Loading
’’ہم چند منٹ میں لینڈ کرنے والے ہیں امید ہے آپ کا سفر اچھا گذرا ہو گا، ہماری ایئر لائنز کو منتخب کرنے کا شکریہ، آئندہ بھی ہمیں خدمت کا موقع دیجیے گا‘‘. پائلٹ کا یہ اعلان سن کر میں نے سکون کا سانس لیا کیونکہ آدھے راستے میں جہاز ہلتا جلتا ہی رہا تھا، اسے عرف عام میں ’’ٹربیولنس‘‘ کہتے ہیں، شاید موسم ہی ایسا تھا، گوکہ میں بظاہر آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا لیکن اندر ہی اندر ڈر بھی لگ رہا تھا. جہاز کا سفر ہوتا ہی ایسے ہے، میرے برابر کی نشت پر بیٹھا نوجوان پہلے موبائل پر شاید کوئی فلم دیکھ رہا تھا لیکن جیسے ہی جہاز ہلنا شروع ہوا اس نے موبائل رکھ کر دعائیں پڑھنا شروع کر دیں. گوکہ سفر اتنا خطرناک بھی نہ تھا لیکن اس سال اتنے فضائی حادثات ہوئے ہیں کہ ہر کوئی خوفزدہ ہی رہتا ہے، میرا سفر کراچی سے شروع ہوا، گذشتہ بار کی طرح اب بھی ایئرپورٹ کے اندر داخل ہونے کیلیے بھی لائن لگی تھی. ایک پورٹر نے مجھ سے کہا کہ ’’آئیں آپ کی فاسٹ ٹریک سے انٹری کروا دوں‘‘ میں نے پوچھا کتنے پیسے لیں گے تو جواب ملا ’’جو دل چاہے دے دیجیے گا‘‘ میں جانتا تھا کہ زیادہ دیر نہیں لگے گی اس لیے انکار کر دیا. اندر امیگریشن کاؤنٹرز پر پھر اتنا رش نظر آیا،ان میں بڑی تعداد عمرے کیلیے جانے والوں کی تھی، ایف آئی اے نے بہتر انتظامات کیے ہیں جس کی وجہ سے سب اپنی فلائٹ سے پہلے ہی کلیئر ہو جاتے ہیں. جب میں یو اے ای پہنچا تو ایئرپورٹ پر ای گیٹ سے کلیئرنس میں چند منٹ ہی لگے، پہلے پاسپورٹ پھر آنکھیں اسکین اور آپ اپنا سامان لے کر باہر چلے جائیں، ساتھ میں امیگریشن کاؤنٹرز بھی ہیں، پہلی بار آنے والوں کو وہیں بھیجا جاتا ہے، ایئرپورٹ سے میں ہوٹل روانہ ہوا. ٹیکسی ڈرائیور شاید مائیکل شوماکر کا فین تھا، اس نے 120 سے بھی زائد کی رفتار سے ڈرائیونگ کی ،اگر پاکستانی ٹیم بھی کھیلتے ہوئے اتنی اسپیڈ دکھاتی تو آج فائنل کھیل رہی ہوتی، ہوٹل میں سامان رکھ کر میں نے ایک اور ٹیکسی سے اسٹیڈیم کی راہ لی. ڈرائیور پاکستانی بھائی تھا،اس نے اسٹیڈیم کے قریب اتار دیا، اب ایک طویل واک میری منتظر تھی، میں نے دوستوں کو مرعوب کرنے کیلیے اسٹیپس ایپ میں 10 ہزار اسٹیپس دکھانے کی منصوبہ بندی بھی کر لی تھی لیکن پاک بھارت میچ کی طرح اس بار بھی بچت ہو گئی. وی آئی پی ایریا سے ایک بگی میں انڈین فیملی اوپر جا رہی تھی انھوں نے مجھے بھی ساتھ بٹھالیا اور میں آرام سے میڈیا سینٹر کے دروازے تک پہنچ گیا،انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ سب میچ دیکھنے کیلیے خاص طور پر انگلینڈ سے دبئی آئے ہیں. اسٹیڈیم میں ہر جانب بلو شرٹس اور بھارتی پرچم ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن پاک بھارت میچ جیسا ماحول نہیں تھا، ہماری ٹیم چاہے جتنی بھی کمزور ہو ہم وطن ایک آس لیے اسٹیڈیم آتے ہیں کہ شاید آج اچھی کارکردگی سامنے آ جائے،البتہ آج کل ٹیم زیادہ تر مایوس ہی کر رہی ہے. میڈیا سینٹر میں حسب توقع بھارتی صحافی ہی نظر آئے، البتہ 4،5 پاکستانی بھی تھے، سبط عارف ایک پاکستانی چینل کے ساتھ کئی برس سے وابستہ ہیں، بہت ہی ذہین اور خوش اخلاق انسان ہیں، ان کے ساتھ کوئی بور نہیں ہو سکتا. جس وقت راچن رویندرا نے جارحانہ بیٹنگ شروع کی اسٹیڈیم میں سناٹا طاری تھا، میں نے سبط عارف سے کہا کہ آج ہم لوگ دباؤ سے آزاد ہیں کیونکہ پاکستانی ٹیم نہیں کھیل رہی، البتہ نیوزی لینڈرز بھی اپنے ہی لگ رہے ہیں، ان کے عمدہ شاٹس ایسی ہی خوشی دے رہے جیسے اپنے بابر یا رضوان کھیل رہے ہوں لیکن جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہے. البتہ بھارتی میڈیا کے ساتھ ایسا نہ تھا وکٹیں گرنے پر شور کی آوازیں بھی آتی رہتیں، کراؤڈ ابتدا میں خاموش تھا لیکن جب بھارتی بولرز نے وکٹیں لینا شروع کیں تو جوش بڑھتا گیا، یہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں،اسٹیڈیم میں داخلے کے وقت بھی شائقین کو چیک کیا جاتا رہا، البتہ جیسے پہلے بتایا تھا کہ مسلح اہلکار کم ہی نظر آتے ہیں. یہاں قانون کی مکمل پاسداری ہے لہذا لوگ احتیاط کرتے ہیں، انکلوڑرز میں بھی سیاہ پینٹ کوٹ،ٹائی اور سفید شرٹ میں ملبوس سیکیورٹی اہلکار شائقین پر نظر رکھے رہتے، جہاں انھیں کچھ غلط لگتا فورا پہنچ جاتے. دبئی اسٹیڈیم میں بیٹھا میں یہی سوچ رہا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم کیلیے گھر سے دور بھی گھر جیسا ماحول حاصل کر لیا، کہنے کو چیمپئنز ٹرافی کا میزبان پاکستان تھا لیکن بھارت نے ہمیں لاہور میں اتنے اہم میچ کی میزبانی سے محروم کر دیا. اگر پاکستان ٹیم فائنل کیلیے کوالیفائی نہ کرتی تب بھی میچ کے دوران قذافی اسٹیڈیم شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوتا، ہماری ٹیم کی ناقص کارکردگی نے بھی عوام کا دکھ بڑھا دیا، البتہ سوچیں کہ اگر ہم میزبان ہونے کے باوجود دبئی میں فائنل کھیلتے تو کتنا عجیب لگتا. خیر بھارتی بیٹنگ کے دوران جب کپتان روہت شرما نے آتے ہی ماردھاڑ شروع کی تو اسٹیڈیم روہت، روہت کے نعروں سے گونج اٹھا، اپنی ٹیم کو فائنل تک لے جانے کے باوجود جس کپتان کو ریٹائرمنٹ کے مشورے اور موٹاپے کے طعنے مل رہے تھے اس نے ان باتوں کو نظرانداز کر کے اپنی ٹیم کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا. گو کہ منتظمین کی طرف سے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا مگر مقامی صحافی رضیہ، عبداللہ و دیگر اپنے گھر سے روایتی پکوڑے، دہی بڑے، چاٹ وغیرہ بھی لے کر آئے تھے ڈائننگ ایریا میں زبردست افطار ہوا. پی سی بی کے نمائندوں کی کمی محسوس ہوئی،صحافی یہی کہہ رہے تھے کہ پاکستان میزبان ہے اور کوئی یہاں موجود نہیں، اب میچ تقریبا ختم ہونے والا ہے، بھارتی ٹیم چیمپئن بن جائے گی،آتشبازی بھی ہو رہی ہے، یہ ایونٹ ہمارے لیے کئی سوال چھوڑ جائے گا، ہم میزبان ہو کر بھی ایونٹ میں چند روز کے مہمان ثابت ہوئے،اسٹیڈیمز بنا دیے ٹیم نہ بنا سکے. افسوس اس بات کا ہے کہ غلطیوں سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھا، نجانے معاملات میں کیسے بہتری آئے گی۔ (نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل