Monday, April 28, 2025
 

بھارت کا جنگی جنون

 



پاکستان اور بھارت دوبارہ سے جنگ کے دوراہے پر پہنچ چکے ہیں۔ پہلگام میں ہونے والے واقعے نے پاکستان اور بھارت کو دوبارہ سے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ واقعہ واضح طور پر فالس فلیگ آپریشن ہے اور بہت سے سوالات لیے ہوئے ہے۔ بھارت نے غیر سرکاری طور پر حملے کے 3 منٹ بعد ہی الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا یعنی ابھی حملہ آور جنگل میں گم ہو رہے تھے تو سوشل میڈیا پر نہ صرف اس واقعے کی اطلاعات تھیں بلکہ پاکستان پر اس کا الزام بھی عائد کردیا گیا تھا۔ ایک گھنٹے میں بھارتی سوشل میڈیا بریگیڈ نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر مجرم بھی بنادیا تھا۔ کشمیر میں یہ واقعہ پہلگام کے علاقے میں ہوا ہے جو لائن آف کنٹرول سے 400 کلومیٹر دور ہے۔ اس کو آسانی کےلیے سمجھ لیں کہ لاہور سے اسلام آباد کا فاصلہ تقریباً اتنا ہے اور موٹروے کی ہموار سڑک سے سفر کرتے ہوئے 120 کی رفتار کے ساتھ تقریباً 4 گھنٹے لگتے ہیں۔ پہلگام کا یہ علاقہ ویران اور بیابان نہیں ہے، یہ ایک سیاحتی علاقہ ہے جہاں انڈین آرمی کی اسپیشل یونٹس تعینات ہوتی ہیں۔ پہلگام تک پہنچنا البتہ اتنا آسان نہیں ہے۔ راستہ پرخطر ہے۔ خان صاحب کے ورلڈ کپ ثانی کی فتح کے بعد اس علاقے میں سیاحت میں مزید اضافہ بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بھارت میں امریکی نائب صدر دورے پر موجود تھے تو کیا وجہ ہے کہ اتنا بڑا سیکیورٹی خلا نظر آیا؟ بھارت کو اپنی انٹیلی جنس پر مان ہے تو کیا یہ واقعہ اس کی انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ پہلگام میں ہونے والے اس واقعے کے وقت سیکیورٹی موجود نہیں تھی جبکہ یہ ایک مکمل سیاحتی علاقہ ہےاور یہاں بین الاقوامی سیاح بھی آتے ہیں اور ماضی میں یہاں پر اسپیشل یونٹس تعینات ہوتی ہیں۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو سیکیورٹی کہاں تھی؟ اگر فرض کرنے کےلیے یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ حملہ آور پاکستان سے یہاں تک آئے تھے تو وہ کیسے 400 کلومیٹر کا فاصلہ طے بھی کر گئے اور پھر انہوں نے تمام چیک پوسٹس کی آنکھوں میں دھول بھی جھونک دی۔ فوجی چھاؤنیوں میں موجود فوجی بھی سوتے رہے اور وہ حملہ کرکے واپس بھی چلے گئے، یعنی 800 کلومیٹر کا فاصلہ ایسے طے کیا کہ انڈیا کی دس لاکھ فوج کے پاس کوئی سراغ نہیں ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ جس گروپ نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے، وہ مقامی گروہ ہے اور یہ 2019 میں بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا ہے۔ پہلے یہ آن لائن اپنے نظریات پھیلاتا تھا، اس کے بعد اس نے زمینی طور پر خود کو منظم کرنا شروع کیا اور 2023 میں انڈین حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی۔ واضح رہے کہ پابندی کے حامل تمام گروہ انٹیلی جنس کی خصوصی نگرانی میں ہمہ وقت رہتے ہیں۔ جب اس گروہ کی جانب سے پلاننگ ہورہی تھی تو بھارتی انٹیلی جنس کیا کر رہی تھی؟ اس نے اس حملے کو روکنے کےلیے کیا عملی اقدامات کیے تھے؟ ذمے داری قبول کرنے والا مقامی گروہ ہے جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تو کیسے پاکستان اس حملے میں ملوث ہے؟ بھارت کا ہمیشہ سے یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ بغیر ثبوت پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے اورجب یہ روتا ہے تو عالمی برادری سے اس کو ہمدردیاں بھی مل جاتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے اس واقعے کے جواب میں کچھ خوفناک اقدامات کیے ہیں۔ اس نے سب سے پہلے سندھ طاس معاہدہ معطل کیا ہے۔ یہاں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ معاہدہ معطل ہوا ہے کہ منسوخ ہوا ہے۔ اگر معطل بھی ہوا ہے تو بھی اُسی معاہدے کے مطابق بھارت اس کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کرسکتا، اس معاہدے کا ضامن ورلڈ بینک ہے۔ اب اگر پاکستان اس کے جواب میں شملہ معاہدے کو معطل یا منسوخ کردیتا ہے تو بھارت کو پھر سوچنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھارت نے پاکستانیوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور اس کےلیے 48 گھنٹے دیے ہیں۔ بھارت نے اٹاری بارڈر کو بھی بند کردیا ہے۔ اس کے ساتھ بھارت نے پاکستان میں سفارتی عملہ کم کرتے ہوئے پاکستان کے سفارتی عملہ کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ سارے اقدامات بھارت نے تب کیے ہیں جب ابھی اس حملے میں پاکستان کی شمولیت کے کسی بھی سطح پر کوئی بھی ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں ہیں۔ یہ اقدامات یہ واضح کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق نہیں چاہتا اور پاکستان جتنا مرضی ہمسائے کے ساتھ امن کی خواہش رکھ لے، ہمسایہ پاکستان کے ساتھ امن کی خواہش نہیں رکھتا ہے۔ عقلی دلیل پر دیکھا جائے تو پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت اتنی بیوقوف نہیں ہے کہ وہ امریکی نائب صدر کی بھارت موجودگی میں ایسا حملہ کرنے کی حماقت کرے۔ پاکستان نے ٹرمپ کے بعد اپنے تعلقات بہت حکمت کے ساتھ امریکی قیادت سے استوار کیے ہیں، وہ کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائے گا جس سے خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا ملے۔ پاکستان کے اپنے مسائل ہیں، اور وہ ان کو حل کرنے میں مصروف ہے، اس کو مزید مسائل کھڑے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 2019 کی فروری میں مودی ہی کی قیادت میں بھارت نے لائن آف کنٹرول کا محاذ گرم کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان نے اس کے جواب میں جہاں اسرائیلی حکام کے ساتھ بھارت کی ہائی پروفائل میٹنگ ہو رہی تھی، اس کے قریب خالی پے لوڈ ڈراپ کرکے پیغام دیا تھا کہ ہم کہاں تک پہنچ کر کیا کرسکتے ہیں اور ابھینندن والے واقعے کو تو خیر سے عالمی شہرت ملی تھی جس میں دنیا بھر میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی تھی۔ بھارت نے تب الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے ایف سولہ سے حملہ کیا ہے، وہ الزام بھی جھوٹا نکلا تھا۔ بھارت نے تب دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کا ایف سولہ مار گرایا ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایف سولہ اور جے ایف 17 تھنڈر کی تعداد بھی پوری نکلی تھی۔ اس واقعے نے بھارت کو عالمی سطح پر شرمندہ کیا تھا اور پاکستان کی فضائیہ کی دھاک بٹھائی تھی۔ 2019 میں ہی بھارت وار ہیڈز کو بارڈر تک لے آیا تھا، جواب میں پاکستان نے نیوکلیئر وار ہیڈز بارڈرز کے ساتھ لگا دیے تھے جس کے بعد عالمی طاقتوں نے فوری اس آگ کو ٹھنڈا کیا تھا۔ تب متحدہ عرب امارت کے شاہی خاندان اور پرنس کریم آغا خا ن نے آگ بجھانے میں کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان بھارت کو کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کےلیے تیار ہے۔ بھارت جیسا قدم اُٹھائے گا، پاکستان جواب میں ویسا ہی شدید ترین قدم اُٹھائے گا۔ پاکستان 2019 میں بھی خاموش نہیں بیٹھا تھا، پاکستان اب بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ 25 کروڑ عوام پر مشتمل جدید ترین ایٹمی صلاحیتوں کا حامل پاکستان ہے، اس کی خالہ کا گھر نہیں ہے، لہٰذا بالی ووڈ کے اسکرپٹ سے باہر آکر حقائق کا سامنا کرے، حقائق بالکل مختلف ہیں۔ بھارت کا جنگی جنون اس خطے کےلیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کےلیے شدید ترین خطرہ ہے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل