Sunday, March 09, 2025
 

عالمی یومِ خواتین اور پاکستان میں خواتین کی تعلیم

 



عالمی یومِ خواتین ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، تاکہ خواتین کی عظمت کو تسلیم کیا جائے، ان کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور ان کی کامیابیوں کو سراہا جائے۔ یہ دن دنیا بھر کے مختلف ممالک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کےلیے مخصوص ہے۔ لیکن جب ہم اس دن کی حقیقت کو پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت سی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کی تعلیم ایک پیچیدہ اور سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو معاشرتی، اقتصادی، ثقافتی اور حکومتی سطح پر ایک بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ بحران صرف پاکستان کی خواتین کی تعلیمی ترقی کو متاثر نہیں کرتا، بلکہ ملک کی معاشی، سماجی اور اقتصادی ترقی کو بھی ایک بڑی حد تک روکنے کا باعث بنتا ہے۔   پاکستان میں خواتین کی تعلیم: ایک سنگین بحران پاکستان میں خواتین کی تعلیم کی حالت میں شمولیت اور مساوات کی کمی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2021 کے مطابق، پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواتین کی تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں میں غفلت اور شکست نے اس فرق کو مزید گہرا کیا ہے۔ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں کئی رکاوٹیں ہیں، جن میں سماجی رکاوٹیں، تعلیمی اداروں کی کمی، معاشی مشکلات اور پدرشاہی ثقافت شامل ہیں۔   سماجی تفریق اور تعلیم میں عدم مساوات پاکستان میں تعلیمی تفریق کی سب سے بڑی وجہ پدرشاہی معاشرتی ڈھانچہ ہے، جو لڑکیوں کی تعلیم کو ایک غیر ضروری چیز سمجھتا ہے۔ اس ثقافت کے تحت لڑکیاں صرف گھریلو ذمے داریوں تک محدود رہتی ہیں، اور اسکول جانے کے بجائے انہیں گھریلو کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک اور یونیسیف کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان میں 10 میں سے صرف 3 لڑکیاں مڈل اسکول تک پہنچ پاتی ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر لڑکیاں تعلیمی معیار کی کمی، اسکولوں کی عدم موجودگی، یا گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں۔ پاکستان میں دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح شہری علاقوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو تعلیم دینے کےلیے نہ صرف تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں بلکہ اگر ہیں بھی تو ان کی حالت انتہائی پسماندہ ہے۔ دیہی علاقوں میں لڑکیاں تعلیمی اداروں کی کمی، اسکولوں کی حالت، اور وسائل کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرتی ہیں، جس کے باعث وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں۔ غریبی کا اثر پاکستان میں غریبی ایک اور سنگین رکاوٹ ہے جو خواتین کی تعلیم کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان کے دیہی اور غریب علاقوں میں خواتین کو اسکول بھیجنے کےلیے والدین کی معاشی حالت ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ اکثر والدین اسکول بھیجنے کے بجائے لڑکیوں کو گھریلو کام میں لگاتے ہیں اور ان کے تعلیمی حقوق کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں ہر 5 میں سے ایک لڑکی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کی حکومتی پالیسیوں کی ناکامی پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے متعدد حکومتی پالیسیوں اور منصوبوں کا آغاز کیا گیا ہے، لیکن یہ تمام منصوبے ناکام نظر آئے ہیں۔ پاکستان ایجوکیشن پلان اور تعلیمی وظائف جیسے اقدامات کا مقصد خواتین کی تعلیم میں اضافے کا تھا، مگر ان منصوبوں کی عملی کامیابی بہت کم رہی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی غیر مؤثر عملی پزیرائی اور انتظامی مسائل نے ان منصوبوں کو کامیاب ہونے سے روک دیا۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، حکومت کی پالیسیوں میں دور رس اثرات پیدا کرنے کی صلاحیت کی کمی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر تعلیمی اصلاحات کی عدم موجودگی اور مربوط حکمت عملی کا فقدان پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ان پالیسیوں کی غفلت نے تعلیمی معیار کو متاثر کیا اور خواتین کے تعلیمی حقوق کو مزید محدود کر دیا۔   خواتین کی تعلیم اور قومی ترقی خواتین کی تعلیم نہ صرف ایک فرد کے حق کا معاملہ ہے، بلکہ یہ ایک ملک کی معاشی ترقی کےلیے بھی نہایت اہم ہے۔ عالمی اداروں کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنے خاندانوں کی حالت بہتر کرتی ہیں، بلکہ معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان میں خواتین کی تعلیم کی شرح 10 فیصد بڑھا دی جائے تو جی ڈی پی میں 3 فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں خواتین کی تعلیم کا فقدان ملکی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ معاشی ترقی اور سماجی ترقی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو تعلیم حاصل ہو۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کی تعلیم کو نہ صرف ترجیح دے بلکہ اس کے لیے ایک موثر حکمت عملی اپنائے۔ خواتین کی تعلیم: پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک اہم قدم پاکستان میں خواتین کی تعلیم کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا نہ صرف ایک سماجی غلطی ہے بلکہ یہ ایک معاشی تباہی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں خواتین کے لیے مساوات کا فقدان اور حکومتی پالیسیوں کی کمی نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ خواتین کی تعلیم کے ذریعے نہ صرف ان کے معاشی، سماجی اور ذہنی ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے، بلکہ یہ ملک کی مجموعی ترقی میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر پاکستان نے خواتین کی تعلیم کے شعبے میں مربوط حکمت عملی اور مؤثر پالیسیوں پر عمل کیا، تو یہ ملک کی معاشی ترقی اور سماجی استحکام میں بہتری لاسکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خواتین کی تعلیم کو مؤثر طریقے سے فروغ دیں اور ان کے تعلیمی حقوق کا تحفظ کریں تاکہ پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنی جگہ بنا سکے۔ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کا بحران ایک سنگین مسئلہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سماجی، اقتصادی اور حکومتی مسائل نے خواتین کی تعلیم کو ایک مشکل راستہ بنا دیا ہے، جس سے ملک کی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خواتین کی تعلیم کے لیے مؤثر پالیسی اپنائیں، تعلیمی اداروں کی حالت بہتر کریں اور سماجی تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ پاکستان کے تمام شہری، بشمول خواتین، اپنی تعلیم اور مستقبل کے بارے میں بہتر امکانات کے حامل ہوں۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل