Loading
بھارتی فلم ساز اور مصنف عباس ٹائر والا نے بالی ووڈ کی فلموں میں بڑھتے ہوئے مسلمان وِلن کرداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جدید فلموں کے سیاسی پہلو کو دیکھ کر اب انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ فلم ’جانے تو یا جانے نہ‘ کے ہدایت کار ، ’وار‘، 2.0، اور ’پٹھان‘ جیسی بڑی فلموں کے مکالمہ نگار، عباس ٹائر والا نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ پہلے بھارتی فلم ساز اپنی انفرادیت کے لیے مشہور تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرتے تھے جن کی سوچ ان کے جیسی ہی ہوتی تھی، اور شاذ و نادر ہی کسی فلم میں ولن یا اس کے سیاسی نظریے کے بارے میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی مگر اب انڈسٹری کے حالات بدل چکے ہیں ۔ عباس نے کہا کہ یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایک بھارتی مسلمان ہیں، بلکہ بطور مصنف وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بار بار ایک مسلم ولن کو دکھانا اب گھسا پٹا لگتا ہے۔ ان دنوں عباس ٹائر والا پاون کلیان کی تیلگو ڈرامہ فلم ’ہری ہرا ویر مالو‘ کے ہندی مکالموں پر کام کر رہے ہیں، جس میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو مخالف کردار کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو حال ہی میں وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ میں بھی بطور ولن دکھائے گئے تھے۔ اس پر بات کرتے ہوئے ہدایتکار کا کہنا تھا کہ جب اورنگزیب کو ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے تو اس کے کردار کو خاص اہمیت دی جاتی۔ یقیناً کچھ تاریخ کی کچھ تلخ حقیقت ایسی ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر فلم میں ان کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں ریلیز اور باکس آفس پر کامیاب ہونے والی فلم چھاوا میں میں وکی کوشل نے سمبھاجی مہاراج کا کردار نبھایا ہے، جبکہ اکشے کھنہ نے اورنگزیب کا کردار ادا کیا ہے۔ فلم ’چھاوا‘ ایک تاریخی ڈرامہ ہے جو مراٹھا جنگجو چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی زندگی اور ان کی مغل بادشاہ اورنگزیب کے ساتھ جنگوں پر مبنی ہے۔ فلم میں اورنگزیب کو منفی کردار میں دکھایا گیا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل