Monday, March 10, 2025
 

دہشت گردی مزید بڑھ سکتی ہے؟

 



سرکاری ٹریننگ میں ایک ماہ کے لیے برائٹن جانا پڑا۔ یہ ساحلی شہر لندن سے زیادہ دور نہیں۔ جس ہوٹل میں قیام تھا۔ وہ چھوٹا سا تھا مگر سمندر کے بالکل سامنے تھا۔ کلاس‘ ہوٹل سے دو میل دور ایک بلڈنگ میں ہوتی تھی۔ صبح نو بجے‘ بس لے لیتی تھی، شام کو ہوٹل پر واپس اتار دیتی تھی۔ پہلے دن کلاس روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پوری دنیا سے تقریباً چالیس افراد آئے ہوئے تھے۔ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل تھے۔ انگریزپروفیسر نے پہلے دن بتایا کہ ہمیں روزانہ اپنے بیٹھنے کے لیے نئی ٹیبل پر جانا ہو گا۔ ماجرہ یوں تھا کہ یہ کوئی باقاعدہ کلاس روم نہیں تھا۔ ایک بڑا سا خوبصورت کمرہ تھا۔ جس میں گول میزیں لگی ہوئی تھیں۔ ان کے اردگرد‘ چھ سات کرسیوں پر تمام طلباء اور طالبات بیٹھ جاتے تھے۔ اور ایک دن بعد‘ آپ کو نئی ٹیبل پر نئے ساتھیوں کے ساتھ بٹھایا جاتا تھا۔ مقصد یہ کہ مختلف ممالک سے آئے ہوئے اسٹوڈنٹ نما افسران ‘ ایک دوسرے کو جاننے پہچاننے لگیں۔تین چار دن میں سب لوگ ایک دوسرے کے واقف بن گئے۔ ہنسی مذاق شروع ہو گیا۔ چند دنوں بعد‘ محسوس ہوا کہ کورس میں ایک خاتون افسر ہے جو مجھ سے قطعاً بات نہیں کرتی۔ اگر چائے کے وقفہ میں آمنا سامنا ہو جائے تو نظریں بچا کر خاموشی سے گزر جاتی ہے۔ اس کے چہرے پر مجھے دیکھتے ہی خفگی سی آ جاتی تھی۔ خاتون ‘ مغربی لباس زیب تن کرتی تھی۔ کلاس میں اس کا رویہ سب کے ساتھ دوستانہ تھا۔ سوائے میرے۔ خیر دس پندرہ دن ایسے ہی گزر گئے۔ ایک دن کلاس شروع ہوئی تو میری اور اس کی نشست ساتھ ساتھ آ گئی۔ ہمیں نو بجے سے لے کر چار بجے تک مختلف اساتذہ پڑھاتے تھے۔ دو گھنٹے گزر گئے، ہماری بات چیت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد‘ کوئی دو گھنٹے کی ورکشاپ تھی۔ یہ ورکشاپ ہم نے اکٹھی اٹینڈ کرنی تھی۔ ورک شیٹ بھی ایک ہی الاٹ ہوئی تھی۔ خاتون سے پہلی بار بات کی۔ پوچھا کہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے ۔ جواب ملا کہ افغانستان سے۔ میرے لیے یہ جواب بھی حیران کن تھا۔ کیونکہ لباس اور حلیہ سے وہ یورپ کے کسی ملک کی شہری معلوم پڑتی تھی۔ اس خاتون سے دریافت کیاکہ آپ افغان حکومت کے کس شعبہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ روکھا سا جواب تھاکہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے۔ خیر گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا ۔ تو جہان حیرت کھل گیا۔ تلخی سے بتانے لگی کہ پشاور میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کی بنیادی تعلیم پشاور کے ایک اچھے اسکول میں مکمل ہوئی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے ‘ کسی اور ملک گئی اور پھر افغانستان کی سرکار میں ملازمت کر لی۔ آپ اردو سمجھ سکتی ہیں؟جواب تھا کہ ہاں میں بلکہ بول بھی سکتی ہوں۔ لیکن میں تمہارے ساتھ صرف انگریزی زبان میں بات کروں گی۔ قطعاً اردو نہیں بولوں گی۔ اس میں نفرت کی بھرپور آمیزش تھی۔ خیر ‘ پوچھا کہ کیا وجہ ہے؟ جواب تھا۔ تم لوگ‘ افغانستان کے سب سے بڑے دشمن ہو ۔ اور ہماری بربادی اور تباہی صرف اور صرف پاکستانیوں کی بدولت ہوئی ہے۔ ہمارا ملک حد درجہ پرامن، لبرل اور ماڈرن تھا۔ خواتین آزادی سے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ میری والدہ سائیکل پر اپنے دفتر جاتی تھیں۔ افغانستان ایک بہترین ملک تھا۔ پھر تمہارے اداروں نے ہم پر طالبان کا عذاب برپا کر دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو افغانستان کے معاشرے کے نچلے ترین طبقے سے تعلق رکھتے تھے، نہ ان کے پاس تعلیم تھی اور نہ ہی ہنرمند تھے۔ ہمارے ملک میں طالبان نے دہشت گردی کا وہ بازار گرم کیا کہ پورا ملک‘ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ ہم تباہی اور بربریت کی اس آگ میں جھونک دیے گئے جو ہمارے لیے بالکل اجنبی تھی۔ہمارا کلچر تو رواداری اور بھائی چارے پر ایستادہ تھا۔ ہر طرح کی قومیت کے لوگ بڑے آرام سے اکٹھے صدیوں سے رہ رہے تھے۔ شیعہ یا سنی کا بھی تنازعہ نہیں تھا۔ پھر طالبان ہمارے ملک پر قابض ہو گئے۔ ہر طرف موت رقص کرنے لگی۔ لڑکی یا عورت ہونا‘ تقریباً گناہ کے برابر ہو گیا۔ زندگی تنگ ہوئی۔ تو میرا خاندان‘ ہجرت کر کے پشاور آ گیا۔ وہاں بھی ہمارے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا۔ حیرت سے یہ باتیں سن رہا تھا۔ اس خاتون کی باتوں میں زہر کی آمیزش تھی۔ خاتون افسر ہمارے ملک کو افغانستان کی بربادی کا ذمے دار سمجھتی تھی۔ کورس کے آخری دن‘ ایک سادہ سا ڈنر تھا۔ جس میں برطانوی حکام اور ہمارے پروفیسرز شامل تھے۔ اس دن خاتون افسر نے مجھے کہا‘ کہ یہ طالبان‘ تم نے بنا تو دیے ہیں مگر ان کی اکثریت ہمارے لوگ ہیں یعنی افغان ہیں۔ ہم ان کی ذہنی ساخت کو تم لوگوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اب یہ مسلح ہیں، جہاں چاہیں ‘ جب چاہیں‘ موت تقسیم کر سکتے ہیں۔ یاد رکھنا، یہ ہمیں برباد کرنے کے بعد رکیں گے نہیں۔ یہ کسی اور شکل میں ‘ تم لوگوں کے خلاف جنگ کریں گے۔ تم سوچتے رہ جاؤ گے اور یہ تمہارے شہریوں اور اداروں کے سر پر ناچنے لگیں گے، یہ تم لوگوں کو اسی عذاب میں مبتلا کر دیں گے جس میں آج ہم رہ رہے ہیں۔ تھوڑے برسوں کی بات ہے، پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف ایک ایسی جنگ میں مبتلا ہو جائے گا جس کا آغاز تو ہے مگر انجام کا کوئی سرا نہیں ملے گا۔ کئی ان دیکھی قوتیں اس جنگ میں شامل ہو جائیں گی۔ تم لوگ اس وقت کو پچھتاؤ گے۔  یہ پندرہ برس پہلے کی بات ہے جسے میں مکمل طور پر فراموش کر چکا تھا۔ مگر چند مہینوں سے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی کی بھیانک وارداتوں نے مجھے یہ بھولی ہوئی باتیں یاد کرا دیں۔ ایسا لگا کہ اس افغان خاتون افسر کی ایک ایک بات سچ تھی۔ اس نے جو کہا تھا‘ وہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ چکا ہے۔ کوئی دن‘ ایسا نہیں گزرتا ‘ جب پاکستان کے وجود پر دہشت گرد‘ خنجر سے چرکے نہیں لگاتے۔ کسی کو بھی فوجی اور سویلین شہیدوں کی اصل تعداد کا علم نہیں، بس محتاط اندازے ہیں۔ پولیس کے افسر نے مجھے یہ بتایا کہ ساؤتھ پنجاب کے چند اضلاع کے حالات بھی دگر گوں ہیں۔ وہ تمام اضلاع جو بلوچستان سے متصل ہیں ‘ ان میں بھاری اسلحہ کی آمدو رفت ‘بڑی تسلی سے جاری ہے۔ تمام ذمے دار افراد کو معلوم ہے کہ یہ اسلحہ کہاں سے آتا ہے اور کن ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ مگر کسی مخصوص وجہ سے سب خاموش ہیں۔ دراصل ہم آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور یہ دہشت گردی کا لاوا ‘ ہمیں زندہ درگور کر سکتا ہے۔ ہاں ‘ دہشت گردی کے واقعات تو اپنی جگہ، ہمارے عسکری ادارے بھرپور طریقے سے ان سے نبرد آزما ہیں۔ مگر حد درجہ ادنیٰ اور گھسے پٹے مذمتی بیانات‘ ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ، ہمارے ارباب اختیار بیان دیتے ہیںکہ ہم نے دہشت گردوں کے عزائم کو پنپنے نہیں دیا یا لوگوں کو بڑے نقصان سے بچا لیا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔ کیا پاکستانیوں کی چوبیس پچاس لاشیں کافی نہیں ہیں؟کتنی مزید لاشوں سے آپ واقعہ کو بڑا نقصان قرار دیں گے؟ یقین فرمائیے۔ حد درجہ قلعہ نما محفوظ محلوں میں رہنے والے مقتدر لوگ‘ جب یہ بیان داغتے ہیں ۔ تو اب مناسب نہیں لگتا بلکہ تکلیف ہوتی ہے۔ اگر آگ ان کے محفوظ ٹھکانوں تک پہنچ گئی ہوتی‘ تو انھیں معلوم پڑتا کہ شہدا کے خاندانوں پر‘ اپنے لخت جگر کھونے سے کیا قیامت گزرتی ہے۔ ایک اور عرض بھی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ لوگ ‘ جو قدرے محفوظ شہروں میں رہتے ہیں۔ ان کے لیے دہشت گردی اندوہناک واقعات‘ بس ایک عام سی خبر ہے۔ وہ اسے سنتے یا پڑھتے ہیں۔ اور پھر ‘ بغیر سوچے سمجھے اپنی معمول کی زندگی میں ایسے مصروف ہو جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مگر صاحبان! یہ معاملہ حد درجہ سنگین ہے۔ تمام قوم کو اپنے تمام اختلافات فراموش کر کے‘ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر ہم اسی طرح تقسیم رہے تو ان وارداتوں سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے ۔ کوئی جذباتی بات نہیں کر رہا۔ یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہمارے وہ بزرجمہر جو طالبان کے حامی تھے وہ ان دہشت گردوں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے؟ لکھاری اور مذہبی طبقے کے لوگ‘ جو طالبان کو قرون اولیٰ کے دور کے لوگ گردانتے تھے‘ ان کی زبان اب کیوں گنگ ہے؟ جناب! طالبان یا ٹی ٹی پی ‘ ایک ہی سکہ کے دو مختلف روپ ہیں۔ ہم نے حددرجہ کوتاہ اندیشی سے‘ آزاد خیال افغان حکومت کو طالبان سے شکست دلوا دی۔ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ یہ آگ ہمیں بھی جلا سکتی ہے؟ اب اس خاتون افسر کی باتیں یاد کرتا ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گا؟

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل