Loading
اسماعیل میرٹھی یاد آگئے۔ انھیں بچوں کا شاعر سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے ہاں مظاہر فطرت کا بیان بھی ایسا ہے کہ سنیں اور سر دھنیں جیسے انھوں نے کہہ رکھا ہے یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا اسماعیل میرٹھی اور ان کیاس شعرکی یاد بلاوجہ نہیں آئی۔ سبب اس کا کچھ ایسے واقعات ہیں جن میں سے کچھ پاکستان کے اندر رونما ہوئے ہیں اور کچھ بیرون پاکستان۔ ہر دو قسم کے واقعات کا نتیجہ پاکستان کے حق میں برآمد ہوا ہے۔ ہمارا اصل دکھ کیا تھا؟ یوں، ہمارے دکھوں کا سلسلہ ظلمت شب کی طرح دراز ہے لیکن سامنے کی بات وہی ہے جس سے پورا پاکستان پریشان ہے یعنی مہنگائی۔ ویسے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ یہ بلا جس گھر کا رستہ دیکھ لے پھر پلٹ کر نہیں جاتی لیکن ان ہونی ہو گزری ہے، یہ بلا پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ پاکستان پر 2018 کا سال اور بعد کے پونے چار برس بہت بھاری گزرے۔ یہ تاریخ کی پہلی حکومت ہوگی جس کے وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے ایوان میں قوم کو دھمکی دی کہ ان کی حکومت کچھ ایسا کرنے جا رہی ہے جس سے عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ اس دھمکی کو حقیقت بنتے ہم نے نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ اپنی جانوں پر برداشت بھی کیا۔ یہ دل خراش داستان نہ صرف پی آئی اے جیسے قومی اداروں کی دانستہ تباہی کی ہے اور نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کرکے توڑنے کی ہے بلکہ یہ وطن اور اہل وطن کے ساتھ بے وفائی کی ایسی کہانی ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی کے دو نوالے بھی مشکل بلکہ ناممکن بنا دیے گئے۔ جواد کیانی ایک آرکیٹیکٹ ہیں۔ ان سے گفتگو کا سلسلہ رہتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے دنوں کی بات ہے، وہ بہت پرجوش تھے۔ کہنے لگے کہ کاش کہ حکومت بدل جائے۔ سوال کیا کہ حکومت کے بدلنے سے کیا ہو گا؟ کہنے لگے کہ میرا سیاسی قبیلہ مختلف ہے لیکن یہ توقع مجھے ہے کہ اقتدار شہباز شریف کے ہاتھ میں ہو گا تو عوام کی روزی روٹی آسان ہو جائے گی۔ ان کی خواہش کے مطابق حکومت تو بدلی لیکن حالات نہ بدلے، مشکل کچھ اور بڑھ گئی۔ سبب یہ تھا کہ معیشت کی حالت اتنی بگاڑ دی گئی تھی کہ سنبھلنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ اس عرصے میں نگراں حکومت آئی، انتخابات ہوئے اس کے بعد حکومت بنے سال بھر گزر گیا تو ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا ہے۔ ٹھنڈی ہوا کا یہ جھونکا کئی پہلو رکھتا ہے۔ اس کا پہلا اور اہم ترین پہلو تو مہنگائی کے ضمن میں ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد تھی جو اب کم ہو کر ڈیڑھ فیصد پر آ گری ہے۔ عمر ایوب اور شبلی فراز نے پھبتی کسی ہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے کیوں کہ اشیائے صرف مہنگی کی مہنگی ہیں۔ نہیں معلوم سیاست کو گلی کا کھیل بنا دینے والے ان دانش مندوں کا معیشت کے علم سے کوئی واسطہ ہے یا نہیں۔ اگر ہوتا تو وہ ایسی بات نہ کہتے۔ مہنگائی کا 38 فیصد ہونے اور اس کا کم ہو کر ڈیڑھ فیصد پر آجانے کا مطلب ضرور سمجھتے۔ مہنگائی کا اڑتیس فیصد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ افراط زر میں اضافے کی رفتار ہے۔ اب ذرا خیال کیجئے کہ افراط زر یعنی مہنگائی 38 فیصد کی شرح سے ہی بڑھ رہی ہوتی تو آج مہنگائی کی شرح کہاں سے کہاں جا پہنچی ہوتی۔ اس کے ڈیڑھ فیصد پر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اب اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی شرح 38 فیصد کے بہ جائے ڈیڑھ فیصد ہے۔ گزشتہ ایک برس کے عرصے میں مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام نے سکھ کا پہلا سانس لیا ہے۔ اچھا، مہنگائی میں اضافے کی یہ معمولی شرح بھی مجموعی ہے یعنی اگر ڈیڑھ فیصد کی رفتار سے کچھ چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے تو بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے نرخ نمایاں طور پر کم ہوئے ہیں جیسے جواد کیانی کا کہنا ہے کہ بلڈنگ میٹریل کی قیمتوں کو پہلے آگ لگی ہوئی تھی لیکن اب ان میں ٹھہراؤ ہی نہیں کمی بھی آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شہباز شریف کی حکومت سے جو توقعات رکھتے تھے، ان کی نوعیت یہ تھی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی کا اتنا بڑا کام کیسے ہو گیا؟ کیا صرف اعداد و شمار کے الٹ پھیر سے یا کڑے مالیاتی ڈسپلن سے؟ مالیاتی ڈسپلن تو ناگزیر ہے۔ یہ نہ ہو تو خوش حال معیشتیں دیکھتے ہی دیکھتے کھائی میں جا گرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اعداد و شمار کی بازی گری عارضی ہوتی ہے۔ ہماری معیشت میں کسی قدر استحکام دکھائی دے رہا ہے تو بات صرف اقتصادی نظم و ضبط کی نہیں۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ قطرہ قطرہ کر کے پانی کا حوض بھرا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی پہلی حکومت کو رہنے بھی دیں تو وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ایک برس کے دوران میں دوست ملکوں کے بہت سے دورے کیے ہیں اور ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن، چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ اور بیلو روس کے وزیر اعظم سمیت بہت سے دیگر ملکوں کی قیادت نے پاکستان کا دودہ کیاہے۔ 2018 کے بعد سفارتی تنہائی میں پڑے ہوئے پاکستان کے لیے یہ دورے بھی کم اہم نہیں ہیں لیکن ان دوروں کے خاص پہلو دو ہیں۔ اول، دوست ملکوں کے ساتھ تجارتی حجم میں اضافہ۔ دوم، پاکستان کے اندر سرمایہ کاری میں اضافہ۔ وزیر اعظم نے گزشتہ ایک برس کے دوران میں یہ دو پہلو خاص طور پر پیش نظر رکھے۔ وزیر اعظم کی سرگرمیوں کا تیسرا سفارتی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کر دیا گیا۔ عالمی طاقتیں تو رہیں ایک طرف قریب ترین دوست بلکہ برادر ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ کر لیے گئے۔ سبب کیا تھا؟ اس کے اسباب دو تھے۔ سفارتی تعلقات بڑی نزاکت چاہتے ہیں۔ دور کا تعلق رکھنے والے ممالک تو رہے ایک طرف قریب ترین دوستوں کے ساتھ معاملات میں بھی بڑی نزاکت سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ خبر قوم کے حافظے میں یقینا موجود ہو گی جس میں بتایا گیاتھاکہ کسی اجلاس کے دوران میں شاید فرانس کے صدر کا فون آیا تو عمران خان نے سننے سے انکار کر دیا۔ ویسے تو اطلاع یہ بھی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا لیکن ایک ملک کا نام لے کر فون نہ سننے کی خبر تو صرف اور صرف توہین کا باعث ہی بنتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسا بدقسمت دور تھا جب حکومت کے ذمے داران کی زبان قابو میں تھی اور نہ وہ کار ریاست کی نزاکتوں سے واقف تھی۔ یہ زبان کے قابو میں نہ رہنے کے اثرات ہی تھے کہ سعودی عرب جیسا دوست ناراض ہوا۔ چین کا معاملہ تو دوہرا تھا۔ زبان درازی بھی تھی اور سی پیک کے معاملات میں غیر دوستانہ اور توہین آمیز رویہ بھی تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد شہباز شریف کو صرف کھائی میں گری ہوئی معیشت کو ٹھیک نہیں کرنا تھا بلکہ ملک کو سفارتی تنہائی سے بھی نکالنا تھا۔ اس شعبے میں پاکستان پر تاریخ میں پہلی بار یہ دھبہ لگا تھا کہ وہ ایک غیر ذمے دار ملک ہے۔ شہباز حکومت نے اس مختصر عرصے میں یہ دونوں کام کیے جس میں انھیں فوج اور اس کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی پرجوش معاونت بھی حاصل رہی۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کس قسم کی ہم آہنگی ہونی چاہیے ، یہ دور اس کا بھی ایک مناسب ماڈل پیش کرتا ہے۔ یہ حکومت کی سنجیدہ سفارتی سرگرمی ہی کا نتیجہ ہے کہ دوست ممالک تو اپنی جگہ امریکا جیسا ملک بھی پاکستان کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کر رہا ہے حالاں کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کے بارے میں تاثر تو یہ ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے بارے میں کوئی نرم گوشہ رکھنے کے بہ جائے پی ٹی آئی کو پسند کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پی ٹی آئی نے بڑی بھاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سرمایہ کاری بھی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستانی حکومت کی تعریف ایک مطلوب ملزم کی حوالگی کا نتیجہ نہیں، یہ ایک اسٹریٹجک معاملہ ہے جو اس خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے جس کی بنیاد صدر طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان میں رکھی گئی تھی۔ اس دورے میں پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کے درمیان سہ فریقی ڈائیلاگ میکنزم کی بنیاد ڈالی گئی جس نے وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ آذربائیجان میں باضابطہ اختیار کی۔ یہ میکنزم معمولی نہیں کیوں کہ اس کا مقصد ترکیہ اور پاکستان کو گریٹ یوریشیا سے منسلک کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے تینوں ملکوں کو ملانے کے لیے ایک کاریڈور بنانے کا خواب دیکھا گیا ہے۔ یہ خواب تعبیر پا نہیں سکتا، اگر اس میں ایران شامل نہ ہو۔ تازہ واقعات بتا رہے ہیں کہ ایران بھی جلد ہی تنہائی سے نکل آئے گا۔ یہ سب کیسے ممکن ہو رہا ہے؟ ایک سنجیدہ اور ذمے دار پاکستان کی بہ دولت۔ پاکستان کے دن پھرتے دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل