Loading
یہ سچ ہے کہ موجودہ حکومت جس کے روح رواں اس وقت جناب شہباز شریف ہیں 2024 کے انتخابات کے نتائج کے بعداس پوزیشن میں نہ تھے کہ اکیلے ہی حکومت بناپائیں۔انھیں ملک کے حالات کی وجہ سے حکومت بنانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے اوردیوالیہ ہوجانے کا خوف ہمارے سروں پر طاری تھا۔ایسے میں اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف نے بھی حکومت بنانے سے انکار کردیا تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی جس نے ملک کے ایک صوبہ میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی مگر خواہش کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے میں عدم دلچسپی ظاہر کردی اوراس طرح پاکستان مسلم لیگ نون ہی واحد آپشن رہ گیا تھا جسے اس کام پر راضی ورضامند کرلیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی شدید اختلافات کے باوجود آج بھی اس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے کاندھے بدستور فراہم کررہی ہے۔ بد لے میں اس نے آئینی عہدے بھی حاصل کرلیے اور آصف علی زرداری کے لیے ایک بار پھر صدر کاعہدہ اورمنصب، سینیٹ میں چیئرمین شپ بھی حاصل کرلی اور اس طرح زرداری صاحب کی ممکنہ خرابی صحت اورغیرفعال ہوجانے کی صورت میں یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا آپشن بھی حاصل کرلیا۔موجودہ دستور کے مطابق صدرمملکت کی غیر موجود گی میں چیئرمین سینیٹ ہی اس عہدے اورمنصب کا اہل تصور کیاجاتا ہے۔چاروں صوبوں میں اپنی مرضی کے گورنر اور سینیٹ کی چیئرمین شپ کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کا عہدہ حاصل کرلینا کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں ہے۔ اسی لیے اگر صدر زرداری کو سیاسی بساط اورشطرنج کا ماہر کہاجائے تو شاید غلط بھی نہ ہوگا۔ موقع اورحالات کے مطابق چالیں چلنے کاہنر ہمارے یہاں صرف زرداری صاحب ہی کو آتا ہے۔دوراندیشی اورموقعہ شناسی میںاُن کے پائے کا ہمارے یہاں ابھی تک کوئی اور سیاست دان پیدا ہی نہیں ہوا۔ وہ جب تک صدر مملکت کے عہدے پر براجمان رہیں گے میاں شہبازشریف حکومت کو شاید ہی کوئی خطرہ لاحق ہو۔اُن کے چلے جانے کے بعد بلاول زرداری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرینگے۔ فی الحال پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اُن کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا شاید اسی وجہ سے وہ مصلحتاً بیک فٹ پرہیں۔ میاں شہبازشریف حکومت نے اپنا ایک سال خیروخوبی کے ساتھ گزار لیا ہے۔ معاشی طور پر جو مشکلات تھیں وہ کچھ کم ہوگئی ہیں مگر مکمل طور پرختم نہیں ہوئی ہیں۔ قوم خزانے میں اگر مانگے تانگے کے ڈالرز موجود نہ ہوں تو حالات ہرگز ایسے نہ رہیں جیسے ابھی نظر آرہے ہیں۔ سعودی عرب ، یواے ای اوربرادر دوست ملک چین ہم پر سے مہربانیوں کے ہاتھ اُٹھا لیںتو ہمیں لگ پتاجائے گا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔یہ درست ہے کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب کی ذاتی کاوشوں کے سبب ہم IMF سے سات ارب ڈالرز کا قرضہ لینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔گزشتہ برس بجٹ کے اعلان کے موقعے پر حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے پرعمل کرنے میں نہ صرف ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس نے اپنے اخراجات مزید بڑھا بھی دیے ہیں۔ عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کرقربانی مانگنے کا کہہ کرخود کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ سب سے پہلے اپنے رفقاء وزرا ء اورارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیا۔یہ اضافہ دس پندرہ فیصد نہیں بلکہ یکمشت کئی کئی گنا کردیاگیا۔جو ارکان آج سے پہلے ڈیڑھ دو لاکھ لے رہے تھے اس اضافے کے بعد پانچ سے دس لاکھ لینے لگے۔ یہی حال ججوں کے معاوضہ کا بھی کردیاگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ججوں کی تعداد میں بھی تقریبا دگنا اضافہ کردیاگیا اوراسطرح قومی بجٹ پر اس مد میں زبردست اضافی مالی بوجھ ڈال دیاگیا۔آئی ایم ایف سے قرضہ کیاملا ، حکمرانوں کے ہاتھ فوراً کھل گئے ۔ عوام کو تو ہرروزقربانی دینے کو کہاجاتاہے جب کہ خود قرض کی مہ پی کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ’’ رنگ لاؤے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔‘‘حکومت نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچاکہ یہ اضافہ اس وقت بھلا کیوں ضروری ہے جب ہمارے ملک کے حالات اس چیز کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ عوام پرقرضوں کا بوجھ ڈال کرخود اس قسم کی عیاشی کرنا کیونکر جائز اوردرست ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اپنے کاموں کی اشتہاری مہم پربھی اربوں روپے لگا دینا کہاں کی معاشی ترقی ہے۔ وہ کام جن سے ابھی ہمارے قومی خزانے میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا ہو الٹا خرچ ہی ہوا ہو اس پر اتنے شادیانے بجانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ابھی ہمارے یہاں کوئی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی ہے ،صرف MOU ہی سائن ہوئے ہیں۔اس زبانی عہدوپیمان پر خوش ہوکر قومی خزانے سے بے تحاشہ پیسہ خرچ کردینا ایک غریب ملک کے حکمرانوں کو بھلا کیسے زیب دے سکتا ہے۔ ابھی ہمارے اپنے سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے سے اجتناب برت رہے ہیں تو ایسی صورت میں کوئی غیر ملکی سرمایہ دار یہاں کیونکر راغب ہوگا۔ حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں پر ایک بار پھر نظر دوڑانی چاہیے اورسوچنا چاہیے کہ کیا جس ملک کے چالیس فیصد نوجوان بے روزگار ہوں اورتقریباً آدھی آبادی کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ہے وہاں کے پارلیمنٹرین کو اس قدر بڑی بڑی مراعات سے نوازا جانا کہاں کی بصیرت اوردانشمندی ہے۔ وہ ملک جو اپنے اثاثوں سے زیادہ غیر ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو اوردوست ممالک یا بین الاقوامی مالی اداروں کا مقروض ہووہاں کے وزیر اورارکان پارلیمنٹ اتنی بڑی بڑی تنخواہوں کے کیسے اہل قرار پائیں۔ویسے بھی وہ کسی غریب طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اچھی بھلی عیش کی زندگی گزار رہے ہیں انھیںتو یہ کام بلامعاوضہ ہی کرناچاہیے تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں سارے پارلیمنٹرین ایک پیج پرہیں۔ کسی نے یہ اضافی تنخواہ قبول کرنے سے انکارنہیں کیا ۔لگتا ہی یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کے ثمرات سے ہمارے عوام نہیں بلکہ ہمیشہ اُن کے یہ خیر خواہ ہی مستفید ہوتے آئے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل