Loading
تجزیہ کار عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ اگر موازنہ کریں گے تو ایک دور تھا کہ جنرل کیانی کو مکمل طور پر ایکسٹیشن ٹینیور کی دیدی گئی تھی اور پھر اس ایکسٹیشن کا جب اختتام ہو رہا تھا تو جنرل کیانی کراچی بیٹھے تھے، چوہدری نثار تھے، نواز شریف وزیر اعظم تھے، آصف زرداری صدر تھے اور کراچی کی صفائی کا پروگرام بنا تھا اور تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لیکر وہ صفائی شروع ہوئی تھی۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آصف زردری جنھوں نے آئینی رول قبول کیا اور پیپلزپارٹی کیلیے آئینی عہدے طلب کیے جب وہ خطاب کرنے آئے ہیں تو ہمارے ہاں صدر کا خطاب اسی طرح ہوتا ہے، احتجاج کرنا ان کا حق ہے یہ صحیح جگہ ہے، اس پر بحث ہوسکتی ہے کہ اتنا لمبا احتجاج، ان کا رائٹ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی رہائی کی بات کریں۔ تجزیہ کار عامر ضیا نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ مشکلات کے باوجود خصوصاً صدر آصف زرداری کی جو پہلے پانچ برس کی صدارت تھی تو ان کی بڑی محاذ آرائی ہوا کرتی تھی اسٹیبلشمنٹ سے اور یہ بالکل اپنے آپ کو اس طرح سمجھا کرتے تھے کہ جیسے وہ انڈر سیج ہیں۔ ایسے بہت سارے صحافی اور تجزیہ کار گواہ ہیں کہ جو کشمکش تھی لگتا یہ تھا کہ حکومت اس دم کی مہمان ہے اور اگلے دم چلی جائے گی، اس دور میں بڑے بڑے اسکینڈل بھی ہوئے تھے، اس بار تو ابھی آغاز محبت ہے شروعات ہیں لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح سے لوگ توقع یہ کر رہے تھے، اس وقت پاکستان کے دو تین بڑے مسئلے ہیں۔ تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم جس جمہوری عمل کا تذکرہ کرتے ہیں اس کو کمزور کس نے کیا ہے؟، کیا کبھی اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ سیاستدان یا سیاسی جماعتیں اس کو کمزور کرنے میںکتنی شریک ہیں، جب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو اقتدار سے نکالنے کے لیے کسی کا کندھا استعمال کریں گی اور یہ خواہشات رکھیں کہ سارا پنڈ مار دیں اور مجھ اکیلے کو زندہ رہنے دیں تو پھر یہی ہوگا۔ پارلیمنٹ کی بے توقیری آج بھی ہوتی ہے ماضی میں بھی ہوتی تھی، ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر مملکت کا خطاب سن لیتے مگر نمبر اسکور بھی تو کرنے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل