Loading
کوئی ڈھائی مہینے قبل کراچی کے ایک پوش ایریا میں میری نئی گاڑی ڈرائیور سے گن پوائنٹ پر چھین لی گئی۔کراچی کی تمام وکلاء بار ایسوسی ایشنز نے اس واردات کے خلاف قراردادیں پاس کیں۔ بات یہاں تک بھی پہنچی کہ اب ہمیں سٹی کورٹ سے گزرنے والی سڑک یعنی ایم اے جناح روڈ کو بلاک کرنا چاہیے،جسے میں نے مسترد کیا۔ گو اس واردات کے ایک گھنٹے بعد ہی ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔ لیکن ہوا وہی جو کراچی میں ایسے کاموں میں ہوتا ہے ۔ میں پیشے کے اعتبار سے فوجداری مقدمات کا وکیل ہوں چونکہ یہ کرائم میرے ساتھ ہوا تھا ، لہٰذا مجھے اس پر غور کرنے کا موقعہ ملا۔پھر میری ایک تھیوری بنی اور اس تھیوری کی تصدیق کے لیے مجھے شواہد کی اشد ضرورت تھی۔وہ تھیوری یہ تھی کہ ایسے کئی جرائم میں پولیس کا تعاون بھی ہوتا ۔ ایسے مجرموں کے پیچھے بہت سی مافیاز ہوتی ہیں اور ایسی مافیازکے پیچھے کیسے ممکن ہے کہ سیاستدان نہ ہوں ۔ کل تک یہ وڈیرے چوروں اور ڈکیتوں کی سرپرستی کرتے تھے اور پولیس سے جھوٹی ایف آئی آر کٹواتے تھے اور پھر باز نہ آنے پر آپ کے گھر پر حملے کراتے تھے۔اس طرح کی وارداتیں ، پولیس اور وڈیروں نے میرے والد کے خلاف کیں جو اس وقت گاؤں میں رہتے تھے۔ کراچی میرا اپنا شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے میرے والد اور میرے چچا ڈی جے کالج کے طالب علم تھے۔میرے والد این ای ڈی یونیورسٹی کے پہلے بیچ کے طالبعلم تھے،ہماری پرانی رہائش گاہ حقانی چوک پر ہوا کرتی تھی۔میرے والد وہ پہلے مسلمان تھے جنھوں نے نہ صرف میٹرک پاس کیا بلکہ انٹر بمبئی بورڈ سے پاس کیا۔میرے چچا نے بمبئی بورڈ سے میٹرک میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ان دونوں بھائیوں کا اتنا پڑھنا ہمارے گاؤں کے حساب سے بہت بڑی بات تھی۔اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ہمارے اجدادکے اپنے مدرسے تھے۔ فارسی زبان پر ان کو عبور حاصل تھا۔انگریز دور میں سروئیر اور پٹواری ہمارے اجداد ان اسامیوںپر فائز تھے۔اس زمانے میں سندھ میں وڈیروں کا اتنا دبدبہ نہ تھا کیونکہ ہندو ساہوکار بھی طاقتور تھے۔ وڈیرے کمزوروں کے خلاف کھلم کھلا وارداتیں نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی درمیانے درجے کے کسانوں کو دبا سکتے تھے۔میرے والد ایک بیوہ ماں کے بیٹے تھے۔ہمارے خاندان کے چار مرد ایک ہی سال میں یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے، کوئی زمینوں کو سنبھالنے والا نہ رہا۔ہماری زمینوں پر قبضے ہونے لگے۔پھر اس خاندان کی باگ ڈور میری دادی نے سنبھال لی اور اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائی ۔ کراچی شہر کے بارے میں ہم بہت کچھ سن رہے ہیں۔منشیات فروشی اور منشیات کے استعمال میں کراچی کا نام دنیا کے چند بڑے شہروں میں شمارکیا جاتا ہے۔ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت مصطفیٰ اورارمغان کا کیس سر ِ فہرست ہے۔ چند دن قبل ہی ایک ہیڈ کانسٹیبل پکڑا گیا، اس پر لگ بھگ پچیس مہنگی گاڑیاں چوری کرانے کا الزام ہے ۔ کراچی سے چوری ہونے والی گاڑیوں کو بلوچستان لے جایا جاتا ہے۔میں نے کراچی کے AVLC کی کارکردگی کو بھی خوب جانچا۔ مگر میرا ذاتی خیال ہے اگر ایسے ادارے غیر فعال کردیے جائیں تو شاید گاڑی چوریوں کی وارداتوں میں کچھ کمی آجائے گی۔ سندھ حکومت کی سنجیدگی تو دیکھیے ہر سال بجٹ میں تین ارب روپے سیف سٹی کے نام منظور کراتے ہیںلیکن ابھی تک شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں کا نیٹ ورک نہیں بچھا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سولہ سال کی حکومت میں یہ پہلا واقعہ ہوگا کہ سابق وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کے بیٹے غلام مرتضیٰ جتوئی پر موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کی چوری کی ایف آئی آر کٹوائی گئیں ۔ جب اس شہر پر متحدہ کا سکہ چلتا تھا، ہمیں پتہ ہے اس شہر میں کیا ہوتا تھا۔بوری بند لاشیں، ہڑتالیں، بھتہ خوری اور پوری بلدیہ کراچی میں سیاسی بھرتیاں کر کے اس شہر کو بدتر بنا دیا گیا۔اب اس شہر پر وڈیرا ذہنیت لوگوں کا راج ہے۔مرتضیٰ وہاب میرے کلاس فیلو رہے ہیں، یہ شہر کراچی میرے پیارے کلاس فیلو کے سامنے ہے، اس کا حال بھی ان کے سامنے ہے۔ میرے والد این آزاد منش تھے۔بھٹو صاحب ان کے قریبی دوست تھے مگر جہاں بات آئی حق کی تو میرے والد نے ان کے خلاف بھی آواز اٹھائی، پھر جب بھٹو صاحب کے ساتھ ناانصافی ہوئی تب میرے والد نے ان کے حق میں آواز اٹھائی۔انھوں نے بھٹو صاحب کا دور جلا وطنی میں گزارا۔جنرل ضیا ء الحق کے دور میں جب اسیری سے نکلے تو بھٹو صاحب شدید مشکلات میں تھے۔میرے والد دو مرتبہ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں بھٹو کی وجہ سے جیل گئے۔ ایک واقعہ یہاں سناتا چلوں کہ میرے چچا نے میرے والد کی کسان تحریک کو آگے چل کر خیرباد کہا اور وہ ہی لبادہ اوڑھا جو اسوقت کا دستور تھا وہ کریمنل لاء کے جانے مانے وکیل تھے۔ پورے ڈویژن میں ان کے جیسا کریمنل وکیل نہ تھا،مگر وہ گاؤں میں رہے ۔وہ ان زمینی حقیقتوں میں رہتے ہوئے گاؤں کے بڑے زمیندار بھی بنے اور 1977 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ بلا مقابلہ سندھ اسمبلی کے رکن بھی بنے۔اس وقت اخباروں نے یہ لکھا کہ اس مرتبہ دو پڑھے لکھے لوگ سندھ اسمبلی کے ممبر بنے ہیں۔ ان میں ایک تھے ظفر علی شاہ اور دوسرے قاضی غلام ہادی تھے۔جنرل ایوب کے زمانے میں بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں نوابشاہ کی ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین بھی بنے اور ان زمانوں میں چیئرمین کا عہدہ ڈپٹی کمشنر کے برابر تھا۔ حاکم علی زرداری کی مجھ سے محبتیں رہی ہیںکہ جب میں نے ان کو انٹرویو کے لیے کہا تو انھوں نے کہا کہ وہ جس شخص کا بیٹا ہے میں اس کو’’ ناں‘‘ نہیں کرسکتا۔ 2009 - 2014 تک میں وکالت میں مصروف رہا۔ صرف ایک کالم میں لکھتا رہا ۔ہفتے میں دو بار ٹی وی پروگرامز میں بیٹھتا رہا، سندھ کے مسائل کو اجاگر کرتا رہا۔ شاہنواز کمبھر کے قتل کے بعد اس کی قبر پر گیا۔جب بھوروبھیل کو بدین میں دفنانے کے بعد اس کی قبر کو اکھاڑا گیا تو میں وہاں پہنچا، شکارپور کی امام بارگاہ پر خودکش حملہ ہوا میں وہاں بھی گیا۔ جب سیہون میں خود کش حملہ ہوا، دھماکوں میں سیکڑوں لوگ مارے گئے میں وہاں اپنے لوگوں کے ہمراہ پہنچا ۔ اب اندرون سندھ حالات بدل گئے ہیں۔ شمالی سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے،یہاں سرداری نظام اور وڈیرہ شاہی مضبوط ہے۔جو صحافی سچ لکھتے تھے، وہ مارے گئے ہیں۔ شاہنواز کمبھر کا خون پولیس کے ہاتھوں ہوا۔اس کو ہم نے یعنی سول سوسائٹی نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ مزید کچھ نہ ہی لکھوں تو اچھا ہے۔ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل