Loading
پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جنہوں نے افغانستان کی بقاء و سلامتی اور قیام امن کے لیئے بے شمار جانی اور مالی قربانیاں دینے کے ساتھ ساتھ ہر آڑے وقت میں ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے جس پر افغانی حکومتوں اور افغانیوں کو یوں تو پاکستان کا ممنون و مشکور ہونا چاہئے تھا لیکن بین الاقوامی قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے والی افغانی کٹھ پتلی حکومتوں نے ہمیشہ ہی بھارتی چانکیائی فلسفے پر چلتے ہوئے پاکستان کو ہمیشہ دوست، مددگار اور بڑا بھائی سمجھنے کی بجائے اپنا دشمن سمجھا ہے جس کی ایک بڑی وجہ مغربی دنیا اور بھارت کا افغانستان میں اپنے مفادات کے لیئے گٹھ جوڑ بھی ہے۔ اس گٹھ جوڑ کی ایک بہترین مثال جنرل مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اپنی کتاب Neither Dove Nor A Hawk میں دی ہے۔ خورشید قصوری اپنی کتاب کے صفحہ 279-278 پر لکھتا ہے کہ "پاکستان نے حامد کرزئی (افغانی صدر) کو افغانی فارن افیئرز اور ڈیفنس منسٹر کے وہ خطوط دکھائے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے مغربی علاقوں (فاٹا اور بلوچستان) میں گڑ بڑ (دہشت گردی) کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے ان افغانیوں کو سادگی کے ساتھ تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جن میں پہلا گروہ تو ہو ہے جن کی باقاعدہ رجسٹریشن ہے اور ان کو پاکستانی حکومت نے کارڈ جاری کر رکھے ہیں اور وہ مہاجرین کیمپس میں رہ رہے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جن کے پاس ڈاکو منٹ نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں لیکن وہ پورے پاکستان کے طول و عرض میں ناصرف قانونی اور غیر قانونی طور پر دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ بڑے مزے سے کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ تیسرا گروہ وہ ہے جنہوں نے پاکستانی محکموں کے افراد کے ساتھ پاکستانی شناختی کارڈبنوا رکھے ہیں۔ پاک افغان ٹینشن کے قطع نظر ان لوگوں نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنی اپنی بستیاں بسا رکھی ہیں جس سے ناصرف ہر شہر کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی سہولتکاری میں بھی کئی مواقعوں پر یہی افغانی ملوث پائے گئے ہیں۔ کراچی کی ہی مثال لے لیں کراچی میں اس وقت تقریباً چار لاکھ کے قریب افغانی مقیم ہیں۔ تاریخ کے اعتبار سے موجودہ پاکستان کی افغانی تارکین وطن کو واپسی کی ڈیڈ لائن ایک ایسا فیصلہ ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھالیکن کی نے افغانی کو کر اور کی تھا لیکن ماضی کی تمام پاکستانی حکومت نے افغانی مہاجرین کو اپنے مسلم بھائی جان کر اور افغانستان کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر ناصرف انہیں اپنے ملک میں پناہ دیتے رکھی بلکہ انہیں کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں رہ رہے ہیں۔ یوں پاکستان میں گذشتہ چالیس سال سے تقریباً چالیس سال (افغان روس جنگ کے آغاز سے لیکر آجتک) چالیس سے پچاس لاکھ افغانی بڑے مزے سے زندگی گذارتے رہے ہیں۔ پاکستان کے اس احسان پر تشکر تو کجا آج وہ افغانستان جو قائم ہی پاکستان کی وجہ سے ہے اس کے حکمران ناصرف پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں کی سرعام حمایت کرنے کے ساتھ پاکستان پر ڈائریکت حملہ کرنے کی جسارت جیسا عزم بھی دوہراتے نظر آتے ہیں۔ افغانی حکومت کی خام خیالی اور ناعاقبت اندیشی کا یہ عالم ہے کہ وہ سپر پاورز کو زیر کرنے کا جو ساگا گارہی اس میں اصل کردار پاکستان کا تھا اور افغان حکومت کو یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ امریکہ نے تو چند ہفتوں میں طالبان کا تختہ الٹا تھا افواج پاکستان چونکہ افغانستان کے چپے چپے سے ناصرف واقف ہے بلکہ ان کے ہر خُفیہ ٹھکانے سے بھی واقف ہے اس لیئے پاکستانی بری اور ہوائی افواج کے لئے یہ کام چند گھنٹوں کا ہے۔ پاکستان کے اندر سے جو مذہبی اور سیاسی جماعتیں افغان مہاجرین کے لیئے نرم گوشہ رکھتی ہیں انہیں بھی جاننا چاہئے کہ ریاست پاکستان کی حفاظت کے لیئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ چالیس سالہ ان مہمانوں جن کی پاکستان نے ہمیشہ خدمت کی اور انہوں نے پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ایسے مہمانوں کو اب وقت مناسب ہے کہ زبردستی ان کے وطن روانہ کیا جائے۔ ویسے بھی افغانی حکومت جو امن اور معاشی خوشحالی کی پینگیں مار رہی ہے اُس کا بھی تقاضہ ہے اپنے شہریوں کو اب خود پالے اور انہیں ضروریات زندگی خود مہیا کرے۔ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں تیزی، پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کی روک تھام، پاکستان کے خلاف افغان ۔ بھارت گٹھ جوڑ، پاکستانی معیشت پر افغانی تارکین وطن کا چالیس سالہ بوجھ ، پاکستان میں شرح جرائم میں اضافہ، افغانستان سے پاکستان میں ڈرگز اور اسلحہ کی غیر قانونی امپورٹ، پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گرد کاروائیوں میں افغانی حکومت کی سہولتکاری، افغانستان میں داعیش، آئی ایس، القاعدہ اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی دہشت گرد تنظیموں کے اڈوں (Safe Heavens) کی موجودگی اور تیزی سے بڑھتی قربت اور بین الاقوامی سیاسی تناظر اس بات کے غماز ہیں کہ بین الاقوامی سیاسی افق پر ایک بار پھر کوئی نئی چھڑی پک رہی ہے۔ ایسے میں حکومتِ پاکستان کی افغانی مہاجرین کو 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے ورنہ زبردستی ملک بدر کرنے کا فیصلہ ناصرف وقت کی ضرورت بلکہ ایک درست اقدام بھی ہے۔ پاکستانی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کسی طور پر بھی کسی اندرونی اور بیرونی دباؤ کی پرواہ کیئے بغیر اپنے اس فیصلے پر سختی سے عمل در آمد کرنا چاہیئے اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل