مزارات کے ساتھ نتھی کر دیتے ہیں تو قوالی، دھمال یا پھر ایسی بہت سی چیزوں پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ آپ وہ اشعار خود بھی آزاد ہو کر نہ تو پڑھ سکتے ہیں اور نہ ان سے لطف لے سکتے ہیں جو ان شعراء نے اپنی زندگی میں کہے۔ وہ اشعار ادب کا حصہ تھے اور یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ اچھا ادب آپ کے مذہب کے بھی عین مطابق ہو۔ میں تو خود جب بھی بلھے شاہ کا کلام عابدہ پروین کی آواز میں سنتا ہوں تو بس جھوم جھوم جاتا ہوں اور ذرا سا جھوم لینے میں، ان اشعار سے لطف اندوز ہو لینے میں حرج ہی کیا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ بلھے شاہ کو سنیں اور جھومیں نہ اور بنا موسیقی کے ان خوبصورت اشعار کو سننا بھی کیا اعلٰی درجے کی بد تہذیبی نہیں؟

قسم سے دل جھوم جاتا ہے جب عابدہ پروین کہتی ہے

بلھے شاہ نوں سدوں شاہ عنایت دے بوہے

جنے سانوں پووے چولے ساوے تے سوہے

جامے ماری ہے اڈی سانوں مل گیا پیا

خدا بھلا کرے ان لڑکوں کا جنھوں نے بلھے شاہ کا کلام گایا تھا اور کیسا پیارا گایا تھا۔

بلھے نوں سمجھاون آئیاں             بھیناں تے بھر جائیاں

من لے بلھیا ساڈا کہنا               چھڈ دے پلا آرائیاں

آل نبی اولادِ علی نوں                تو کیوں لیکاں لائیاں؟

جیہڑا سانوں سید سدے            دوزخ ملن سزائیاں

جو کوئی سانوں رائیں آکھے         بہشتی پینگاں پائیاں

رائیں سائیں سبھنی تھائیں          تب دیاں بے پروائیاں

سوہیناں پرے ہٹایاں               تے کوجھیاں لے گل لائیاں

اور وہ ایک بہت پرانی ویڈیو شاید کسی کو یاد ہو جس میں ایک سکھنی بلھے شاہ کا کلام پڑھتی ہے تو سننے والوں پر کیسا سماں طاری ہو جاتا ہے۔

جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا تاں ملدا ڈڈواں مچھیاں ہو

جے رب لمیاں والاں ملدا تاں بھیڈاں سسیاں ہو

جے رب راتیں جاگیں ملدا تاں ملدا کال کڑچھیاں ہو

جے رب راتیں جاگیاں ملدا تاں ملدا دانداں خصیاں ہو

رب اوہناں نوں ملدا نیتاں جنہاں دیاں اچھیاں

اور وہ کون ظالم عاشق ہو گا جو اپنے عشق کے ابتدائی دنوں میں بلھے شاہ کی یہ کافی نہ سنے اور جو نہ سنے اسے اپنے آپ کو عاشق کہلوانے کا کوئی حق نہیں۔

چھیتی موہڑیں وے طبیبا نہیں تاں میں مرگیاں

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

پرانے گھروں میں سب سے پیاری شے ان کے رنگ برنگے شیشوں والے دروازے ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ مجھے اتنا کیوں پسند ہیں۔ رنگوں کی وجہ سے یا پھر رنگوں کی ترتیب اور ڈائزین ہی اس قدر خوب صورت ہوتی ہے کہ ان سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ قصور کے پرانے محلوں کے بارے بھی جب ترتیب بنا رہا تھا تو جانِ من شجاعت نے ایک انتہائی سادہ بات کہی تھی کہ آپ کسی بھی پرانے محلے میں داخل ہوجائیں اور پھر اردگرد خود ہی دیکھتے جائیں۔ جانِ من شجاعت بھی میری طرح ایک سیدھا سادہ بندہ ہے۔ اِسے میں ایسے ہی جانِ من نہیں کہتا، وہ جانِ من ہے تبھی کہتا ہوں۔ میں نے شجاعت کی ہی بات پر عمل کیا۔ ایک گلی میں گھسا تو بس چلتا ہی گیا۔ راستے میں ایک مندر آیا جس کے نیچے والے حصے میں اب یا تو رہائش ہے یا پھر دکانیں۔ ہر طرف یہی عالم ہے۔

ایک تنگ سی گلی کے آخر پر بنے ایک اونچے سے مکان پر نظر پڑی تو وہیں رک گیا۔ مکان کے باہر تو جدید دور کی تحتی لگی تھی مگر بیرونی دیوار پر بنی بے شمار کھڑکیوں کے مختلف رنگوں کے شیشوں نے مجھے اسی وقت جکڑ لیا۔ دل میں خواہش جاگی کہ اس عمارت کو اندر سے دیکھا جانا چاہیے مگر سبیل نظر نہ آئی۔ ایسے میں ایک سیدھا سا نوجوان بائیک پر سے گزرا۔ نہ بول سکتا تھا، نہ سن سکتا تھا۔

مجھے لگتا ہے وہ آٹزم کا بھی شکار تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ ’’ست منزلہ‘‘ کے نام سے مشہور عمارت ہے۔ وجہ تسمیہ سادہ تھی کہ اس میں سات منازل تھیں۔ پیچھے مندر کے پاس ایک چھوٹی سی دکان سجائے اماں جن کی فوٹو میں نے ان کی اجازت سے بنائی تھی، انھوں نے بھی اس عمارت کے بارے میں تلقین کی تھی کہ میں اسے جا کر دیکھوں۔ ست منزلہ کے باہر کسی قسم کی گھنٹی نہیں تھی، ورنہ میں بجا دیتا۔ میرے پاس وہ آٹزم کا شکار سیدھا سا جوان گزرا۔ اشارے سے مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا میں یہ عمارت دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے جوش میں منڈی ہلادی۔ کہنے لگا اوپر چلے جاؤ۔ اب میں اسے اشاروں میں کیسے بتاتا کہ کسی کے گھر میں ہم ایسے ہی داخل نہیں ہوسکتے۔ اس پیارے سے فرشتے نے اپنے ناک پر ہاتھ لگا کہ نفی میں ہاتھ ہلا دیا۔

وہ اشارے میں بتا رہا تھا کہ اس عمارت میں خواتین نہیں ہیں۔ میں مزید خوش ہوگیا۔ پھر اس نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور بھائی بھائی کہتے ہوئے عمارت کے اوپر کی طرف اشارہ کردیا تھا، جس کا مطلب تھا کہ اوپر مرد موجود ہیں۔ میں اور خوش ہوگیا۔ اوپر گئے تو ایک منزل پر دو لڑکے کپڑوں پر ستارے ٹانک رہے تھے۔ ان کی اجازت سے عمارت دیکھی تو دنگ رہ گیا۔ ایک دو منازل ہی بڑی تھیں، باقی سب چھوٹی چھوٹی سی تھیں۔ عمارت تو سادہ سی تھی مگر اس کی کھڑکیوں اور دروازوں پر جو شیشے لگے ہوئے تھے، وہ کمال کا منظر پیش کر رہے تھے۔ کمروں میں کھڑکیاں بہت ہی زیادہ تھیں۔ یوں سمجھ لیں کہ پوری دیوار پر بس کھڑکیاں ہی کھڑکیاں تھیں جن پر مختلف رنگوں کے شیشوں سے ایک منفرد منظر پیش کیا گیا تھا۔

حویلی سات منزلہ ہے۔ اس میں موجود 22 کمرے 637 دروازے کھڑکیاں موجود ہیں۔ دیار اور  ساگوان کی پیش قیمت لکڑی کا عمدہ اور نفیس کام کیا گیا ہے، جو کہ دیکھنے کے لائق ہے۔ آج کل کے ترکھان بھی حیران ہیں کہ اس دور میں ایسا کام آج کل کروڑوں روپے میں ہو جو کہ صرف تخمینہ ہے۔ بہرحال ہر کمرے کو تفصیل سے دیکھنے سے پتا لگا کہ ہر کمرے سے منسلک باتھ روم ہے۔ کچھ کمرے کے ساتھ سویٹ روم بھی ہے۔ ہر منزل پر جانے کے لیے ایسا راستہ ہے کسی بھی منزل کے رہائشی کو پریشان کیے بغیر گزر سکتے۔ ایک چھوٹا کمرہ شاید عبادت گاہ تھا۔ وہ بھی موجود ہے۔

حویلی کی کچھ دروازے ڈبل ہیں جیسا کہ ایک اندر سے دروازہ  اور باہر سے اور۔ ایسے میں گرمی سردی سے بچاؤ اور خوب صورتی میں بھی چار چاند لگ جاتے۔

نہ جانے آپ نے کبھی اس بارے غور کیا ہے یا نہیں کہ پہلے تقریباً ہر مکان ایک حویلی کا ہی منظر پیش کرتا تھا۔ اونچے دروازے، بالکونی، ہوا کے لیے کھڑکیوں کی بہتات۔۔۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ تقسیم سے پہلے کے آج تک میں نے جتنے بھی محلے دیکھے ہیں، خواہ وہ کسی بھی شہر کے ہوں، ان کی گلیاں بہت ہی تنگ ہوا کرتی تھیں۔ سڑکیں بہت ہی کشادہ مگر گلیاں جہاں مکان ہوتے تھے، وہ بہت ہی تنگ۔ یوسفی کی نکاح والی گلی تو آپ سب کو یاد ہی ہو گی۔ ویسے آپ کے خیال میں محلوں کی گلیاں تنگ بلکہ بہت ہی تنگ۔ ایک تو یہ تنگ گلیاں جہاں لوگ بستے تھے۔

ان کے دل بڑے تھے جہاں محبت پیار امن کے پیام بر بستے تھے ایک دوسرے کے سکھ، دکھ درد تکلیف میں ایک دوسرے سے بڑھ کر کام اتے تھے اب جب کہ گلیاں کھلی ہوگئیں مگر دل تنگ ہوگئے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ چار طرف تنگ گلیوں کے سرشام دروازے مقفل کردیے جاتے اور پہرے دار بٹھا دیے جاتے تاکہ کسی ناگہانی آفت سے محفوظ رہا جاسکے زورآور طاقت ور ہوتے جو دروازوں کو توڑ کر شورش برپا کرنا چاہتے، انہیں تنگ گلیوں میں ان کے علاقہ مکین کی اپنے سالاراعلٰی کی ہدایت پر کھولتا گرم پانی تیل اور پتھر اپنی چھتوں پر رکھتے۔  تنگ گلی میں گھڑسوار زیادہ سے زیادہ دو دو کرکے آگے پیچھے داخل ہوسکتے تھے اور وہ ان باسیوں کے ہاتھوں تڑپنے پر مجبور ہوجاتے۔

بابا بلھے شاہ کے مزار سے ہو کر ہم قصور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو وہاں دو ننھے منے فرشتوں سے ملاقات ہوگئی۔ میں قربان جاؤں ان چھوٹے پیارے اور معصوم چہروں پر۔ واللہ جب ان سے ملا تو جیسے زندگی ایک دم سے روشن سی ہو گئی ہو۔ ان چھوٹے فرشتوں سے  قصور جنکشن پر ملاقات ہوئی۔ پورے کا پورا ریلوے ٹریک ہی گند سے بھرا پڑا ہے۔ ایک کا بیگ جوس کے خالی ڈبوں سے بھرا پڑا تھا جب کہ دوسرے کے شاپر میں چند خالی جوس کے ڈبے تھے۔ دونوں ٹریک سے جوس کے خالی ڈبے چن رہے تھے۔ میں نے انھیں اپنے پاس بلایا تو ایک نے ڈر کر خالی ڈبے واپس پھینک دیے۔ میں نے پوچھا کہ یہ خالی جوس کے ڈبے کیوں اٹھا رہے ہو؟ چھوٹا فرشتہ بولا کہ یہ خالی ڈبے یہاں اچھے نہیں لگ رہے۔ ہم انھیں اکٹھا کر کے باہر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیں گے۔

واہ واہ۔ قربان جاؤں ایسی معصومیت پر اور ایسی تربیت پر۔ یقیناً یہی ہے میرے پیارے سے ملک کا روشن چہرہ۔ یہ کاکے سلامت رہیں اور ایسے ہی میرے ملک کا گند صاف کرتے رہیں۔

ننھے منے قصوری زندہ باد۔

ابتدا میں قصور شہر کو بارہ کوٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ان کے نام ذیل میں ہیں:

کوٹ غلام محمد خان، کوٹ عثمان خان، کوٹ حلیم خان، کوٹ رکن دین خان، کوٹ فتح دین خان، کوٹ اعظم خان، کوٹ بدر دن خان، دھور کوٹ، روڈ کوٹ، کوٹ مراد خان، کوٹ امیر باز خان، کوٹ علی گڑھ۔

قصور کے بارے معلومات لینے پر پتا چلا کہ قصور کے قلعہ نما کوٹوں کو ان پٹھان امرا نے آباد کیا جن کے نام پر یہ آباد ہیں۔ ان کے دروازے رات کو بند کردیے جاتے۔ ان بڑے دروازوں میں چھوٹے سے دروازے بھی ہوتے جہاں رات دیر سے آنے والے شناخت کے بعد اندر آتے۔ قصور ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی آباد محلہ ’’ہری ہر‘‘ کی ہیں۔ یہاں ایک مندر ہری ہر تھا۔ مندر تو تاریخ کے پنوں میں کھو گیا مگر اسی کے نام پر اس محلے کا نام آج بھی زندہ ہے۔ یہاں اور قصور کے کچھ دوسرے علاقوں میں آپ کو ان چھوٹے قلعوں کے آثار واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

بھلا زمانہ تھا جب لاہور ماڈل ٹاؤن پارک میں تکیہ تارڑ کی تقریبات ہوا کرتی تھیں۔ لوگ مختلف علاقوں سے تارڑ صاحب کی کتب اٹھائے چلے آتے، ان سے گپ شپ کرتے اور تارڑ صاحب کے جانے کے بعد لوگ ان ہی کی کتب سے اپنا پسندیدہ اقتباس پڑھتے۔ ایسے میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ محبت کی ایک منفرد لڑی میں پروئے جاتے۔ میرے اپنے بہت سے ادبی دوست اسی وجہ سے بنے جن سے دوستی آج بھی قائم ہے۔

اسی بھلے زمانے میں جب کبھی ماڈل ٹاؤن پارک لاہور میں تکیہ تارڑ منعقد ہوا کرتا تھا تو ایک بار تارڑ صاحب نے بتایا کہ انھیں اپنے ضخیم ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ لکھنے کے لیے مجرے کی تفصیلات درکار تھیں۔ یہ لگ بھگ 1930 کا زمانہ تھا۔ اب ان زمانوں میں ساز کون سے تھے، ناچنے والی کو داد دینے کے کیا کیا طریقے تھے اور تب گیت کون سے گائے جاتے تھے، میں نے اس سلسلے میں خواجہ سلطان سے رجوع کیا۔ آپ نے 1930 کے پنجاب میں کسی بخت جہان کی حویلی میں برپا ہونے والے مجرے کے رموز سے مجھے آگاہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس زمانے میں مجرے کی وہ شکل ہرگز نہ تھی جو آج بن چکی ہے۔ 1930 کے آس پاس مغنیہ درمیان میں بیٹھ جاتی اور گانا شروع کرتی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے وہ اپنے ہاتھوں اور پیروں سے رقص کرتی یا زیادہ سے زیادہ قدر دانوں کے پاس جا کر ایک چکر لگا لیتی۔

تو ہم فرض کر لیتے ہیں پہلے بلکہ بہت پہلے جب نورجہاں، نورجہاں نہیں تھی بلکہ اللہ وسائی تھی اور ان کی بڑی بہن مجرا کرتی تھیں، تو وہ اپنے اس دور کی ایک خوب صورت مغنیہ ہوں گی۔ وہ بھی جب مجرا کرتی ہوں گی تو زیادہ سے زیادہ اپنے ہاتھوں اور پیروں کا استعمال کرکے بیٹھے بیٹھے رقص کرلیا کرتی ہوں گی یا زیادہ سے زیادہ نوابوں اور قدردانوں کے پاس جا کر ایک چکر لگالیا کرتی ہوں گی، مگر ایک بات طے ہے کہ نور جہاں نے کبھی مجرا نہیں کیا۔ اس کے بڑوں نے اللہ وسائی کی صلاحیتوں کو بچپن سے ہی جان لیا تھا، اس لیے ہوش سنبھالتے ہی اللہ وسائی نے ممبئی کا رخ کیا جو تب بمبئی تھا اور اپنے فن سے ایسا منفرد مقام پایا جو شاید ہی کسی کو نصیب ہو۔ نورجہاں کا آبائی گھر کوٹ مراد، قصور میں ہے۔ اسی سے منسلک ایک چھوٹی سے امام بارگاہ بھی ہے جو ان ہی کی بہن عیدن نے بنوائی تھی۔

قصور شہر کے بیچوں بیچ ایک پرانا تالاب ہے۔ اسے کوئی چھوٹا موٹا یا سادہ سا تالاب مت جانیے۔  اس کا حجم اچھا خاصا ہے۔ یقیناً ماضی بعید میں یہاں پانی بھی بہت سارا ہوتا ہوگا۔ بارش کا پانی بھی یہاں ذخیرہ کیا جاتا ہوگا جسے باوقتِ ضرورت کام میں لایا جاتا ہوگا۔ پھر اس تالاب کو راوی اور ستلج کی نظر لگ گئی۔ راوی اور ستلج نے ہم سے منہ کیا موڑا، قصور کا یہ تالاب بھی علاقہ مکینوں سے ناراض ہوگیا، مگر پھر بھی اس تالاب سے بہت سے مثبت کام لیے جا سکتے تھے۔ اسے عیدگاہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔

اسے بچوں کے کھیل کود کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہاں میلے ٹھیلے لگ سکتے تھے۔ اسے ایک خوب صورت پارک میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ اسے ’’جنج گھر‘‘ کے طور پر بھی تو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اگر نیت ہو تو اتنی بڑی جگہ پر کیا کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس جگہ کو بہت سے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ صرف ایک ایسا کام تھا جس کے لیے اسے استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہ صرف اسی ایک کام کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اتنی قیمتی اور بڑی جگہ صرف اور صرف علاقہ مکینوں کے کچرا اکٹھا کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

کیا سارے کام کرنا سرکار کی ہی ذمے داری ہے؟ کیا مقامی حکومتوں یا مقامی لوگوں کا اپنے علاقے کی تعمیروترقی میں کوئی کردار نہیں ہوتا؟ کیا اس تالاب کو صاف کرنا اور پھر اسے مثبت سرگرمیوں میں استعمال کرنا مقامی انتظامیہ اور اہلِ قصور کی اپنی ذمے داری نہیں۔ کم از کم اتنا تو اہل قصور کو کرنا ہی چاہیے۔ ایک نظر پہلے کچرے سے بھرے اس تالاب کو دیکھیں اور پھر ذرا تصور کریں کہ کیا ہی اچھا ہو اگر یہاں ہرے بھرے درخت لگے ہوں، ان درختوں میں پینگیں پڑی ہوں اور بچے گرمیوں کی شامیں ان درختوں کے سائے میں کھیلتے ہوئے گزاریں۔

اصل میں یہ ایک اشنان تالاب تھا جو مندر ’’ہری ہر‘‘ کے ساتھ منسلک تھا۔ ہندو قوم کے جانے کے بعد اس جگہ پر کھیل ہوتا تھا، نورجہاں اور مہدی حسن کے کنسرٹ ہوتے تھے، مگر 90 کی دہائی میں یہ پھر افیمچیوں کا اڈا بن گیا اور اہلِ علاقہ کے لیے کوڑا دان۔

قصور کی شیشوں والی ست منزلہ عمارت ایک مجذوب کی وجہ سے دیکھنا نصیب ہوئی ورنہ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ اوپر کیسے کیسے خوب صورت مناظر ہیں۔ اسی طرح ہم قصور کی گلیوں میں ایسے ہی مٹرگشت کر رہے تھے تو ایک بارہ تیرہ سال کی خوب صورت روح نے ہمیں ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا۔ کہنے لگا اسکول کے اندر گئے ہو؟ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔

اسی نے ہمیں اسکول میں جانے کا کہا اور خود اپنی پھٹ پھٹی لے کر چلتا بنا۔ میں نے پہلے بھی ایک جگہ لکھا تھا کہ ہمارے پنجاب کے لوگ اتنے اچھے ہیں کہ اگر آپ سیاحت کی غرض سے کسی دوسرے شہر جائیں تو کیا چھوٹے کیا بڑے، سب آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو ایسی ایسی چیزیں دکھانے بیٹھ جاتے ہیں جو آپ کی فہرست میں بھی نہیں ہوتیں۔ اسکول کی عمارت انتہائی بوسیدہ تھی۔ پچھلی دیواریں ٹوٹ چکی تھیں۔ اگرچہ گورنمنٹ اسکول کا داخلی دروازہ بند تھا مگر جب دیواریں گرچکی ہوں تو پھر بند دروازوں کی  کون پرواہ کرتا ہے۔

خیر ہم پچھلی طرف سے ہی اسکول میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ پچھلا کمرا اپنی چھت سمیت گرچکا تھا۔  کمرے کی ایک دیوار پر ہندی میں ’’اس کمرے کو سیوا لاما بھلی رام کے بیٹے لالا سرداری مل بجاج نے اپنی مالا جوالا دیوی کی یادگار میں 1887 میں تعمیر کرایا‘‘ لکھا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایک گرودوارہ تھا۔ مرکزی عمارت کے داخلی حصے پر بابا گرو نانک کی تصویر تھی جن کے دائیں ہاتھ پر بھائی مردانہ بیٹھے تھے۔ گرو نانک کے دائیں جانب بھی کوئی بیٹھے تھے مگر ان کی تصویر وقت اور حالات کی نظر ہوچکی ہے۔ عام طور پر گرودواروں میں بابا گرو نانک، بھائی مردانہ اور بھائی بالا کی تصویر ایک ساتھ بنی ہوتی ہے۔ اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ گرو نانک کے بائیں ہاتھ بھائی بالا کی تصویر ہوگی۔

یہ ایک بڑی عمارت تھی۔  اطراف میں چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ یہ شاید ہندو بچوں کا بورڈنگ اسکول ہو۔ اس کے سامنے بھی ایک بڑی عمارت تھی جس کے اطراف میں چھوٹے بہت سے کمرے تھے۔ مرکزی دروازے پر چھوٹی اینٹوں سے پھول نما سائبان تھا۔ وقت کے ساتھ وہ سب ختم ہوگیا۔اب وہ بوائز اسکول ہے۔ 1992 میں جب لوگ اسے گرانے آئے تو اندر ایک مورتی موجود تھی۔ یہ گرودوارہ اب ایک سرکاری اسکول کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اسکول کا پورا نام ’’گورنمنٹ تائید الاسلام گرلز پرائمری اسکول‘‘ ہے اور یہ کرشنا نگر میں واقع ہے۔

قصور میں محکمۂ آرکیالوجی کی جانب سے قائم کردہ ایک عجائب گھر بھی ہے جو حقیقت میں  اہلِ قصور کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ عجائب گھر کی عمارت مختصر ہی سہی مگر اس میں بہت سے قیمتی نوادرات موجود ہیں، جن میں طلباء کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ عجائب گھر کے آغاز میں ہی بابا بلھے شاہ اور قدیم اہلِ قصور کے استعمال کی چیزیں دھری ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کے قدیم نسخے، تابنے کے برتنوں پر لکھی ہوئی چھوٹی چھوٹی سورتیں، پاکستانی پرانے سکے، تغمے، کرنسی نوٹ، متحدہ ہندوستان کے کرنسی نوٹ، سکے، تمغے، قدیم زیورات، زرہ بکتر، سرمہ دانیاں، ہندودھرم سے متعلق مختلف مورتیاں، تحریک آزادی سے منسوب افراد کی پرانی تصاویر بمعہ ٹیپو سلطان کی تصویر، مختصراً یہ کہ ایک چھوٹی سی عمارت میں محکمۂ آرکیالوجی کی جانب سے پورا جہان جمع کیا گیا ہے۔ عجائب گھر کی عمارت کے بالکل ساتھ ہی مقبرہ وکیل خان بھی ہے جو شیر شاہ سوری کے عہد میں کمانڈر ان چیف تھے۔

قصور کی سیاحت سے فرصت پا کر قصور لاری اڈا پہنچا تو ایک چنگچی والے سے گنڈا سنگھ بارڈر کے بارے پوچھا۔ ایک ہزار روپے میں معاملات طے ہوئے اور میں جھلستی ہوئی گرمی میں گنڈا سنگھ والا کی طرف چل پڑا۔ تقریباً پانچ بجے گنڈا سنگھ بارڈر پر پاکستان اور ہندوستان کے پرچم اتارنے کی نہایت گھن گرج، رعب اور دبدبے والی تقریب شروع ہونا تھی۔ اِدھر پاکستانی نعرہ زن تھے اور اُدھر ہندوستانی حضرات گلے پھاڑ رہے تھے۔ دونوں اطراف ہی کانوں کو پھاڑنے والا میوزک لگا تھا۔ دونوں اطراف کے جوشیلے نوجوان اپنے اپنے ملک کا پرچم تھامے نعرے بازی کر رہے تھے۔

اچھی بات یہ تھی کہ دونوں طرف کے عوام مہذب ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ نہ کوئی بے ہودہ القابات تھے اور نہ کوئی اشارے۔ نعرے ضرور لگا رہے تھے۔ اب اتنا تو ان کا حق ہے کہ اپنے اپنے ملک کے قومی نغمات پر وہ جھوم جھوم جائیں اور اپنے اپنے ملک کے صدقے واری جائیں۔ جھنڈا میرے بیگ میں بھی تھا جسے میں نے اپنے کندھوں پر ڈال لیا تھا۔ کچھ نوجوانوں کا مجھے دیکھ کر جی للچایا تو وہ مجھ سے جھنڈا ادھار مانگ کر تصاویر بنوانے لگے۔ تین ہندوستانی دوست بھی اکھٹے بارڈر پر ہندوستانی پرچم ڈنڈے پر ڈالے فضا میں لہرا رہے تھے۔

سیکیوریٹی کلیئرنس کے لیے آپ کو ایک لمبے چوڑے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اور کافی سارا فاضلہ پیدل بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ پیدل راستہ طے کرنے کا عذاب صرف مجھ اور آپ جیسے عام لوگوں کے لیے ہے۔ پہلے گیٹ پر سیکیوریٹی کلیئرنس کروانے کے بعد چند ہلکی پھلکی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ مجھے لگا شاید خواتین کے لیے ہوں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ گاڑیاں صرف پروٹوکول والوں کے لیے ہیں۔ اب آپ اتنے بھی بھولے بھی نہیں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے آپ پروٹوکول کا مطلب نہ سمجھ سکیں۔

گنڈا سنگھ بارڈر پر ایک سنگِ میل نصب تھا جس پر فیروز پور 9 کلومیٹر درج تھا۔ اسے پڑھ کر ہی ایک ابدال بیلا کی کتاب ٹرین ٹو پاکستان کا ایک  اقتباس یاد آ گیا۔

’’تمھارا کیا خیال ہے، کیا سازش ہو رہی ہے؟

دیکھو دو علاقوں کا خطرہ زیادہ ہے۔

کن کن کا؟

گورداس پور اور فیروزپور کا۔

کیوں؟

گورداس پور سے کشمیر کو ہندوستان کا واحد زمینی راستہ ہے۔ یہ اگر پاکستان کو مل گیا تو پھر کشمیر ہمارا ہے۔

وہ تو ہے ہی ہمارا۔ اسی فی صد مسلمان ہیں ادھر۔

وہ کسی فی صد کو نہیں مانتا۔ ہندو اور انگریز بدنیتی پر اترے ہوئے ہیں۔

فیروز پور کا کیا قصور ہے؟

وہاں سے نہریں نکلتی ہیں، شہ رگ ہے پوری ریاست کی۔‘‘

میرا گنڈا سنگھ بارڈر آنے کا مقصد پورا ہوچکا تھا۔ پریڈ دیکھنا میرا مقصد نہ تھا۔ میں تو بس گنڈا سنگھ پر بھگت سنگھ کی تھوڑی سی خوشبو پانے کے لیے گیا تھا۔ پریڈ دیکھ کر مجھے کیا کرنا تھا۔ یہاں قریب ہی دریائے ستلج بہتا ہے، جس کے پار 24 مارچ 1931 بھگت سنگھ اور اس کے دونوں دوستوں کی لاشوں کو جلادیا گیا تھا۔ پہلے تقسیم کے وقت یہ جگہ پاکستان کے حصے میں آئی تھی مگر سندھ طاس معاہدے کے تحت تقریباً آٹھ گاؤں پاکستان کو بھارت کے حوالے کرنا پڑے جن میں وہ جگہ بھی شامل  تھی۔

میں نے دور سے ہی بھگت سنگھ کو سیلوٹ پیش کیا۔ اس چھوٹی چھوٹی مونچھوں والے کا نعرہ لگایا جو اس وقت سولی پر چڑھ گیا جب اس کے زندگی سے لطف اندوز ہونے کے دن تھے۔ بگھت سنگھ میرا ہیرو ہے۔ بگھت سنگھ جیسے اپنی مٹی پر قربان ہونے والے بے شمار انسان میرے ہیرو ہیں۔ ہماری آنے والی نسلیں چاہ کر بھی ان  کا قرض نہیں چکا سکتیں۔

شام کے سائے رفتہ رفتہ پھیلنے لگے تھے۔ مجھے ابھی واپسی کے لیے ایک لمبی مسافت طے کرنا تھی۔ پریڈ دیکھے بنا ہی واپسی کا راستہ چن لینے میں عقل مندی تھی ورنہ بہت تاخیر ہوجاتی۔ جذباتی اور جوشیلے نوجوان ایک دوسرے کے سامنے اپنی ٹانگیں اٹھانے اور گلا پھاڑنے میں مصروف تھے۔ آوازیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں۔ میرا منہ اب واپس قصور کی جانب تھا۔

میرا سوہنا شہر قصو

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل